پاکستانی صدر کے سامنے افغان صدر کی شرمندگی
پاکستان کے خلاف افغانستان اور بھارت کا گٹھ جوڑ اب کسی سے مخفی نہیں رہا ہے۔
پاکستان کے خلاف افغانستان اور بھارت کا گٹھ جوڑ اب کسی سے مخفی نہیں رہا ہے۔ افغانستان اور بھارت مل کر بلوچستان کے حالات خراب کرنے اور وہاں انارکی پھیلانے کی مشترکہ کوششیں کرتے آرہے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ افغانستان مسلمان ملک ہونے کے باوجود بھارتی ہندو بنئے سے بغلگیر ہے۔ 9 اکتوبر 2015ء کو خود بھارت نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنے ہاں بلوچ علیحدگی پسندوں اور ان کے نام نہاد ترجمانوں کو پناہ دے رہا ہے۔
دہلی میں ''پناہ گیر'' بالاچ پردالی نامی ایک شخص کا یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ وہ لندن میں سیاسی پناہ یافتہ بلوچ ''لیڈر'' ہربیار مری کا نمایندہ اور علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے کا ترجمان ہے۔ بھارتی اخبار ''دی ہندو'' نے بھی بالاچ پردالی کی دہلی میں موجودگی اور اس کے دعووں اور عزائم کی تصدیق کی ہے۔ تحقیقات کے بعد یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بالاچ پردالی دراصل افغان شہری ہے اور وہ دہلی میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں اور دریدہ دہنی کررہا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یو این او میں پاکستان کی مستقل مندوب محترمہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اقوامِ متحدہ کے ذمے داروں کو پاکستان میں بھارتی مداخلتوں اور دہشت گردیوں کے حوالے سے جوتین ڈوزیئرز پیش کیے ہیں، واقعتا حقائق پر مبنی ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ امریکا بہادر، جس کی مُٹھی میں یو این او کی روح قبض ہے، بھارت کے بارے میں فی الحال پاکستان کی شکایات اور تکالیف پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت اور افغانستان کی باہمی سازشیں نئی نہیں ہیں۔ پاکستان مگر ہمیشہ کوشش کرتا آرہا ہے کہ افغانستان سے اخوت و مروت ہی کا سلوک کیا جائے لیکن افغانستان پھر بھی باز نہیں آرہا۔
پاکستان کے سابق وزیرِخارجہ جناب خورشید محمود قصوری نے اپنی تازہ کتاب Neither a Hawk Nor a Dove میں افغان امور اور افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور ان کے چیف آف سیکرٹ سروس امر اللہ صالح کے حوالے سے بھی کئی انکشافات کیے ہیں۔ ان انکشافات سے واضح ہوتا ہے کہ صدر اشرف غنی سے قبل صدر حامد کرزئی اور ان کی خفیہ ایجنسی بھارت سے مل کر پاکستان کے خلاف سنگین اور نہایت قابل اعتراض اقدامات کرتے رہے ہیں۔
خورشید محمود قصوری صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں: ''صدر حامد کرزئی کے ساتھ میری وَن آن وَن ملاقات جاری تھی کہ اچانک انھوں نے مجھ سے انتہائی ناراض لہجے میں پوچھا: تم سب پاکستانی افغانوں کو نظرِ حقارت سے کیوں دیکھتے ہو؟'' اور اس وقت تو حامد کرزئی اور امراللہ صالح کی ندامت اور پریشانی دیدنی تھی جب پاکستان نے افغانستان کے ذمے داران کو آئینہ دکھایا۔ اس کا احوال بیان کرتے ہوئے قصوری صاحب لکھے ہیں: ''اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں ہونے والی اس اعلیٰ سطحی اور حساس میٹنگ میں صدر جنرل پرویز مشرف بھی موجود تھے، افغان صدر حامد کرزئی بھی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ امراللہ صالح بھی۔ صدر مشرف کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل حامد جاوید بھی شریک تھے۔
مَیں بھی وہیں تھا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی بطور ڈی جی آئی ایس آئی بھی وہاں بنفسِ نفیس شریک تھے۔ جب امر اللہ صالح اپنے صدر کے کہنے پر پاکستان کے خلاف پرانے اور فرسودہ الزامات دہراچکے تو اپنی باری پر ہم لوگوں نے بھی پاکستان کے خلاف افغانستان کی سازشوں اور افغان حکومت کی طرف سے افغانستان میں بھارتی ''را'' کے ایجنٹوں کو سہولیات فراہم کرنے (تاکہ وہ پاکستان کے خلاف کام کرسکیں) کے شواہد پیش کیے۔
