محبت اور تفہیم کا آغاز
انسانی زندگی بہت قیمتی ہے ایک انسان کا قتل اﷲ کے پاس پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ا
انسانی زندگی بہت قیمتی ہے ایک انسان کا قتل اﷲ کے پاس پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اتنی بڑی ہدایت کے باوجود دنیا میں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے۔ مسلم ممالک ہو یا یورپی ممالک کہیں ایسے ہی اورکہیں پوری پلاننگ کے ساتھ قتل ہوتے ہیں۔ انسانوں ہی کا ایک گروہ اپنے آپ کو جج تصور کرلیں اور باقی سب کو مجرم تو پھرکچھ ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے۔
دنیائے سیاست میں جو ممالک سپر پاورز تھے انھوں نے اپنی عقل اور ذرایع کے مطابق اپنے ملکوں کو مزید سپر بنانے کے لیے بڑی شاندار حکمت عملی بنائی پھر اس کو لاگو کیا۔ مگرکیا کیجیے کہ یہ شاندار حکمت عملی تو صرف اور صرف اﷲ پاک کی ہے وہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت۔ جن جن ممالک نے پہلے بھی اور ابھی بھی اپنے آپ کو سپر پاور بنانے کے لیے اقدامات کیے یا کررہے ہیں ان میں انسانی جانوں کا بے دریغ ضیاع سر فہرست ہے۔ افغانستان ہو، عراق ہو، دہشت گردی کے واقعات ہو، بے تحاشا انسانوں کی اموات سرفہرست ہے۔ کروڑوں اربوں کی اس دنیا میں ہزاروں یا لاکھوں انسانوں کو تجربات کی نذر کردینا کہاں کا انصاف ہے؟
جنگوں کی پلاننگ یا منعقد کی گئی ٹیبل ٹاک کے ذریعے اسٹرٹیجی بنائی گئی ٹارگٹ بنائے گئے اور کام کیا گیا۔ انڈیا کہتا ہے کہ اب انڈیا اور پاکستان کے درمیان بھی کچھ ایکسرسائز ہونی چاہیے، اسی لیے گاہے بگاہے انڈیا کا جنون ہمیں نظر آتا رہتا ہے کبھی سیالکوٹ میں فائرنگ، کہیں فوجیوں پر حملے اور یہی جنون ایک دن جنگ کی صورت حال پیدا کردیتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک کسی بھی حال میں جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے مگر اس کے باوجود اپنی عسکری قوت کو بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بجٹ مختص کرتے ہیں۔ سرحدوں پر فوجی جوان اپنی تمام تر وفاداریوں کے ساتھ ہر موسم میں اپنے ملک کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار رہتے ہیں، اﷲ کا شکر ہے کہ پاکستان کی افواج دنیا کی بہترین افواج میں سے ہیں اور ہمارے جوانوں میں ان افواج میں شامل ہونے کا جذبہ بھی بے حساب ہے ایک مسلم ملک ہونے کا اعزاز ہمیں حاصل ہے اور دوسرے اسلامی ممالک میں ہمارا ملک پاکستان ایک نمایاں حیثیت بھی رکھتا ہے گو کہ ہم اندرونی طور پر حالت جنگ میں ہی ہیں۔
اندرونی اور بیرونی سازشوں میں گھرے ہوتے ہیں اور پاکستانی افواج بے حد ذمے داری سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں گو کہ پوری دنیا میں ہی ایک ہنگامی صورت حال نظر آتی ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ اندرونی اور بیرونی سازشیں تمام کا مقصد ہی پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ نفرتوں اور مذہبی عصبیتوں کو ہوا دینا، بے حساب فنڈنگ ہونا ، پڑھے لکھے جوانوں پر سائنٹیفک انداز میں اثر انداز ہونا اور بے شمار ایسے ذرایع جو یقینا سمجھنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ہمارے ارد گرد ایسے مسائل بھی بے حد مضبوط ہورہے ہیں۔
نئے نئے فرقے وجود میں آرہے ہیں اور شدید بدگمانی کا ساز و سامان پیدا کررہے ہیں۔ اب ہماری ریاست پر، حکمرانوں پر اور سول سوسائٹی پر بے انتہا ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد گہری نظر رکھیں، پس پردہ کے جو معاملات ہوتے ہیں کبھی کبھی وہ نا سور بن جاتے ہیں اور کسی بڑی مصیبت کے شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسلام آباد میں لال مسجد کا واقعہ ہو یا پھر پشاور میں آرمی اسکول کا واقعہ دشمن اپنی چالوں میں کتنا کامیاب ہے اور ہم کتنے ناکام یقینا تجزیے اور تجربے دونوں بت اہمیت رکھتے ہیں۔
