2015ء کے نوبل انعام

رواں سال نوبل پرائز پانے والی کچھ شخصیات کے کارناموں کا تذکرہ


سید عاصم محمود October 18, 2015
رواں سال نوبل پرائز پانے والی کچھ شخصیات کے کارناموں کا تذکرہ ۔ فوٹو : فائل

یہ 1895ء کی بات ہے جب سویڈش موجد، الفریڈ نوبل نے نوبل پرائز کی بنیاد رکھی۔ یہ اب دنیا کے معتبر ترین انعام بن چکا ہے۔ جس شخصیت کو نوبل انعام مل جائے، وہ راتوں رات پوری دنیا میں شہرت دوام پا لیتی ہے۔ کچھ عرصے سے خصوصاً امن کا نوبل انعام متنازع ہوچکا، مگر مجموعی طور پر ان انعامات کی اہمیت و شہرت کم نہیں ہوئی۔ 2015ء کے نوبل انعامات پانے والے خواتین و حضرات کا تعارف درج ذیل ہے۔

طب و صحت
اس شعبے میں آئرلینڈ، جاپان اور چین کے تین طبی ماہرین کو مشترکہ انعام ملا۔ 84 سالہ چینی ماہر ادویا ساز،تویویو (Tu you you) نے ملیریا ختم کرنے والی دوا ''آرٹیمیسینین'' (Artemisinin) ایجاد کی۔ یوں اس خطرناک مرض کی روک تھام ممکن ہوگئی۔ تویویو شعبہ طب میں نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی چینی شہری ہیں۔ نیز تیرہویں خاتون ہیں جنہیں یہ معزز انعام ملا۔

80 سالہ جاپانی ماہر طب، ستوشی امورا (Satoshi Omura)اور 84 سالہ آئرش طبی سائنس داں، ولیم کیمپبل(William Campbell) کو بھی ایک دوا ''ایورمیسیٹین'' (avermectin)دریافت کرنے پر نوبل انعام ملا۔ یہ دوا کیڑوں کی ایک خاص قسم، راؤنڈ وارم (Round Wors) سے پیدا شدہ بیماریاں مثلاً River blindness اور Lymphatic Filariasis ختم کرنے میں کام آتی ہے۔



ان دونوں ادویہ کی مدد سے اب تک ہزاروں انسانوں کی قیمتی جانیں بچائی جاچکیں۔ دنیا بھر میں ڈاکٹر اور ماہر ادویہ دن رات تحقیق و تجربات میں مصروف رہتے ہیں تاکہ کرہ ارض سے خطرناک امراض کا خاتمہ کرسکیں۔حالیہ نوبل انعام یافتگان کا شمار بھی ان انسان دوست ہستیوں میں ہوتا ہے۔

امن
2011ء میں ''عرب بہار'' کا آغاز تیونس سے ہوا، جہاں ایک غریب پھیری والے نے خود سوزی کرکے وہ جذبات بھڑکا دیئے جو عوام کے سینوں میں آمریت کے خلاف کئی برس سے دبے ہوئے تھے۔ تب آمرانہ حکومت کے خلاف ایسے زور دار مظاہرے ہوئے کہ آمر، صدر بن علی ملک چھوڑ کر فرار ہو گیا۔

بعدازاں تیونس میں عام انتخابات ہوئے جن میں اسلام پسند جماعتوں اور جمہوریت پسند پارٹیوں کا پلّہ بھاری رہا۔ نئی حکومت اسلام پسندوں نے سنبھال لی۔ لیکن رفتہ رفتہ ان پر یہ الزام لگنے لگا کہ وہ انتہا پسندوں کے خلاف سخت اقدامات نہیں کررہے۔ یوں تیونسی معاشرے میں اختلافات نے جنم لیا۔انہی اختلافات کے باعث ایک سال تک تیونس کا نیا آئین نہیں بن سکا۔ اس دوران انتہا پسندوں نے بعض سیکولر سیاسی رہنماؤں کو قتل کردیا۔ یوں یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ تیونس میں نئی خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔

