گاندھی پٹیل اور مولانا آزاد
پاکستان کا قیام کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔کانگریس اور انگریز ہی نہیں خود مسلمان کھل کر پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے
KARACHI:
پاکستان کا قیام کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔کانگریس اور انگریز ہی نہیں خود مسلمان کھل کر پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے مخالف مسلمانوں میں سب سے وزن دارآواز مولانا ابوالکلام آزاد کی تھی۔ انھوں نے قیام پاکستان کی جتنی مخالفت کی اتنی تو سردار پٹیل نے بھی نہیں کی تھی۔
یہ بات ابھی تک عوام الناس کی سمجھ سے باہر ہے کہ مولانا آزاد کانگریس میں رہتے ہوئے بھی گاندھی، نہرو اور پٹیل کی مسلمانوں کے خلاف سازش سے کیوں بے خبر رہے؟کانگریس اگرچہ ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگا رہی تھی اور دونوں کے ایک ہی قوم ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی تھی مگر پس پردہ مسلمانوں کو غلام بنا کر ان سے ہندوؤں کی ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینے کا منصوبہ بنا چکی تھی۔
برصغیر میں ہندو اکثریت میں تھے اور مسلمان 30 کروڑ ہندوؤں کے مقابلے میں صرف 10 کروڑ تھے تو صاف واضح تھا کہ حکمرانی کا حق تو ہندوؤں کو ہی ملنا تھا اور مسلمانوں کو اقلیت بن کر رہنا تھا۔
اگر مولانا آزاد اور دیگر سیاسی و مذہبی رہنما پاکستان کی مخالفت نہ کرتے تو پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا کیونکہ قائد اعظم جو وقت ان مسلمان رہنماؤں کی پاکستان مخالفت سے نمٹنے میں ضایع کر رہے تھے وہی وقت وہ برطانوی اور کانگریسی سازشوں کا قلع قمع کرنے میں صرف کرتے تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی کے ذریعے نہرو نے کشمیر پر جو سودے بازی کی تھی وہ اسے نہ ہونے دیتے۔ اسی طرح جو آدھے صوبے پاکستان کے حصے میں آئے شاید وہ بھی پورے کے پورے پاکستان میں شامل ہوجاتے۔
بہرحال اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بعض مسلم رہنماؤں کا پاکستان مخالف رویہ ایک بہت بڑی غلطی تھی اور اس غلطی کی وجہ سے مسلمان بہت سارے علاقوں اور وسائل سے محروم ہوگئے۔ جہاں تک مولانا آزاد کا تعلق ہے، اس میں شک نہیں ہے کہ وہ قائد اعظم سے زیادہ پرانے مسلم رہنما تھے۔ وہ برصغیر کی آزادی کی ہر تحریک میں پیش پیش تھے۔
وہ ہجرت تحریک اور ریشمی رومال تحریک سے لے کر خلافت تحریک میں اہم خدمات انجام دے چکے تھے مگر ان کا مطمع نظر صرف مسلمانوں کی آزادی نہ تھا۔ وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے ایک ساتھ آزادی حاصل کرنے اور ایک ہی آزاد وطن میں رہنے کے حامی تھے۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی بھی ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے مگر بعد میں مولانا محمد علی جوہرکی بیوہ محمدی بیگم کی مسلم لیگ میں شمولیت اور تحریک پاکستان کی ایک اہم رہنما ہونا کانگریس کی مسلم دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔
تاہم خلافت تحریک کے سلسلے میں ہندوؤں نے جس طرح مسلمانوں کا ساتھ دیا اس نے 1857 کی جنگ آزادی میں ان دونوں قوموں کے انگریزوں کے خلاف اتحاد کی یاد تازہ کردی تھی لیکن 1857 کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ان سے مسلمانوں کو سراسر نقصان اٹھانا پڑا۔ کیونکہ مسلمان انگریزوں کا اصل ہدف بن گئے تھے۔ ہندو پہلے ہی بھانپ چکے تھے کہ ان کا بہتر مستقبل انگریزوں کے ساتھ مل کر چلنے میں ہے، جب کہ مسلمانوں نے انگریزوں سے پہلے سے زیادہ نفرت کرنا شروع کردی تھی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف ہندو تعلیم یافتہ بن کر سرکاری ملازمتوں کے حق دار بنتے گئے اور تمام کلیدی عہدوں پر چھا گئے دوسری طرف انگریزوں نے برصغیر پر اپنے اقتدار کو دراز کرنے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت کو مزید بڑھانے کے لیے ہندوؤں کے انتہا پسند مذہبی رہنماؤں کو لالچ دے کر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرانا شروع کردیں ہندو انتہا پسندوں سے پیغمبر اسلامؐ کے خلاف کتابیں بھی لکھوائیں۔
