کون سی قوم
ہائی کورٹ سرکٹ بنچ نے سو ایکڑ زمین پر قبضہ، گھر میں لوٹ مار، ہر ایس ایچ او کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے
- ... ہائی کورٹ سرکٹ بنچ نے سو ایکڑ زمین پر قبضہ، گھر میں لوٹ مار، ہر ایس ایچ او کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ با اثر شخصیت کے ایما پر جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے، پولیس اور مسلح افراد نے گھر پر حملہ کرکے لاکھوں روپے مالیت کے زیورات، 2بھینسیں،4 بکریاں اور دیگر قیمتی سامان لوٹ لیا، سامان واپس دلایاجائے۔ جھوٹا مقدمہ ختم کیا جائے۔
- ... مخصوص افسران کی جانب سے ٹھیکیداروں سے ملی بھگت کے ذریعے صحت و صفائی کی مد میں سامان کی خریداری اور دیگر معاملات کے لیے مختص بجٹ کو جعلی کوٹیشنز کے ذریعے ٹھکانے لگادیا گیا۔ جھوٹے دعوؤں اور پریس ریلیز کے ذریعے شہر میں صحت و صفائی کے انتظام کو بہترین بنایا جارہاہے جب کہ کچرے کے ڈھیر اور گندا پانی جو سڑکوں پر ہے وہ دوسری کہانی سنارہے ہیں۔
- ... ٹیسٹ پاس کرنے والے ٹیچرز کو آفر لیٹر نہ دینے پر سیکریٹری تعلیم سے جواب طلبی متاثرین کی پٹیشن پر عدالت کی کارروائی۔
- ... کول مائنز سے بھاری مالیت کا کوئلہ چوری کرکے اوپن مارکیٹ میں فروخت کیا جارہاہے اور امن وامان کا بہانہ کرکے کول مائنز کی لیز منسوخ کردی گئی ہے۔
- ... پولیس کی موجودگی میں رہزنوں نے موٹر سائیکل چھین لی، اہلکار تماشا دیکھتے رہے۔ ایس پی نے دونوں پولیس والے معطل کردیے۔
- ... گودام پر چھاپہ، جعلی کھاد اور جعلی زرعی ادویات برآمد، عمارت سیل، کمپنی کے منیجر کی پولیس سے بد کلامی۔
- ... سرکاری ملازمین صرف سرکاری کام کریں۔ با اثر افراد کے بنگلوں پر کام کرنے والے ملازمین کو ڈپٹی کمشنر نے دفتر طلب کرلیا۔
- ... تھانے پر چھاپہ حبس بے جا میں رکھے 2 افراد بازیاب، بازیاب افراد کا تھانے میں کوئی اندراج نہیں تھا۔
- ... افغانستان میں نقل مکانی کرنے والے 95 ہزار پاکستانیوں کو غذائی قلت کا سامنا، 12 ہزار افراد واپس پاکستان آگئے۔
- ... چیئرمین نے ادارے میں کرپشن کا اعتراف کرلیا۔ 20،22 سال سے سوسائٹیوں نے لوگوں کی کمائی ہڑپ کی۔
ان خبروں کو آپ نے پڑھا ہے۔ کیا لگا آپ کو، کوئی خاص بات ... کچھ محسوس ہوا ... شاید نہیں، کیوں کہ ان خبروں میں ساری قدریں مشترک تھیں اور آپ ان کے واقف حال ہیں۔ بات سمجھانے کی ہے اور سمجھنے کی ہے میں نے ان تمام خبروں میں سے شہروں کے نام حذف کردیے ہیں مگر کوئی خاص اثر آپ کو محسوس نہیں ہوا ہوگا کیوں کہ جب پورا معاشرہ انحطاط کا شکار ہو تو سب کچھ ایک جیسا لگتا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ ان خبروں میں عدالتی خبریں بھی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ حکومت کو شاید قانون کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ اور قانون کب اپنا راستہ اختیار کرے گا یہ قانون کے علاوہ کسی کو پتہ نہیں ہے۔
ہمارے یہاں عناصر ترکیبی کیا ہیں، معاشرے کے، دولت، اثر (بذریعہ دولت)، طاقت (بذریعہ دولت) یعنی در اصل ہمارا معاشرہ دولت زدہ ہے۔ یہاں کے تمام معیارات، تمام قدریں، تُل کر بکتی ہیں۔ شرافت، دیانت، اخلاص کھوٹے سکے بن چکے ہیں اور ان کو اختیار کرنے والوں کو لوگ شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انسان کتنا مجبور اور کتنا مختار ہے یہ بھی آپ نے ان خبروں سے اندازہ لگا لیا ہوگا۔ آپ کے دروازے کے قریب آپ کا نمایندہ رہے اور آپ اس کے دروازے کی بیل بجاسکیں۔ یہ ممکن نہیں ہے یہ سسٹم اپنے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کو تیار نہیں۔ ہمیں کسی شخصیت کو زیر بحث نہیں لانا، مگر ماضی میں بلدیاتی نظام کے کتنے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ یہ آپ سب دیکھ چکے ہیں، اب یہ اختیارات صوبوں کے وزیراعلیٰ صاحبان اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں بالواسطہ، مشکل ہوجائے گی۔ پنپ نہیں سکیں گے۔
اختیارات عوام کو دینے پڑیں گے، آج نہیں تو کل یہ ہوکر رہے گا، اگر یہ کرلیا جائے تو بہت سے ''انقلاب'' اور ان کی ''کال'' رک جائے گی کیوں کہ ان کے ذریعے بھی تو یہی کام ہونا ہے، وہ بھی تو عوام کے اختیارات عوام کو دینے کا نعرہ لگارہے ہیں یہ صرف ''نعرہ'' ہے یا حقیقت، اس کا TEST تو بعد میں ہی ہوسکتا ہے مگر صلاح ہے مفت ہے، نظام درست کرلیں۔
ایڈمنسٹریشن میں دیانت دار افراد مقرر کردیں، آپ کی ''جمہوریت'' محفوظ رہے گی، عدالتوں نے بہت دیانتدارانہ مبنی برحقیقت فیصلے بھی کیے ہیں اوروہ اپنا یہ کردار ادا کرتی رہیں گی کسی کو پسند ہو یا نہ ہو۔ شاید وہ حکومت کو مناسب وقت دے رہی ہیں کہ وہ درست فیصلوں کی طرف آجائے اور عوامی شکایات کا سدباب کرلے۔
ایک چیف منسٹر کا اسٹائل بہت دیر تک نہیں چلے گا، وزیراعظم کو ''کمان'' اپنے ہاتھ میں لے لینی چاہیے اور تمام پارٹیوں سے حقیقی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرکے ایک سچی جمہوری حکومت کا کردار ادا کرنا چاہیے اور LEADING FROM FRONT کے طور پر خود آگے بڑھ کر پاکستان کی فلاح و بہبود کا جھنڈا ہاتھ میں لینا چاہیے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے کہ غریب کے حقوق غصب کرلیے جائیں۔ امن وامان، چور بازاری، ڈکیتیاں، اغوا، آبروریزیاں، ان سب کی پشت پر اگر وہ تحقیقات کریں گے تو بہت نامی گرامی اور جانے پہچانے چہرے نظر آجائیں گے یا وہ با اثر افراد ہوں گے یا با اثر انتظامیہ کے افراد جنھوں نے پورے ملک میں بد دیانتی اور بے ایمانی کا شاہی بازار قائم کر رکھا ہے اور جہاں غریب کو پیروں تلے دباکر رکھا جاتا ہے۔
ہر لمحہ اس کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے، ہندوستان کے درسی اداروں میں اب ہندو مسلم طالب علم ساتھ پڑھیں گے، ہمارے یہاں ادارے ایک دوسرے کے سامنے کلاشنکوف تھامے کھڑے ہیں ۔ بچے گھروں میں پیدا ضرور ہوتے ہیں مگر ان کی تربیت اداروں میں ہوتی ہے چاہے مدرسہ ہو یا اسکول ان کو باعزت بنانا ضروری ہے اور سب کے لیے اوپن کرنا ضروری ہے غریب اور امیر کا فرق صرف لیاقت ہونا چاہیے ورنہ ایک ادارے سے بڑے گھروں کے نا اہل افسران اور دوسرے ادارے سے ظلم کے شکار عدم برداشت یافتہ دہشت گرد، چور، ڈاکو اور لٹیرے بھی پیدا ہوں گے، سوچ لیں ہمیں کون سی قوم چاہیے؟