معاشرے کے مختلف طبقوں میں اختلافات ختم کرانے کی خاطر تیونشین جنرل لیبر یونین(Tunisian General Labour Union) نے پہلا قدم اٹھایا۔ اس نے جولائی 2012ء میں متحارب سیاسی قوتوں کو دعوت دی کہ وہ ''قومی مکالمے'' کا آغاز کریں۔ چونکہ لیبر یونین کو تیونسی معاشرے میں عزت و احترام حاصل ہے، اس لیے سیاسی قوتوں نے یہ تجویز قبول کرلی۔

تیونسی جنرل لیبر یونین نے پھر اس قومی مکالمے کو جامع شکل دینے کے لیے ایک اتحاد، تیونشین نیشنل ڈائیلونگ کوارٹیٹ (Tunisian National Dialogue Quartet) کی بنیاد رکھی جو عربی میں''الحوار الوطنی '' کہلاتا ہے۔ اس اتحاد میں جلد ہی مزید تین تنظیمیں،دی تیونشین کنفڈریشن آف انڈسٹری،ٹریڈ اینڈ ہینڈی کرافٹس، دی تیونشین ہیومن رائٹس لیگ اور دی تیونشین آرڈر آف لائرز شامل ہوگئیں۔

اس اتحاد نے پھر متحارب سیاسی قوتوں کے مابین مفاہمت کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یوں تیونسی معاشرے میں نفرت اور دشمنی کے بجائے محبت اور یک جہتی کے مثبت جذبات نے جنم لیا۔ سیاسی طاقتوں نے یہ گر سیکھا کہ اختلافات کے باوجود مل جل کر کیسے رہا اور جمہوریت کو کس طرح پروان چڑھایا جائے۔ قومی اتحاد پیدا کرنے کی کوششوں میں کامیابی پانے پر ''الحوار الوطنی '' بجا طور پر نوبل انعام کی مستحق تھی۔



کیمیا
اس سال کیمیا کا نوبل انعام سویڈش، امریکی اور ترکی میں پیدا ہونے والے امریکی نژاد ماہر کو مشترکہ طور پر ملا۔ 77 سالہ سویڈش تھامس لنڈیہل(Thomas Lindahl)، 69 سالہ امریکی پال موڈرچ (Paul Modrich)اور 69 سالہ عزیز سنجر نے اپنی تحقیق و تجربات کے ذریعے دریافت کیا کہ ہمارے جسم میں خلیے اپنے خراب ہو جانے والے ڈی این اے کو کس طرح ٹھیک کرتے ہیں۔

روزمرہ کام کاج کے دوران ہمارے خلیوں کے ڈی این اے کو مختلف طریقوں سے نقصان پہنچتا ہے۔ کبھی ان پر کینسر پیدا کرنے والے مادے حملہ کرتے ہیں، تو کبھی آزاد اصیلے (فری ریڈیکلز) جو ڈی این اے کی شکل بگاڑ دیتے ہیں۔لیکن قدرت نے خلیوں میں بعض ایسے خصوصی نظام رکھے ہیں جن کی مدد سے خلیے مضروب ڈی این اے کی مرمت کرلیتے ہیں۔ تینوں ماہرین کیمیا کی تحقیق سے انہی فطری نظاموں کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔

نوبل انعام یافتہ ماہرین کی تحقیق کا عملی فائدہ یہ ہے کہ اس کی مدد سے اب طبی سائنس داں کینسر کے نئے علاج دریافت کرسکیں گے۔ خلیے قدرتی طریقے سے کینسر پیدا کرنے والے مادوں کو روکتے ہیں۔ طبی سائنس داں اب اسی قدرتی طریقے کی نقل کرتے ہوئے کینسر مار ادویہ ایجاد کریں گے۔یہ بڑی اہم پیش رفت ہے۔

