استاد کا احترام
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ جس کی بادشاہت کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ جس کی بادشاہت کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔ اپنے استاد کے ساتھ سفر کرنے کے لیے نکلا، راستے میں ایک ندی آگئی استاد نے آگے بڑھ کر ندی کو پار کرنا چاہا لیکن بادشاہ نے استاد محترم سے کہا کہ استاد محترم! ندی کو پہلے میں پار کروں گا۔ استاد کو بہت برا محسوس ہوا کہ شاگرد اگر بادشاہ ہے توکیا ہوا میں ان کا استاد ہوں۔ تکریم اور فضیلت میں مجھے مرتبہ حاصل ہے۔ اس لیے ندی کو پہلے پارکرنا میرا حق ہے۔
بادشاہ نے ان کی بات سنی اورکہا۔ استاد محترم! آپ کی بات سر آنکھوں پر بے شک آپ کا مرتبہ اور عزت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ آپ ہی میرے استاد ہیں اور پہلے ندی پار کرنے میں میرا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ نے ندی پہلے پار کی اور اس کے نتیجے میں آپ کی جان چلی گئی تو پورے عالم کا نقصان ہوگا اس لیے میں نے سوچا کہ پہلے ندی میں پارکروں تاکہ پانی کی تندی کا اندازہ ہوسکے کیونکہ میرے ندی عبور کرنے کے نتیجے میں اگر میری جان چلی گئی تو صرف ایک شہنشاہ کی جان جائے گی آپ زندہ رہے تو مجھ جیسے کتنے بادشاہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بادشاہ سکندر اور استاد ارسطو تھے۔
یہ واقعہ صدیوں سے استاد کی عزت و احترام کا گواہ ہے مگر اسلامی معاشرے نے تو استاد کو روحانی باپ قرار دیا ہے اور استاد کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے کیونکہ یہ پیشہ پیغمبری پیشہ ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلم انسانیت تھے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے جس نے مجھے ایک سبق بھی پڑھایا وہ میرا استاد ہے۔ یعنی حضرت علیؓ جیسا عالی مرتبہ انسان جو خلیفہ وقت ہونے کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد بھی تھے آپؓ نے استاد کی اہمیت کے متعلق فرما کر استاد کی اہمیت کو امر کردیا۔ شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال کی خدمت میں برطانوی حکومت نے ''سر'' کا خطاب پیش کیا مگر علامہ اقبال نے یہ کہہ کر خطاب لینے سے انکار کردیاکہ آج میں جو کچھ بھی ہوں اس میں میرے استاد کا بہت اہم کردار ہے اس لیے پہلے میرے استاد کو یہ خطاب دیا جائے، پھر مجھے دیا جائے۔
اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اقبال کا اساتذہ کے بارے میں کیا نظریہ اور سوچ تھی کہ استاد ہی کسی انسان کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب ہم اپنے معاشرے پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کے جو شاندار واقعات، روایات اور تہذیب کے خوبصورت انداز تھے وہ قصۂ پارینہ بن چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب سے ہم نے استاد کی معاشرے میں عزت مجروح کی ہے اس وقت سے تعلیمی سلسلہ زوال پذیر ہوچکا ہے جب کہ ترقی یافتہ دنیا میں آج بھی استاد کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اشفاق احمد لکھتے ہیں جاپان میں ان کی گاڑی کا چالان ہوگیا جس کی وجہ سے انھیں ایک دن چھٹی کر کے عدالت میں پیش ہونا پڑا، جب جج کو یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک استاد ہیں تو انھوں نے ان کی عزت وتوقیر کی حد کردی، مگر ہمارے ہاں اب یہ احترام کچھ ختم ہوتا جا رہا ہے حالانکہ استاد کی عزت بھی ہم پر اسی طرح فرض ہے جیسے والدین کی کیونکہ اساتذہ روحانی ماں باپ ہوتے ہیں مگر ہم زندگی کے ہر شعبے میں انحطاط کا شکار ہیں۔ اب مال و دولت رکھنے والے کو معاشرے کا معزز فرد سمجھا جاتا ہے ایک ناجائز طریقے سے کمانے والا ہماری نظر میں صاحب ثروت ہے، مگر استاد کی عزت کرنے میں شان گھٹتی نظر آتی ہے۔ استاد کو وہ مرتبہ جو اس کا حق ہے نہ دینے میں معاشرہ والدین اور طلبا غفلت کے مرتکب ہوچکے ہیں۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ آج کے اساتذہ بھی اس کے ذمے دار ہیں۔ ماضی میں استاد کا کردار یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو طلبا کے افعال و کردار کا ذمے دار سمجھتا تھا مگر آج تعلیم کمرشل ہوچکی ہے اساتذہ بھی مادیت کی دوڑ میں اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ ان کی ترجیح بھی اب جماعت نہیں ان کے کوچنگ سینٹر بن چکے ہیں اسکول و کالج میں استاد نظر نہیں آتے مگر شام میں اپنے کوچنگ سینٹرز کو چار چاند لگانے ضرور پہنچ جاتے ہیں جن اداروں میں وہ ملازم ہیں وہاں کے طالب علم بھی ان کی اتنی ہی ذمے داری ہیں جتنا ان کا کوچنگ سینٹر۔ استاد کے کردار کے ساتھ ساتھ ریاست بھی اسی طرح ذمے دار ہے کیونکہ تعلیم کو کمرشل کرنے میں ریاست بھی اسی طرح ذمے دار ہے اگر ریاست اساتذہ کی فکری و نظری تربیت کریں ان کے معاشی مسائل کو سمجھیں ان کی تنخواہیں معقول کریں۔
