صلہ شہیدکیا ہے
زندہ، مہذب اورخود دار قومیں اپنے محسنوں کے احسانات کو نہ صرف یہ کہ فراموش نہیں کرتیں
زندہ، مہذب اورخود دار قومیں اپنے محسنوں کے احسانات کو نہ صرف یہ کہ فراموش نہیں کرتیں بلکہ ان کی قربانیوں،ایثار، جذبۂ حب الوطنی اور قومی خدمات کو ہر قومی اہمیت کے موقعے پر خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔
ان کا تذکرہ اس قدر تواتر سے کیا جاتا ہے کہ قوم کے ہر فرد کے دل میں وہی ایثار، وہی خدمت اور جذبہ حب الوطنی موجزن ہوجائے، تب ہی تو مختلف النسل، عقائد، ثقافت، روایت کے افراد ایک منظم قوم میں ڈھلتے ہیں ورنہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑکی طرح غیر منظم اور بکھرے ہوئے افراد کا ایک جم غفیر ہوتی ہے۔
اگر اپنے محسنوں کا یوم ولادت اور یوم وفات ہی منانے تک خود کو محدود رکھا جائے اور وہ بھی عام تعطیل اخبارات میں ایک ضمیمے یا نجی چینلز پر ایک مختصر پروگرام کی حد تک تو نئی نسل تو اس عام تعطیل کو تفریح اور دوست احباب کے ساتھ گھومنے پھرنے میں صرف کردے گی یا پورے دن سوکر گزار دے گی، رہ گئے ضمیمے تو وہ صرف وہی لوگ پڑھتے ہیں جن کو باقاعدہ مطالعے کی عادت ہوتی ہے جہاں تک چینلز کے پروگرام ہیں، خیر سے ہماری نئی نسل مقامی خاص کر اردو کے پروگرام دیکھنا پسند ہی نہیں کرتیں ان کے پاس فیس بک، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے تمام ذرایع موجود ہیں۔
حکمران اور قومی قائدین اگر ملک و قوم سے مخلص ہوں تو سب سے پہلے نظام تعلیم پر توجہ دیں، اردو، انگریزی اور سماجی علوم کے نصاب میں اپنے قومی ہیروز، اپنے محسنوں کے بارے میں ہر جماعت کی سطح پر ان کو بطور اسباق شامل کریں۔ کیوں کہ کمرۂ جماعت میں پڑھایا اور بتایا ہوا نئی نسل کے کان میں پڑتا بھی ہے اور سمجھ میں بھی آتا ہے۔
ٹیسٹ اورامتحان کی تیاری کے لیے اس کو بار بار پڑھنا بھی پڑتا ہے، ہماری نئی نسل (ہر دورکی) پتھر یا لوہے کی بنی ہوئی نہیں بلکہ وہ بھی گوشت پوست کا پیکر اور دل و دماغ کے ساتھ ہی وجود میں آتی ہے، لہٰذا جب اس کو بتایا جائے کہ آپ کا یہ ملک کتنی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد معرض وجود میں آیا۔اس کی تحریک آزادی میں کس نے کیا کیا قربان کیا،کس طرح اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایثارکی مثالیں قائم کیں،کسی نے اپنی ریاست،کسی نے اپنی حویلی اورکسی نے اپنی جھونپڑی چھوڑ کر آزادی کی خاطر سب کچھ قربان کردیا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ نئی نسل کے دل میں بھی وہی جذبہ ایثار پیدا نہ ہو۔
وہ اپنے محسنوں کے احسانات کی قدر نہ کریں، ایک نسل نوکچھ عرصہ بعد اگلی نسل میں ڈھل جاتی ہے اور اس کے بعد پھر ایک نسل آتی ہے اگر یہ سلسلہ تعارف جاری رہے تو ہر نسل اپنے وطن کے لیے ایثاروقربانی کے جذبات سے سرشار قومی سلامتی وترقی کے لیے کوشاں رہتی ہے، مگر افسوس قیام پاکستان کے بعد ہی طالع آزماؤں نے بے شمارجانی ومالی قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی آزادی کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔
قائد ملت لیاقت علی خان جوکہ پوری ریاست بھوپال کے نواب تھے پوری ریاست کو انھوں نے تحریک آزادی کے لیے وقف کردیا، بچپن سے جوانی تک نوابانہ ٹھاٹ باٹ سے زندگی بسر کرنے والے شہید ملت نے اپنا سب کچھ تعمیر پاکستان کے لیے قربان کردیا، شہید ملت قائد اعظم کے ایسے حامی و وفادار تھے کہ اپنے قائد کے اشارۂ ابرو تک کو سمجھتے تھے۔