تھامس لنڈیہل برطانیہ کے ایک تحقیقی ادارے، فرانسس کرک انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہیں۔ پال موڈرچ ہاورڈ ہیوگز میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں بطور محقق کام کرتے ہیں۔ جبکہ عزیز سنجر امریکہ میں ڈیوک یونیورسٹی سکول آف میڈیسن سے وابستہ ہیں۔

ادب
اس سال کسی افسانہ نگار، شاعر یا ناول نگار نہیں بلکہ ایک صحافی کو ادب کا نوبل انعام ملا جو خاصے اچھنبے کی بات ہے۔ یہ انعام مشرقی یورپ کے ملک، بیلاروس کی رہائشی، 67 سالہ سویتلانا ایلیکسیاوچ (Svetlana Alexievich)کو دیا گیا۔ آپ ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والی دنیا کی پہلی صحافی ہیں۔

دراصل سویتلانا کو ایسے مردوزن کی جگ بیتیاں لکھنے میں کمال حاصل ہے جو کسی انسان ساختہ آفت سے گزرے ہوں۔ انھوں نے یہ جگ بیتیاں لکھتے ہوئے ان میں اتنی کمال مہارت سے منفی و مثبت ہم رنگ انسانی جذبات سمودیئے کہ وہ قلمی شہ پارہ بن گئیں۔

سویتلانا نے جن مردوزن کی جگ بیتیاں لکھ کر انہیں کتابی شکل دی، وہ دوسری جنگ عظیم، افغان، سویت جنگ، سویت یونین کے زوال اور چرنوبل سانحے سے جیسے خوفناک حادثوں سے دوچار ہوئے۔ سویتلانا نے پہلے ان لوگوں سے انٹرویو لیے، ان کے دکھ درد اور خوشیاں معلوم کیں، پھر ان کی روداد اس طرح من میں ڈوب کر لکھی کہ وہ منفرد جذباتی تخلیقات بن گئی۔ سویتلاناکہتی ہیں:



''بیسویں صدی میں بنی نوع انسان کو آگ، خون اور دکھ اور کرب کے ان گنت حادثات سے دوچار ہونا پڑا۔ ان حادثوں سے وابستہ تباہی بہترین انداز میں اسی طرح آشکار ہوسکتی ہے کہ انہیں گواہوں کی شہادتوں پہ مبنی دستاویز کی صورت پیش کیا جائے۔ ادب اس تباہی و بربادی کو شاید موثر انداز میں پیش نہیں کرسکتا۔''

طبیعات
یہ 1930ء کی بات ہے جب سوئس ماہر طبیعات و لف گینگ پاؤلی نے ذیلی ایٹمی ذرہ(Subatomic particle) نیوٹرینو (Neutrino ) دریافت کیا۔ رفتہ رفتہ انسانیت پر افشا ہوا کہ روشنی خارج کرنے والے ذرے، فوٹون کے بعد یہی نیوٹرنیو ذرہ کائنات میں سب سے زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔

مگر عرصہ دراز تک ماہرین طبیعات کو یہی یقین رہا کہ نیوٹرینو کوئی وزن (Mass) نہیں رکھتا۔ اسی لیے وہ دوسرے ذرات سے تعامل (Interact) بھی نہ کر پاتا اور بے مقصد فضا اور خلا میں گھومتا پھرتا ہے۔۔ تاہم جوں جوں جدید طبیعات نے ترقی کی، نیوٹرینو سے منسلک ایک عجوبے نے جنم لیا۔