تعلیم اور علم دونوں سے کسی کو اختلاف نہیں مگر تعلیمی اداروں میں کسی بھی طرز اور کسی بھی سطح پر دشمنوں کی چالوں کو سمجھنا ہوگا انگریزی طرز تعلیم برا نہیں، مخلوط تعلیم بری نہیں قرآن اور حدیث کے مدرسے برے نہیں بلکہ دیکھا جائے تو ضرورت ہے ہر طرح کے طرز تعلیم ذہن رکھنے والوں کے لیے کہ آزادی ہو، اپنا اپنا طریقہ زندگی گزارنے کی مگر اس طریقہ زندگی سے معاشرے میں بگاڑکی صورتحال نہ بنے کوئی بھی طرز زندگی اگر انتہا پسندی کی طرف جاتا ہے تو سب کے لیے پریشانیوں کا باعث بنتا ہے اور معاشرے میں ابتری کی صورتحال پیدا ہوتی ہے طریقہ زندگی کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے طریقہ بھی ہونے چاہیے کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں کوئی بھی ایک چیز ہلکی ہوگی تو بیلنس خراب ہوگا۔
ایک ایرانی فلاسفی عبدالکریم سروش نے مغرب کے ساتھ اسلام کے تعلق پر از سر نو غور و فکرکرنے کی وکالت کی، ان کا ماننا تھا کہ اسلامی اقوام کو سائنس میں ترقی کی اجازت دینی اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، انڈونیشیا کے سابق صدر کے ایچ عبدالرحمن واحد نے اسلامی رواداری پر زور دیتے ہوئے جدید سائنسی ماحول پر لاگو کی جانے والی سخت گیر اسلامی تشریحات کی بے لچکی پر تعرض کیا ہے ۔
بہت سے مسلمان اسلام کی حقیقی تعلیم کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں جوکہ انسانوں کو دوسروں کے ساتھ نرمی برتنے اور ان کے نظام اقدار کو سمجھنے کی تلقین کرتا ہے یہ جان کر کہ اسلام ایک مذہب کے طور پر ان کے ساتھ رواداری کا سلوک کرتا ہے اسلام کا جوہر قرآن کے ان الفاظ میں بندھے ''تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین'' یہ رواداری کا جوہر ہے۔
مذہبی جنونی، جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر اسلام کو عدم برداشت، نفرت، خونریزی پر مبنی عقیدے کی شکل دے کر مسخ کردیتے ہیں وہ اپنی سفاکی کو نعروں کا جواز فراہم کرتے ہیں ، وہ ہر انسان کو دھمکانے اور تابع فرمان لانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے انتہا پسندانہ نظریات کی حمایت نہ کرے، خواہ اس کی قومیت یا مذہب کچھ بھی ہو۔ اگرچہ بعض لوگ خون بہانے کو بڑی جلدی سے تیار ہوجاتے ہیں لیکن کروڑوں ایسے ہیں جو ان کے متشددانہ اقدامات کا نشانہ بننے والوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں یا خاموشی کے جرم میں شریک ہوجاتے ہیں۔
بھارتی مسلم عالم اور مصنف مولانا وحید الدین خان اصلاحی کثرتیت کے نظریے کی تائید کرتے ہیں۔
اسلام کا مشن امن، محبت، رواداری اور کردار سازی کا پیغام پھیلانا ہے تاکہ لوگ خدا کے حکم کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ موثر انداز میں ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اور غیر مسلمان دونوں کے درمیان تعلقات خوشگوار ہوں۔ نفرت اور بد اعتمادی کا ماحول پیدا کرکے مسلمان محض اپنے ہی مقصد کو ناکامی سے دو چار کررہے ہیں اپنے متشددانہ احتجاج سے مسلمان تفرقہ پھیلانے والی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، مسلم مخالفت جذبات کو ہوا دے کر وہ دنیا کو خود اپنے خلاف متحد کررہے ہیں اس کے بجائے انھیں حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
پاکستانی عالم اور پروفیسر فضل الرحمن نے اقبال کے فلسفے کو دہرایا وہ لکھتے ہیں کہ ''علم کے متعدد میدانوں کو اسلامی رنگ دینے کا مسلمانوں کا ہدف کبھی پورا نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ مسلمان قرآن کی بنیاد پر ایک اسلامی مابعد الطبیعات کی جزئیات اجاگر کرنے کا دانشورانہ کام موثر ڈھنگ سے انجام نہ دے لیں۔ نوجوان طلبہ میں اسلامی کردار پیدا کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہوگی اگر علم کے اعلیٰ میدان پوری طرح سیکولر رہیںگے یعنی کہ انسانیت کے مستقبل پر ان کے اثر کے حوالے سے بے مقصد۔
ان حالات میں جس میں ہم اور ہمارا نوجوان گو کہ ذہنی طور پر ایک کشمکش کا شکار ہے بہت ہی ضروری ہے کہ اپنے اپنے علم کو وسعت دیں اسلام کی اصل روح کو سمجھیں، دنیا میں ہونے والے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھیں اور اپنے اختلافات دور کریں، محبت اور تفہیم کی فضا کا آغاز کریں۔