قائد اعظم کی وفاتِ حسرت آیات کے بعد اس نوزائیدہ وطن کی تمام تر ذمے داری قائد ملت کے کاندھوں پر آگئی تھی، انھوں نے جس خلوص اور وقار کے ساتھ ملکی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بعد کے حکمرانوں کی طرح انھوں نے اپنی ذات یا خاندان کو قومی خزانے پر بوجھ نہیں بنایا۔ سرکاری رہائش گاہ کوئی بڑا ایوان نہیں ایک عام سا جگہ بنائی اپنی خدمت پر ملازمین کی فوج جمع کی نہ سیکیورٹی کے لیے درجنوں اہلکار رکھے، وہ اپنے تمام کام اپنے ہاتھوں سے کرتے، اپنی شیروانی خود دھوتے اور خود ہی اس پر استری کرکے اگلے روز اس کو زیب تن کرتے، بعد میں جب جسم ذرا فربہ ہوگیا تو اسی شیروانی کی سلائی کھلواکر اس کو ذرا ڈھیلا کرالیا مگر نئی شیروانی نہیں بنوائی۔
یوں تو ہزاروں افراد اپنے اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر نئے وطن میں آئے تھے اور ضروری نہیں کہ سب ہی امیر وکبیرگھرانوں سے تعلق رکھتے ہوں مگر پاکستان میں جو بے سروسامانی کا عالم تھا اس میں نواب راجہ اوراعلیٰ و معزز خاندانوں کے افراد اور عام خاندانوں کے افراد سب نے ہی مسافر خانوں، جھونپڑیوں اور خیموں میں قیام کرکے نئے سفرکا آغاز کیا جو کچھ نہ تھے وہ بہت کچھ بن گئے مگر جو واقعی کچھ تھے انھوں نے اپنا حق بھی کبھی نہیں مانگا، یوں تو بے شمار مثالیں ایسے افراد کی ہیں جو راحت و آرام کے بعد بے آسرا ہوئے۔
بے سرو سامانی میں بسر کی مگر قائد ملت لیاقت علی خان اور راجہ صاحب محمود آباد وطن عزیز کے ایسے محسنوں میں سے ہیں کہ ان دونوں نے پاکستان میں رہتے ہوئے بالکل سادہ اور عام زندگی بسر کی لیکن جس خطے پر پاکستان قائم ہوا تھا وہاں کے وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروں نے ایسی سادہ زندگی وہ بھی ملک کے ''حکمران کی'' کو دل سے اس لیے مسترد کردیا کہ اگر ایسی مثال قائم ہوگئی تو پھر ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟
16 اکتوبر 1961 کو اس مخلص وطن وزیراعظم کو راولپنڈی کے موجودہ لیاقت باغ میں قتل کردیاگیا، قتل کے وقت پاکستان کے وزیراعظم کے جسم پر وہی اپنے ہاتھوں سے دھلی اور استری کی ہوئی شیروانی کے نیچے صرف بنیان تھا۔ نوابانہ ٹھاٹ میں پلنے والا شخص اپنی آزاد قوم کے لیے جو مثال قائم کرنا چاہ رہا تھا وہ بے شمار آنکھوں میں کھٹک رہی تھی جن کو اس ملک کے ذرے ذرے سے خراج وصول کرنا تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ سادگی کی مثال قائم ہو۔
قومی خزانہ ہماری جیبوں میں آنے کے بجائے واقعی قوم کے ضرورت مندوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے استعمال ہو۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آئے، یہ وہ لوگ تھے جو انگریزوں کے مراعات یافتہ اور بھارت کے ایجنٹ تھے اور بھارتیوں کے ''اکھنڈ بھارت'' کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے متمنی تھے مگر یہ ملک خداداد ہے اور اس کی حفاظت بھی وہی خدا کررہاہے اس لیے ان دشمنان وطن کے ارادے آج تک پورے نہ ہوسکے آج ہر شخص کا قاتل نہ صرف پکڑا جارہاہے بلکہ تختہ دار پر بھی لٹکایا جارہاہے مگر تقریباً 64 برس بعد بھی قائد ملت کے قاتل پکڑے نہ جاسکے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی ہر کوشش ناکام بنادی گئی، ہرگواہی بلکہ گواہ کو ختم کردیاگیا۔ اس قتل کی تحقیق کی کافی طویل اور پر اسرار کہانی ہے جوکئی بار منظر عام پر آچکی ہے۔
شہید ملت کے قاتل آج بھی زندہ ہیں وہ اس قدر طاقت ور اور با اثر ہیں کہ ملک کو دنیا کے نقشے سے تو نہ مٹاسکے مگر اس کو اس قدرکھوکھلا، دیوالیہ کردیا ہے کہ سب کچھ لوٹ کھسوٹ کراپنا مستقبل ممالک غیر میں محفوظ اور ملک کو غیر محفوظ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ملک جو آج بھی قائم ہے یہ شہید ملت کی آخری دعا کے باعث ہے جو انھوں نے جان دینے سے قبل بارگاہ الٰہی میں کی تھی ''خدا پاکستان کی حفاظت کرے'' شہید کی دعا مستجاب ہوئی پاکستان کا قیام قیامت تک قائم رہے گا ۔(انشاء اﷲ)