دھوکے بازیفراڈ اور جھوٹ کا شاخسانہ وولکس ویگن اسکینڈل
عالمی شہرت یافتہ جرمن کمپنی نے اپنی لاکھوں کاروں میں آلودگی پھیلانے والا سافٹ وئیر خفیہ طور پر نصب کر دیا, رپورٹ
عالمی شہرت یافتہ جرمن کمپنی نے اپنی لاکھوں کاروں میں آلودگی پھیلانے والا سافٹ وئیر خفیہ طور پر نصب کر دیا…چشم کشا رپورٹ ۔ فوٹو : فائل
اریش فروم (1999ء۔1980ء) جرمنی کا ممتاز عمرانیات داں اور دانشور گزرا ہے۔ اس کا قول ہے:'' لالچ و ہوس دلدل کے مانند ہیں۔ جب کوئی انسان اس میں پھنس جائے، تو وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنے لگتا ہے مگر کبھی اطمینان حاصل نہیں کرنے پاتا۔'' یقیناً جرمنی کا مشہور کار ساز ادارہ، وولکس (یا فوکس)ویگن گروپ (Volkswagen Group)ہم وطن دانشور کے درج بالا قول سے بے خبر تھا... ورنہ وہ لالچ و ہوس کے دلدل میں پھنسنے سے اجتناب کرتا۔
ہمارے ہاں اکثر یہ چرچا ہوتا ہے کہ مغربی باشندے بہت دیانتدار، بااصول اور محنتی ہیں۔ مگر بظاہر ایمان دار مغربیوں میں بھی جھوٹے، مکار اور لالچی پائے جاتے ہیں۔ اس امر کا بہترین ثبوت وولکس ویگن اسکینڈل ہے جس نے خصوصاً دنیا بھر میں آٹو موبائل کی صنعت کو ہلا ڈالا۔اس عبرت ناک داستان کا آغاز 2006ء سے ہوتا ہے۔ تب یورپی حکومتیں ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر پابندی لگانے لگیں۔
بعدازاں طے پایا کہ ڈیزل انجن والی صرف وہی گاڑیاں سڑکوں پر چلیں گی جو کم سے کم خطرناک مادے خارج کریں۔یاد رہے، ڈیزل انسانی صحت کے لیے ایک خطرناک ایندھن ہے۔ جب یہ گاڑی میں جلے، تو ماحول و انسان دشمن مختلف کیمیائی مادے و گیسیں خارج کرتا ہے۔ اسی لیے یورپ کے بعد امریکا، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ پابندی لگ گئی کہ گاڑیوں میں صرف نہایت کم کیمیائی مادے خارج کرنے والا ڈیزل استعمال کیا جائے۔
ان پابندیوں کے باعث یورپ و امریکا میں ڈیزل انجن والی گاڑیوں کی فروخت بہت کم ہوگئی۔ وولکس ویگن گروپ بھی ایسی گاڑیاں تیار کرتا تھا اور پابندیاں لگنے سے اسے مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ جرمن کمپنی نے پھر مسئلے کا کیا توڑ نکالا؟ وہ انسان دوست ہرگز نہ تھا اور دھوکے بازی کا تاریک چہرہ دکھانے والا ثابت ہوا۔وولکس ویگن کے ماہرین نے ایک خصوصی سافٹ ویئر تیار کیا جسے ''ڈیفیٹ ڈیوائس'' (defeat device) کہا جاتا ہے۔
ماہرین نے یہ سافٹ ویئر اپنی کاروں کے کمپیوٹرائزڈ نظام میں داخل کردیا۔ اس خفیہ سافٹ ویئر کی ذمے داری کیا تھی؟وہ یہ کہ جب لیبارٹری میں ٹیسٹنگ کے دوران جب دیکھا جاتا کہ گاڑی کا ایندھن کتنے کیمیائی مادے و گیسیں خارج کررہا ہے، تو سافٹ ویئر ٹیسٹ کی علامات (گاڑی کی رفتار، انجن کا آپریشن، ہوا کا دباؤ، سٹیئرنگ وہیل کی پوزیشن) دیکھ کر جان جاتا کہ ایندھن کی جانچ پڑتال ہو رہی ہے۔
یہ پوشیدہ سافٹ ویئر پھر گاڑی میں نصب ایسے آلات چالو کردیتا جو ایندھن سے خارج شدہ کیمیکل اور گیسیں جذب کرتے ہیں۔ چناںچہ ٹیسٹ کے ذریعے یہی بات عیاں ہوتی کہ وولکس ویگن کی ساختہ کار خطرناک ایندھنی مادے کم خارج کرتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ سراسر دھوکا اور کھلا فراڈ تھا۔
دراصل ایندھن سے خارج شدہ کیمیائی مادے اور گیسیں جذب کرنے والے آلات ہر وقت چالو رہیں، تو گاڑی زیادہ ایندھن پیتی ہے ۔جبکہ گاہک زیادہ ایندھن کھانے والی گاڑیوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ چناں چہ وولکس ویگن کمپنی کے ماہرین نے یہ عیاری دکھائی کہ لیبارٹری ٹیسٹ کو دھوکا دینے والا خفیہ سافٹ ویئر ایجاد کرلیا۔جب کمپنی کی تیار کردہ ڈیزل کار لیبارٹری میں ٹیسٹنگ کے مرحلے سے گزرتی ، تو سافٹ ویئر کی ''مہربانی''سے کم آلودگی خارج کرتی۔
