عورت کے آنسو
سنبل میٹرک کی طالبہ تھی، اس کی شادی کراچی کے رہائشی فیصل سے کی گئی تھی،
RIYADH:
سنبل میٹرک کی طالبہ تھی، اس کی شادی کراچی کے رہائشی فیصل سے کی گئی تھی، جو پیشے کے اعتبار سے سُنار اور عمر میں اس سے بڑا تھا اور وہ سنبل کو آئے روز تشدد کا نشانہ بناتا تھا، تاہم وہ گھر بچانے کے لیے ظلم و ستم سہتی رہی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے درندہ صفت شوہر فیصل نے اسے بدکاری پر مجبور کرنا شروع کردیا تھا اور ہر بار انکار پر بدترین تشدد کا نشانہ بنانے لگا تھا۔
آئے روز فیصل دو، چار افراد کو گھر پر لے کر آجاتا تھا اور اسے بلوا کر غیر مردوں کے سامنے بدکاری کا کہتا تھا جس پر وہ صاف انکار کرتے ہوئے وہاں سے چلی جایا کرتی تھی۔ فیصل نے دوبارہ یہی کیا کہ وہ غیر مردوں کو گھر میں لے کر آیا اور اسے بدکاری پر مجبور کرنے لگا جس سے صاف انکار پر اس نے گھر پر آئے ہوئے مردوں کو گھر سے باہر نکالا اور اس کا گلا کپڑے سے باندھ کر سر کے سارے بال کاٹ دیے اور بدترین انسانیت سوز تشدد کیا۔
چیخ و پکار کے بعد مالک مکان نے درندہ صفت شوہر سے بچا کر تحفظ دیا۔ اس کی والدہ کے پہنچتے ہی وہ واپس اپنے ایک بیٹے کے ساتھ حیدرآباد پہنچ گئی، لیکن ان کا ایک بیٹا اب بھی اسی ظالم شخص فیصل کے پاس ہے جو انھیں اب بھی فون پر قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ حیدرآباد کی رہائشی سنبل نے حیدرآباد پریس کلب پر زار و قطار روتے ہوئے ظلم کی یہ داستان بیان کی ہے۔
اس بے بس اور پارسا جواں نیک عورت کو قانونی انصاف ملتا ہے کہ نہیں؟ یہ قبل از وقت بات ہے لیکن قدرت کے یہاں ضرور انصاف ملنے والا ہے کہ اس کی ذات عادل ہے۔شوہر قابل مذمت ہے۔ تاسف کا مقام ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بہ دن زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہر سو وہ تمام برائیاں نظر آرہی ہیں جس کی وجہ سے پچھلی قومیں نیست و نابود ہوئیں۔
دراصل جس سماج میں قانون کی حکمرانی کمزور پڑ جائے وہاں ڈر و خوف ختم ہوجاتا ہے جس کی پاداش میں مجرمانہ سرگرمیاں نت نئی صورت میں پروان چڑھنے لگتی ہیں اور انتہا پر پہنچنے پر بالآخر پورا معاشرہ زمین بوس ہوجاتا ہے۔ یہاں بات صرف ایک سنبل کی نہیں ہے، ہمارے اردگرد سیکڑوں عورتیں ظالمانہ تشدد کا شکار ہیں اور یہ سلسلہ نیا نہیں ہے برسوں سے بدستور جاری و ساری ہے اور کوئی روکنے و ٹوکنے والا نہیں۔
ملتان کے نادر بٹ نے 6 سال قبل سرگودھا کی رہائشی نائلہ سے محبت کی شادی کی تھی، ان کے یہاں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اس دوران نادر بیوی کو لے کر بورے والا میں آگیا، کچھ روز قبل نائلہ نے ایک اور بچی کو جنم دیا تو نادر بٹ آگ بگولہ ہوگیا اور اسے بہیمانہ تشدد کرکے ابدی نیند سلادیا کہ ''تُو نے بیٹی پیدا کیوں کی؟'' ملزم کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ وہ میت لے کر تدفین کے لیے ملتان اپنے والدین کے گھر پہنچ گیا، جب نائلہ کی موت کی خبر اس کے والدین کو سرگودھا میں ملی تو وہ تھانہ سٹی پولیس کو لے کر ملتان پہنچ گئے اور میت واپس بورے والا لے آئے، پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔ یہاں بھی ہمارا معاشرہ شرمندہ دکھائی دے رہا ہے، یہاں بھی عورت کی مظلومیت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے اپنی مرضی سے لڑکا یا لڑکی جنم دینا، عورت کے اختیار میں نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی انسان کے بس کی بات ہے۔