ان شواہد میں فون ٹیپنگ بھی تھیں، اصلی فوٹو بھی تھے اور پاکستان دشمنوں کو افغان حکومت کے جاری کردہ اوریجنل ڈاکومنٹس بھی۔ صدر حامد کرزئی پاکستان کے ہاتھوں میں افغان وزارتِ دفاع کی وہ حساس دستاویزات دیکھ کر انتہائی شرمندہ اور پریشان ہوئے جن میں فاٹا سے متصل افغانستان کے علاقے کے افسروں کو حکم دیا گیا تھا کہ ''بھارتی دوست'' (یعنی ''را'' کے ایجنٹ) آرہے ہیں، انھیں (پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لیے) تمام ضروری اور مطلوبہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔ یہ احکامات جاری کرنے میں افغان خفیہ ایجنسی (NDS) کے سینئر افسران بھی شامل تھے۔ پاکستان کے خلاف یہ اوریجنل افغان ڈاکومنٹس دیکھ کر ہمارے سامنے بیٹھے افغان صدر اور ان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ندامت اور خجالت کی تصویر بن گئے تھے۔
اور جب صدر پرویز مشرف نے افغان صدر سے پوچھا کہ فاٹا سے متصل افغان علاقے میں ''را'' کے یہ کارندے کیا کررہے ہیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ افغان صدر حامد کرزئی کو جب کابل میں موجود حکومتِ پاکستان کو مطلوب بعض ناپسندیدہ بلوچ عناصر کی فوٹو اور ان کو فراہم کردہ افغان حکومت کی سہولیات کے مناظر دکھا کر پوچھا گیا کہ یہ لوگ وہاں کیوں موجود ہیں اور افغانستان کے تعاون سے انھیں بھارت کیوں بھیجا جاتا ہے تو حامد کرزئی کو چُپ لگ گئی۔ حامد کرزئی حکومت نے بلوچستان کے ناپسندیدہ عناصر کو افغان ایئرلائن کے ذریعے دہلی بھی بھجوایا تھا۔ جب کئی تصویروں اور دستاویزات کے ساتھ اس کی تفصیل حامد کرزئی کو پیش کی گئی تو بھی ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔''
یہی حامد کرزئی صاحب صدارت سے محروم ہونے کے باوجود اب بھی بدستور بھارت سے مل کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے افغان صدر جناب اشرف غنی کو بھی پاکستان کے خلاف بھڑکانے کی افسوسناک کوششیں کررہے ہیں۔ اب افغان حکومت کو آئینہ دکھانے کا فریضہ جنرل راحیل شریف اور جناب محمد نواز شریف کو انجام دینا چاہیے۔ اس بات کی بھی امید رکھی جاتی ہے کہ 22اکتوبر کو جب وزیراعظم نواز شریف کی امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات ہوگی تو پاکستان کے خلاف بھارتی اور افغانی سازشوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذکر بھی چھڑے گا۔
خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ جب تک پاکستان کے وزیرخارجہ رہے، ایران اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ امریکا کے لیے بھی یکساں معتمد تھے۔ لکھتے ہیں: ''ایران اور یورپی یونین کے نمائندگان، دونوں کی یہ خواہش تھی کہ مَیں درمیان داری کا کردار ادا کرتے ہوئے ایران اور امریکا کو قریب لے آؤں۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے ایرانی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے طاقتور سیکریٹری علی لاریجانی متعدد بار میرے دفتر تشریف لائے اور یہ گفتگوئیں ہوتی رہیں کہ ایران کی طرف سے کس طرح کا اور کن الفاظ پر مشتمل پیغام امریکا کو بھجوایا جائے۔
ایرانی صدر احمدی نژاد اور امریکی صدر بُش کے درمیان مگر خلیج اتنی گہری اور وسیع تھی کہ پیغام رسانی کی یہ بیل بدقسمتی سے منڈھے نہ چڑھ سکی۔'' خورشید قصوری صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ''امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے 2006ء کے دوران میرے توسط سے ایرانی حکومت کے یہ پیغام بھجوانے کی بھی کوشش کی کہ خبردار، ایران کی طرف سے لبنان کی ''حزب اللہ'' کو ایسے میزائل فراہم نہ کیے جائیں جن کی مار اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب تک ہو، وگرنہ ۔۔۔''
مصنف جناب خورشید محمود قصوری نے چینی وزیراعظم (وین جیا باؤ) کے ساتھ ہونے والی ایک بااعتماد گفتگو اور ان سے بننے والے تعلق کو اندازِ احسان میں یاد کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ''چینی وزیراعظم وین جیاباؤ سے ہونے والے وہ گفتگو بھلا مَیں کیسے فراموش کرسکتا ہوں جب انھوں نے مجھ پر گہرا اعتماد و اعتبار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مَیں پہلا غیر چینی لیڈر ہوں جسے یہ اعزاز ملنے والا ہے کہ اس نے چین کے ٹاپ سیکریٹ خلائی پروگرام اور انتظامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔'' واقعہ یہ ہے کہ پاک بھارت اور افغان تعلقات کی تفہیم کے لیے خورشید قصوری صاحب کی یہ تصنیف ہمارے سیاستدانوں اور صحافیوں کے لیے نہایت کارآمد ہے۔