اس قسم کی سب سے پہلی کتاب یوپی کے گورنر سر ولیم میور نے لکھ کر ہندوؤں کو ترغیب دی تھی، ایسی کتابیں لکھنے والے ہندوؤں کو انگریزوں نے پورا پورا تحفظ بھی فراہم کیا جس سے ہندو مسلمانوں میں نفرت کی وبا پورے برصغیر میں پھیل گئی پھر انگریزوں نے ہندوؤں کو شے دے کر کچھ صوبوں میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا۔
اگر مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت صرف انتہا پسند ہندو جماعتوں تک محدود رہتی تو مسلمان پھر بھی کانگریس کا ساتھ نہ چھوڑتے مگر افسوس کہ کانگریس نے اندرونی طور پر جنونی ہندو لیڈروں اور ان کے سنگھٹوں سے گٹھ جوڑ کرلیا تھا جس کا ثبوت سردار پٹیل کے کانگریس میں داخلے سے ملتا ہے۔ وہ ایک کٹر ہندو مہاسبھائی تھا اور مسلمانوں کے خون کا پیاسا تھا مگر گاندھی نے اسے خود کانگریس میں داخل کروایا تھا اور صف اول کے کانگریسی لیڈرکا درجہ دلوایا تھا۔
اس سے گاندھی کی مسلم نوازی کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ عہدوں کے سلسلے میں پٹیل اور نہرو کے درمیان آخر تک جنگ چھڑی رہی۔ گاندھی تو پٹیل کو ہی بھارت کا پہلا وزیراعظم بنوا دیتے اگر کانگریس کے اکثر رہنما نہرو کے حق میں نہ ہوتے۔ خود مولانا آزاد نے اپنی کتاب ''آزادیٔ ہند'' India Wins Freedom میں اس چپقلش کا تفصیل سے ذکرکیا ہے۔ بہرحال پٹیل وزیر اعظم تو نہ بن سکا مگر اسے گاندھی نے پھر بھی کابینہ میں دوسرا اہم عہدہ وزیر داخلہ کا دلوا دیا۔ پٹیل اگرچہ نہرو کی کابینہ کا ایک وزیر تھا مگر وہ نہرو سے زیادہ با اثر تھا۔ اس نے بہت سے کام نہرو کی مرضی کے خلاف انجام دیے۔
کہتے ہیں اس نے اپنے ایما پر جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن پر چڑھائی کروائی تھی پھر اس نے ہی نہرو کو مجبور کر کے بھارتی فوجوں کوکشمیر میں داخل کرایا تھا۔ کشمیر کے مسئلے کو پیدا کرنے میں اس کا اہم کردار تھا کیونکہ وہ دریاؤں کے پانی کو روک کر پاکستان کو ناکام بنانا چاہتا تھا۔ ان تمام معاملات میں گاندھی اس کے حامی و مددگار تھے۔ مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ آزادی کے بعد پٹیل گاندھی کے اتنا سر چڑھ گیا تھا کہ ان کا کہنا بھی نہیں مانتا تھا اور وہ، وہ کرتا تھا جو اسے آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر سے کہا جاتا تھا۔ آر ایس ایس پاکستان کو اس کے حصے کے وسائل دینے کے سخت خلاف تھی۔
پٹیل نے گاندھی کو اس ضمن میں پاکستان کی حمایت کرنے سے باز رہنے کو کہا تھا مگر گاندھی نے جو خود کو ہندوؤں کے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے بھی عظیم رہنما بننا چاہتے تھے۔ پٹیل کی بات ماننے سے انکار کردیا تھا پھر اس مسئلے پر ناتھورام گوڈسے نے گاندھی کی ہتھیا کردی تھی۔
مولانا نے لکھا ہے کہ گاندھی کے قتل میں بھی پٹیل ملوث تھا اگر پٹیل آر ایس ایس کا آدمی نہ ہوتا تو آج نریندر مودی اس کا 80 فٹ قد آور دھاتی مجسمہ بنانے کا اعلان نہ کرتا۔ راہول گاندھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ پٹیل تو کانگریسی لیڈر تھا پھر بی جے پی والے اسے اپنا رہنما کیوں کہتے ہیں؟ تو دراصل راہول کو گاندھی کی دہری شخصیت کا علم ہی نہیں کہ انھوں نے مہاسبھائی پٹیل کو اس لیے کانگریس میں داخل کرایا تھا کہ جو وہ خود نہیں کرسکتے تھے اسے پٹیل کے ذریعے کروایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا آخر تک کانگریس کی مسلم دشمنی کو کیوں نہ سمجھ سکے تو اس ضمن میں مبصرین کہتے ہیں کہ وہ ایک قابل فخر عالم دین ضرور تھے مگر سیاست ان کے بس کی چیز نہ تھی۔