ان کے کوچنگ سینٹر وغیرہ کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے اور اساتذہ بھی بے فکر ہوکر اپنے فرائض منصبی خوش اسلوبی سے انجام دیں طلبا کی شخصیت کو نکھارنے اور بنانے میں والدین کے ساتھ ساتھ استاد کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے اسی لیے تو اس کو پیشہ پیغمبری قرار دیا گیا ہے اگر تعلیمی معیار کو بلند کرنا ہے تو کتابوں اور نصاب کو بدلنے کی جگہ معاشرے میں استاد کو بدلو۔ اگر استاد کو سربلند نہیں کیا جائے گا تو یہ شعبہ اسی طرح زوال پذیر رہے گا۔ اساتذہ کے اندر صبر، استقامت، مشن و اخلاص کو بحال کرکے ہی بہتری لائی جاسکتی ہے۔
اسی طرح معاشرے کے سرکردہ افراد اساتذہ کی عزت و وقعت کے لیے کام کریں تو بھی استاد کی کم ہوتی ہوئی عزت اور وقعت میں اضافہ ممکن ہے۔ ٹیچرز کے عالمی دن کے موقع پر ایک خوبصورت پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا۔ دی ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے یہ باوقار تقریب صرف اور صرف اساتذہ کی عزت و احترام میں منعقد کرکے اساتذہ کے دلوں اور جذبوں کو گرما دیا۔ اساتذہ کے عالمی دن پر منعقدہ یہ تقریب اپنی نوعیت کی اچھوتی تقریب تھی جس میں تمام تر ٹیچرز نے بھرپور طریقے سے شرکت کرکے اپنے آپ کو منوا لیا۔ سردار یاسین ملک ستارہ جرأت اور سابقہ وزیر اوقاف نے اپنی تقریر میں اساتذہ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور ماضی کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے استاد ہونے پر فخر کا اظہار کیا۔
اس تقریب کی خصوصی بات یہ تھی کہ اس میں مختلف پرائیویٹ، گورنمنٹ اسکولوں کے سیکڑوں اساتذہ اور طلبا بھی موجود تھے جو اپنے اساتذہ کی عزت و احترام سرکردہ شخصیات کی نگاہوں میں دیکھ کر پرجوش ہو رہے تھے اور اساتذہ بھی نم آنکھوں سے اپنی شان میں ہونے والی تقریروں کو سن رہے تھے، تالیوں کا بے پناہ شور اس بات کا غماز تھا کہ اساتذہ کے اندر آج بھی وہ جذبہ، وہ محنت اور خلوص موجود ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ زیادہ اہمیت کے حامل اس لیے ہیں کہ وہ انتہائی معمولی مشاہرے پر طلبا کو سخت محنت سے پڑھاتے ہیں۔
ناظمہ اطہر ماہر تعلیم کی اس بات پر اساتذہ نے خصوصی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ تقریب میں اسپیشل بچوں کو سکھانے سمجھانے والے اساتذہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔ پیرزادہ قاسم سابقہ وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی بھی تقریب کی رونق بڑھانے کے لیے موجود تھے۔ آخر میں تمام اساتذہ کو شیلڈ اور سرٹیفکیٹ دیے گئے تقریب کی خوبصورت کمپیئرنگ سلیم مغل نے کرکے ایک سماں باندھ دیا۔ ایسے اساتذہ جوکہ تعلیم کے دوران ہی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس شعبہ (تعلیم) کو چن لیتے ہیں مگر وہ کسی تربیت کے بغیر ہی اپنی خدمات کا آغاز کرتے ہیں ایسے اساتذہ کے لیے دی ایجوکیشن فاؤنڈیشن بالکل فری تربیت کا آغاز کرتا ہے۔
آج کے دور میں جب کہ مونٹیسوری اور پری پرائمری کے کورسز کی فیس لاکھوں میں لی جا رہی ہے وہاں اس ادارے کے ذریعے کریش پروگرام میں شرکت کرکے اساتذہ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرسکتے ہیں کیونکہ آج کے جدید دور میں لمحہ بہ لمحہ نت نئے پڑھانے کے طریقے وضع ہو رہے ہیں اور وہ اساتذہ جو معمولی مشاہرے پر کام کرتے ہیں اور مہنگے کورس افورڈ نہیں کرسکتے تو ان کے لیے یہ ادارہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ اساتذہ تربیت حاصل کریں اور اپنے سے وابستہ طلبا کو روایتی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھیں تاکہ طلبا معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائیں۔