عجوبہ یہ تھا کہ کائنات میں بہت زیادہ مقدار میں ہونے کے باوجود کرہ ارض پر نصب آلات کم ہی نیوٹرینو شناخت کرپاتے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ تھی؟ کینیڈا میں ماہر طبیعات، آرتھر میکڈونلڈ اور جاپان میں ایک اور ماہر، تاکااکی کجیتا (Takaaki Kajita)نے یہ معّمہ حل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ان دونوں ماہرین طبیعات نے پھر زیر زمین واقع لیبارٹریوں میں تجربے کیے تاکہ زمینی آلودگیاں تجربوں کو متاثر نہ کرسکیں۔ 1998ء میں پروفیسر تاکااکی اور 2001ء میں آرتھر میکڈونلڈ نے دریافت کیا کہ جب نیوٹرنیو زمین کے مدار میں داخل ہوں، تو وہ زمینی فضا سے ٹکرا کر نئی قسم اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ ایک عظیم الشان دریافت تھی۔

اس دریافت سے ثابت ہوگیا کہ نیوٹرنیو گیس کی طرح غیر مرائی شے نہیں بلکہ مادہ یا وزن رکھتے ہیں۔ گو یہ ایٹمی ذرے، الیکٹرون کے وزن سے لاکھوں گنا کم ہے، مگر وہ رکھتا ضرور ہے۔ اس دریافت سے اب ماہرین طبیعات کو کائنات میں جاری عیاں و خفیہ نظام سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔ وہ جان رہے ہیں کہ کائنات آخر کن نظاموں کے تحت چل رہی ہے۔ان کو احساس ہو رہا ہے کہ کائنات میں اللہ تعالی نے معمولی سی شے بھی بے مقصد پیدا نہیں کی۔نیوٹرینو کا انتہائی کم وزن دریافت کرنے پر ہیکینیڈا اور جاپان کے ماہرین کو طبیعات میں نوبل انعام دیا گیا۔

معاشیات
علم معاشیات کے دو بڑے حصے ہیں:کلیاتی معاشیات (Macroeconomics) اور جزیاتی معاشیات (Microeconomics)ان دونوں اقسام میں خاصا فرق ہے۔فرض کیجیے،ایک حکومت کارخانوں اور بزنس پر نیا ٹیکس لگاتی ہے۔اس کے بعد کلیاتی معاشیات کے ماہرین یہ جاننے کی سعی کرتے ہیں کہ اس نئے ٹیکس کی وجہ سے قومی معاشی ترقی پر کیا منفی و مثبت اثرات پڑیں گے، روزگار کے کتنے مواقع جنم لیں گے وغیرہ ۔گویا یہ ماہرین وسیع سطح پر معاشی اثرات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

لیکن جزیاتی معاشیات سے وابستہ ماہرین کی نظریں معاشی مسائل کی جزئیات پر مرکوز ہوتی ہیں۔وہ دیکھتے ہیں کہ نیا ٹیکس غریبوں اور امیروں پہ کیسے اثرانداز ہو گا۔وہ متوسط طبقے کو کس طرح متاثر کرے گا۔

2015 ء میں شعبہ معاشیات میں نوبل انعام پانے والے برطانوی ماہر،سالہ انگس ڈیٹن(Angus Deaton) کا تعلق اسی جزیاتی معاشیات سے ہے۔ان کی تحقیق کا موضوع خاص طور پر گھریلو معاشیات سے متعلق اعداد وشمار رہا۔اس ڈیٹا کی مدد سے انھوں نے یہ دریافت کیا کہ سرکاری ٹیکس ''حقیقت''میں عوام پر کس انداز میں اثر کرتے ہیں...اور یہ عملی اثراندازی عموماً سوچے گئے امکانات سے مختلف ہوتی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ انگس ڈینٹن ترقی یافتہ اور امیر ممالک کی معاشی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ امیر ممالک کی پالیسیاں دنیا سے خاتمہ ِغربت کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہیں۔خصوصاً غریب ملکوں کو مالی مدد (ایڈ)دی جائے،تو بظاہر یہ ہمدردانہ عمل انھیں معاشی طور پر کمزور کر دیتا ہے۔ڈینٹن فی الوقت امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی میں معاشیات اور بین الاقوامی امور کے پروفیسر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں