لکھاری

لکھاری کا لوح و قلم سے بڑا تعلق ہوتا ہے، وہ لکھے میں سےلکھتا ہے اور بیوقوف لوگ اسے ادیب جان کر قابِل ستائش سمجھتے ہیں۔


جو لکھ کے پڑھتے ہیں وہ اچھا لکھتے ہیں، اور جو پڑھ کے لکھتے ہیں وہ کمال کرتے ہیں۔

لکھنے والے اور پڑھنے والے یوں تو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ٹھہرے، مگر ان دونوں کی کیفیات اور کرب میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔ لکھاری بہت مظلوم ہوتا ہے، وہ تمام چیزیں، واقعات، کیفیات، جزئیات، کارگذاری، دن اور راتیں جو سب کے لئے معمولی ہوتی ہیں وہ لکھنے والے کو مستقل عذاب میں رکھتی ہیں، وہ جب تک ان کرداروں کو صفحات پر منتقل نہ کردے اسے چین ہی نہیں آتا۔

کتنا فرق ہوتا ہے نہ لکھنے والوں اور وہ جو لکھے گئے، وہ جو لکھے جانے کے قابل تھے، وہ جو لکھے جانے کے شوقین تھے اور پیسہ دے کر اپنی برہنہ شخصیت کو روشنائی کی پوشاک پہنانا چاہتے تھے یہ جانے بنا کہ روشنائی تو ہر چیز کو مزید روشن کر دیتی ہے۔ اس کالے بورڈ کی سیاہی کی طرح جو سفید چاک سے اور نمایاں ہوجاتی ہے، اور وہ جو لکھنے کی پاداش میں جلا وطن ہوئے، قتل کروا دئیے گئے، مٹا دیئے گئے، اور وہ جنہیں لکھے ہوئے کو مٹانے کا زُعم تھا، اور وہ جو لکھے ہوئے کو ماننے کو تیار نہ تھے، اور کچھ ایسے بھی خوش نصیب ہیں کہ جو اپنی ہمت و محنت سے قسمت کے کینوس پر جو چاہے لکھ دیں اور کائنات ان کے لکھے کی اپنے لکھے سے ہم آہنگی پر مسکراتی رہے۔

لکھاری کا لوح و قلم سے بڑا تعلق ہوتا ہے، وہ لکھے میں سے لکھتا ہے اور بیوقوف لوگ اسے ادیب جان کر قابِل ستائش سمجھتے ہیں اور وہ جو سب سے بڑا لکھاری ہے اسے بھول جاتے ہیں، آخر لکھے میں سے لکھنا کون سی بڑی بات ہے؟ لکھاری معاشرے کی غلاظتوں کو بیان کرکے سارا گناہ اپنے سر لے لیتا ہے۔ وہ تو جسم لکھتا ہے۔ آنکھیں تو قارئین کی ہوتی ہیں، جو چاہیں رنگ دے دیں، چاہیں تو جسم کو حسن کی حدّت میں جلا کر راکھ کر دیں اور چاہیں تو جسم کو دیوتا بنا کر عقیدت میں غرق ہوجائیں۔ لکھنے کا فن سیکھا بھی جاتا ہے اور ودیعت بھی ہوتا ہے، جو لکھ کے پڑھتے ہیں وہ اچھا لکھتے ہیں، جو پڑھ کے لکھتے ہیں وہ کمال کرتے ہیں، آنکھ کھلی ہو تو قدرت کی ہر شے میں لکھا نظر آتا ہے، وہ بھی جو صاف ظاہر ہے اور وہ بھی جو پوسشیدہ، بادشاہوں کی تقدیر ماتھے پر سجائے لوگ قسمت کا رونا روتے ہوئے کتنے عجیب لگتے ہیں نا؟

کچھ لوگ کہانیاں لکھتے ہیں اور کچھ کو کہانیاں لکھتی ہیں۔ محبّت کی تشریح ممکن ہی نہیں، یہ تو محبّت ہے جو بندے کو ڈیفائن کرتی ہے، نجانے لوگ کیسے دعوٰی کرتے ہیں کہ انہیں کسی سے الله کے لئے محبّت ہے، مجھے تو آج تک الله سے الله کے لئے محبّت نہ ہوسکی، دعاؤں کی طرح لکھے گئے کی بھی کوئی ایکسپائری میعاد نہیں ہوتی، جس طرح آپکی دعا کہ الله اسے چلنا سِکھا، بولنا سکھا تا عمر قابل استعمال رہتی ہے اسی طرح لکھا ہوا بھی صدیوں تک اپنے وجود کی گواہی دیتا رہتا ہے، اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ لکھنے والے لکھے ہوئے سے ڈر جاتے ہیں، علم سے ڈر جاتے ہیں، ہوش کھو بیٹھتے ہیں اور پھر یہاں سے آگہی کا سفر شروع ہوتا ہے۔

[poll id="714"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