اولاد اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے یا بیٹے اور بیٹیاں ملے جلے (عطا فرماتا ہے) اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔ یقینا وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔'' (سورۃ الشوریٰ 42، آیت 50۔49)
اپنے وقت میں جب جاہلیت عرب قوم میں سرائیت کرچکی تھی تب وہ اپنی زندہ بیٹیوں کو دفن کیا کرتے تھے پھر خدا نے ان پر رحمت کی انھیں احساس ہوگیا کہ وہ غلطی پر تھے، لڑکا ہو یا لڑکی دونوں صورتوں میں اولاد ہونا رحمت خداوندی ہے۔ لیکن آج ہم 21ویں صدی میں سانس لے رہے ہیں جہاں جدید سے جدید ترین ٹیکنالوجی نے انسانی عقل و فہم کا لوہا منوایا ہے ایسے میں وہ لوگ جن کا یہ ایمان ہے کہ خدا ہی ہر چیز پر قادر ہے پھر بھی اولاد کے معاملے پر عورت کو ہی دوش دیتا ہے جو سراسر جاہلیت ہے۔
یہ معاشرے کا وہ مسئلہ ہے جو معاشرے کا اپنا ہی پیدا کردہ ہے۔جو ناجائز جہیز کا شاخسانہ ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے ہیں کہ لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں اس کے جہیز کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ جہیز کی طلب اگر آدمی کے استحقاق کے مطابق ہو تو لڑکی کی پیدائش بھی لڑکے کی طرح نعمت لگے گی۔
خوشبو کی شادی دونوں فریقین (لڑکے اور لڑکی) والوں کی رضامندی سے ارشد علی کے ہمراہ ہوئی، شادی کے 2 ماہ بعد ارشد کا اپنی بیوی خوشبو پر مارپیٹ اور تشدد معمول بن گیا، انھیں کسی سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا، 4 ماہ بعد شوہر نے ایک مرتبہ پھر بیوی کو تشدد کا نشانہ بنایا اور انھوں نے اپنے بھائی شمس الزماں اور اس کی اہلیہ کی موجودگی میں منصوبہ بندی کے تحت خوشبو کو طلاق دے دی، اچانک طلاق کا سن کر خوشبو رونے لگی جس پر شمس الزمان کی اہلیہ نے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے خوشبو کو پانی پلایا اور اسے چائے بھی پلائی گئی، چائے پینے کے بعد خوشبو بے ہوش ہوگئی جب ہوش آیا تو انھوں نے خود کو ایک تاریک کمرے میں پایا، خوشبو 4 دن تک اس کمرے میں قید رہی۔ بعدازاں ماجد نامی شخص کمرے میں آیا اور کہا کہ وہ اس (خوشبو) کی زرخرید ہے اور اسے ایک لاکھ روپے میں خریدا ہے اب تمام زندگی اس کی غلام بن کر رہنا ہوگا۔
خوشبو کے رونے اور چیخنے پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ خوشبو سے جعلسازی کے ذریعے شادی کی اسے مالاکنڈ بے ہوشی کی حالت میں لے جایا گیا، ماجد چھ بچوں کا باپ تھا اس نے بچوں اور بیوی کی دیکھ بھال کے لیے خوشبو کو خریدا اور ڈیڑھ ماہ تک زیادتی کرتا رہا، ایک دن پڑوسن ان کے گھر آئی خوشبو نے اسے حقائق بتائے اس نے خوشبو کی والدہ کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کیا، خوشبو کے والدین نے سسرالیوں سے رابطہ کیا تو انھوں نے معقول جواب نہ دیا۔
جس پر خوشبو کی والدہ نے پیرآباد تھانے میں اغوا کا مقدمہ درج کرایا پولیس نے مقدمہ درج کرلیا لیکن ملزمان کو گرفتار نہیں کیا مقدمہ درج ہونے پر ماجد نے خوشبو کو دھمکیاں دیں لیکن خوشبو پڑوسن کی مدد سے فرار ہوکر کراچی پہنچ گئی۔ خوشبو نے سیشن جج کے حکم پر جوڈیشل مجسٹریٹ محمد اشفاق اعوان کے روبرو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت مذکورہ بالا بیان قلم بند کرایا۔ یہ ہے آج کا معاشرہ جس میں عورت رو رہی ہے، اور باتیں ہم ایران توران کی کرتے ہیں۔