علم کے جذبے سے سرشار والدین
ہماری خوبصورت نظریاتی عمارت کی بنیادیں ’’اقراء‘‘ کی اساسی اینٹ پر ٹکی ہوئی ہیں
گزشتہ دنوں ملک میں والدین نے پرائیویٹ اسکولوں کی بھاری بھر کم فیسوں کے خلاف بڑے جوش و جذبے کے ساتھ احتجاج درج کروائے۔ یہ وہ والدین ہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اور گھر کے بجٹ میں کفایت شعاری اپنا کر کے بھاری بھرکم فیسیں، بچوں کے اسکولوں کی آمد و رفت سمیت درس و تدریس کے عمل کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
پورا مہینہ عزت، پردہ داری اور اپنی خواہشوں کا گلہ گھونٹ کر اپنے بچوں کے رخساروں پر ٹیچر کی جانب سے دیے جانے والے Star کو دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ وہ والدین ہیں جو پانچ وقت الصلو ۃ یعنی قابلِ عمل مساوات کی دعوتِ عام میں شریک ہو کر اپنے ناتواں اور کمزور ہونے کے اثبات میں اپنے خالقِ بزرگ و برتر کے حضور ان کی جانب سے انعامات دیے جانے والے راستے پر چلنے کی توفیق مانگتے رہنے کی درخوا ست بھی جمع کراتے رہتے ہیں، یہ وہ والدین ہیں جو کہ اپنی تمام تر شخصیت پر اولاد کی ضروریات کو غالب کیے ہوئے ہیں۔
یہ والدین بغیر ناشتے کے بھی اپنے دفتر دیر سے پہنچنے پر اپنے بالادست افسر کی ڈانٹ ڈپٹ سہہ جانے کو اکثر اوقات روا سمجھتے ہیں لیکن اپنے بچوں کے اسکولز کے اوقات کار کو متاثر ہونے نہیں دیتے اور نہ ہی بچوں کے تدریسی شیڈول میں رخنہ بننے والے اپنے عزیز و اقارب کا کچھ دن کے لیے اپنے ہاں مہمان بننے کو بھی گوارا کرتے ہیں۔
معاشرے میں ہونے والی شب وَ روز کی ناانصافی، معاشی، سیاسی و ملازمتی پریشانیاں سہتے رہنے والے ان والدین کا اضطراب اور اعتدال تب جواب دے گیا جب ان کی محدود ہونے والی زندگی نے انھیں محسوس کرا دیا ہے کہ اب اس ملک میں رائج مہنگے نظامِ تعلیم سے بھی اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کیے جانے کے امکانات معدوم ہونے لگے ہیں۔
اب تو ایچی سن کا بھی وہ معیار نہیں رہا تو سرکاری اسکولوں کی کیا حالت ہو گی ذرا سوچئے؟ سرکاری اساتذہ کو برسہا برس تک الیکشن کمیشن و ریونیو کے کلرکوں کے ہاتھوں جس تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے وہ تو ایک الگ بھیانک تاریخ ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں درس و تدریس کے عمل میں پوری ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کرنیوالے اساتذہ کو لسانی و فرقہ وارانہ کارروائیوں کی آڑ میں جس بہیمانہ انداز سے قتل کیا جاتا رہا ہے۔
ان کے اثرات تو نہ صرف سرکاری اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنیوالے طلبا و طالبات، ان کے متعلقین یا پھر اساتذہ کرام کی نعشیں اٹھانے والے ان کے ورثاء ہی جانتے ہونگے بلکہ یہ اثرات ہماری رقم ہونے والی تاریخ کو بھی ہم سے بہت سارے گلے شکوے کرنے کی بنیادیں فراہم کر نے کا سبب بنتے رہیں گے۔
جنابِ اعلیٰ...!
ہماری خوبصورت نظریاتی عمارت کی بنیادیں ''اقراء'' کی اساسی اینٹ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ چونکہ ہمارا ''سُلب'' Spicies یا ارتقائی حیوان کی بجائے ''صاحبِ علم الاسماء'' ہے جب کہ ''روشن ہدایت'' میں معاشرتی نظام کے افعال اور ان کی روشنی میں حاصل ہونیوالے حتمی نتائج انتظامِ ارض و سماء کے لوازمات اور بقائے حیات کے تمام تر قوانین درج ہیں ۔
اس لیے عالم انسانیت یا اقوامِ عالم کے اس ارضی میلے میں ''لکھنے پڑھنے کے فن'' کو انسانی ضرورت کے لحاظ سے جتنی اہمیت ہماری ''ملی زندگی'' میں حاصل ہے اس کی مثال یا اس کا عشر عشیر بھی دیگر کسی انسانی گروہ کے خمیر میں نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری ملی زندگی کی بہترین ابتداء کے ''پہلے طفلی قدم'' کے طور پر نہ صرف روزِ روشن کی طرح عیاں اور الم نشرح ہے بلکہ ہمیں لکھنے پڑھنے کے فن کی لسانی گہرائیوں کے پہلوؤں کے لحاظ سے دیگر انسانی گروہوں (قوموں) کے مقابلے میں لسانی طور پر ''الفابیت'' سے عاری لوگوں کی سرزمین چین تک چلے جانے کا حکم بھی دیا گیا ہے تا کہ پڑھنے لکھنے کے ابتدائی طفلی اقدامات میں استحکام لایا جانا ممکن بن سکے جب کہ موجودہ دور میں یہ بات بھی ثابت کی جا چکی ہے۔
جس کے تحت یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان کی ذہنی نشو و نماء کے مراحل کا اظہار الفاظ ہی کے ذریعے ممکن ہے اور معاشروں میں رائج الفاظ ہی کی مدد سے ان معاشروں کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے جب کہ گہرے سے گہرے خیال کوایک ہی لفظ میں بیان کیے جانے کو اس انسانی گروہ (قوم) کی ذہنی وسعتو ں اور ان کی ترقی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے اور جہاں تصورات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کی طوالت سماعتوں پر گراں گزرنے لگے تو وہاں Symboles سے کام لیا جانے لگا ہے۔
جدید سا ئنسی علوم میں ان سمبلز کا استعمال اس کی بہترین مثال ہیں اور اپنے بچوں کو انھی علوم میں طاق بنانے کے جذبے سے سرشار یہ والدین اس تعلیم کے حصول پر آنیوالے اخراجات سے پریشان ہیں۔ لکھنے پڑھنے کا فن اتنا وسیع ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔ اگر کوئی حد ہوتی تو اہرامِ مصر سمیت تمام تباہ حال معاشروں کے کھنڈرات سے حاصل ہونے والی لکھائی کو پڑھا جانا ممکن بن سکتا۔ اگر لکھنے پڑھنے کے فن کی تاریخ کو کھنگالا جائے تو اس صف میں تمام انسانی گروہوں میں سرزمین چین (بشمول منگولیا، جاپان، کوریا، فلپائن، برصغیر سمیت وہ علاقے جہاں کے لوگوں کا جسمانی یا لسانی خمیر چین سے جڑا ہوا ہے) اپنا ایک الگ اور منفرد مقام رکھتی ہے۔
چین میں لکھنے پڑھنے کے فن کا تمام تر انحصا ر Symboles پر ہے اسی وجہ سے وہ لسانی تعلیمات میں الفابیت سے عاری ہیں جب کہ لسانی طور پر Symboles الفاظ کے ذریعے مفہوم سمجھانے کے طریقے کا جدید اظہار ہیں جو کہ اپنے اندر نہ صرف مفہوم کی گہری وضاحت رکھتے ہیں بلکہ انسان سے متعلق اشیاء کی ساری تار یخ اس کی اساسی خصوصیات کے ساتھ بیان کر جانے کا انداز بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔ پانی سے متعلق H2o کا Symbole اس کی سادہ مگر بہترین مثالوں میں سے ایک ہے، اسی تناظر میں لسانی بنیادوں پر عربی زبان میں Symboles کا استعمال کم ہی ہواہے لیکن عربی کے الفاظ میں تصور کی گہرائی اور اس کی ثابت شدہ علامات کو سمجھاتے سمجھاتے ہر ایک لفظ پر ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
اشارات کی زبان میں نظامِ شمسی سے متعلق فلکی تحقیق پر مبنی الف لام ر ا (الر) کا اشارا ہو یا پھر انسانی تاریخ میں اس کے کتنے ہی انداز و طریق کو بیان کر جانے والا لفظ منافقت ہو۔ اس سیاق و سباق میں ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اشارات کی زبان سب سے زیادہ حالت جنگ میں کارگر ہوتی جو کہ اس کا نتیجہ مرتب کرنے میں سب سے زیادہ مؤثر اور مہلک ہتھیار کے طور کام کرتی ہے۔ حالت جنگ میں جو گروہ کم سے کم اشاروں میں زیادہ سے زیادہ معمولات، واقعات، اپنی اور دشمن کی ہر چال اور حکمت عملی سمجھا سکتا ہے وہی جیت اس کا مقدر بنتی ہے۔
اس سیاق و سباق میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذہنی بلوغت اور پر مغز تحقیق کے بعد ہی اشارات کی زبان بنتی ہے جس میں ہر روز نئے نئے اضافے بھی کیے جاتے ہیں تو پھر یہ وضاحت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ جب یہی اشارات کی زبان، الفاظ میں ڈھل کر لکھنے پڑھنے کے فن کا نیا روپ لے کر اپنے عہد طفلی میں ہی لسانیات کی دنیا میں ''اردو'' کے نام سے اپنی حیثیت منوالے ان کے تصور کی پختگی ''ہمسایہ'' جیسے لفظ کے مقابلے میں چاہے تو Neighbor کے ساتھ Dashing,Caring,Loving کا اضافہ کر لیں پھر بھی وہ ''ہم سایہ'' کی طہارت اور رشتے کی پاکیزگی کو ظاہر کرنے کی استعداد سے اپنے خالقوں کے کردار سے قاصر رہیں گے۔
استدلال کے اس مقام پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن کے الفاظ میں دیرپا تعلق کی خوشبو نہ ہو ان کی طرف سے لکھنے پڑھنے کا فن کس حال میں دیا گیا ہو گا جس کے نتیجے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی جانب سے لکھنے پڑھنے کا فن دینے والے اداروں اور ان میں دی جانیوالی تعلیمات کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو چکا ہے جس کے لازمی نتیجے کے طور پر یہ والدین سڑکوں پر نکل آئے ہیں، فیسز تو جیسے تیسے کر کے یہ ادا کرتے ہی رہیں گے لیکن ان کے چیخنے چلانے کا عمل دراصل استعماری قوتوں کے نافذ کردہ تمام تر مکروہ اقدامات کے احتجاج کی ابتدائی شکل ہے جن میں ان کو اپنے بچوں کے مستقبل کے مخدوش امکانات نے نکلنے پر مجبور کیا ہے۔
یہ ہمارے ہمسائے نہیں ہیں یہ ہم خود ہیں، جسد واحد کا حصہ ہیں۔ ان کی شکایت کا محور ریاستی تعلیمی اداروں پر ان کے کھو جانے والے عدم اعتماد کا بھی اظہار ہے۔ یہ Cold Started programe جناب اعلیٰ کی توجہ کا طالب ہے۔