مگر جب سڑک پر بھاگتی تو اس کا ڈیزل ایندھن خصوصاً خطرناک نائٹروجن آکسائیڈ گیس ''35 گنا'' زیادہ مقدار میں چھوڑنے لگتا۔ گویا حکومتیں اور خریدنے والے یہی سمجھتے رہے کہ وولکس ویگن کمپنی ماحول دوست گاڑیاں بنارہی ہے۔ مگر حقیقتاً وہ انسانی صحت اور ماحول خراب کرنے والی ڈیزل کاریں بنانے لگی۔ اس دھوکے بازی اور فراڈ کی وجہ؟...... یہی کہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔وولکس ویگن 2009ء سے ''ڈیفیٹ ڈیوائس'' والی گاڑیاں بنارہی ہے اور اب یہ سافٹ ویئر اس کی تیار کردہ''ایک کروڑ دس لاکھ'' گاڑیوں میں زیر استعمال ہے۔
حادثاتی دریافت
کمپنی کی کاروں میں نصب سافٹ ویئر حادثاتی طور پر دریافت ہوا۔ 2012ء میں امریکی ویسٹ ورجینا یونیورسٹی سے منسلک بھارتی نژاد محقق،اروند تھیرووینگدم نے فیصلہ کیا کہ سڑکوں پر مختلف کمپنیوں کی تیار کردہ ڈیزل گاڑیاں چلا کر جانچا جائے کہ کس کمپنی کی گاڑی کم یا زیادہ خطرناک ایندھنی مادے خارج کرتی ہے۔ اس تحقیق کے لیے انہیں نجی اداروں سے مالی مدد بھی مل گئی۔ چناں چہ اروند اپنے ساتھیوں کے ساتھ سڑکوں پر ڈیزل سے چلنے والی مختلف گاڑیاں چلانے لگا۔ایندھنی مادوں کی جانچ کے لیے ہرگاڑی میں پورٹیبل آلات نصب کیے گئے۔
اسی انوکھے تجربے نے انکشاف کیا کہ وولکس ویگن کمپنی کی تیار کردہ ڈیزل کاریں سب سے زیادہ خطرناک مادے خارج کرتی ہیں۔ یونیورسٹی کے محقق ان گاڑیوں کے نظام میں پوشیدہ سافٹ ویئر ''ڈیفیٹ ڈیوائس'' تو تلاش نہ کر سکے' تاہم انہیں احساس ہو گیا' دال میں کچھ کالا ہے۔ یہ 2012ء کی بات ہے۔پچھلے سال ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی کے محققوں نے اپنی تحقیق امریکا میں ماحول صاف ستھرا رکھنے کے ذمے دار سرکاری ادارے' ای پی اے یعنی اینوائر مینٹل پروٹیکشن ایجنسی(United States Environmental Protection Agency) کو بھجوا دی۔
ایجنسی کے ماہرین نے بھی سڑکوں پر وولکس ویگن کی گاڑیاں چلائیں۔ اس تجربے سے بھی آشکارا ہوا' یہ گاڑیاں مقررہ حد سے زیادہ خطرناک کیمیائی مادے اور گیسیں چھوڑتی ہیں۔اب ماہرین نے ان میں موجود خفیہ ڈیفیٹ ڈیوائس کو بھی تلاش کر لیا۔ چناں چہ ایجنسی نے وولکس ویگن کمپنی سے رابطہ کیا تاکہ جان سکے' گاڑیاں زیادہ آلودگی کیوں پیدا کر رہی ہیں۔
جرمن کار ساز ادارے کی ہٹ دھرمی دیکھیے ، وہ یہی کہتا رہا '' گاڑیوں میں کچھ تکنیکی خرابی ہو گی ورنہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔'' ادارے کے مالکوں نے مسلسل جھوٹ بول کر امریکیوں کو چکمہ دینا چاہا۔ مگر امریکی ادارہ جرمنوںکے سامنے ڈٹ گیا۔ آخر اس نے جرمن کمپنی کو دھمکی دی کہ اگر سچ نہ بتایا تو 2016ء سے وولکس ویگن کی ڈیزل گاڑیاں امریکا میں فروخت نہیں ہوں گی۔ اب جرمن کمپنی نے ہتھیار ڈال دیئے اور اقرار کیا کہ وہ دھوکہ دہی کی مرتکب ہوئی ہے۔
اب جرمن کمپنی کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ قانون وانصاف حرکت میں آ چکا ۔وولکس ویگن گروپ کا صدر استعفی دے چکا۔مگر یہ اسکینڈل سرمایہ داری نظام کی ایک خرابی اجاگر کر گیا... بعض نیک نام اور عالمی شہرت یافتہ کمپنیاں بھی زیادہ سے زیادہ پیسا کمانے کے چکر میں اخلاقی اقدار' روایات اور قانون کی مٹی پلید کر ڈالتی ہیں۔بہترین معاشی و مالیاتی نظام وہ ہے جس میں جائز طریقے سے منافع کمایا جائے۔ نیز کمپنی کی سرگرمیاں ایسی ہوں کہ وہ معاشرے اور عوم کو فائدہ پہنچائیں۔
لیکن کمپنیوں کی سرگرمیوں سے معاشرے اور بنی نوع انسان کو نقصان پہنچنے لگے' تو اس کا یہی مطلب ہے کہ معاشی نظام گل سڑ چکا۔یہ تو عیاں ہے کہ انسان ایسا مثالی اور بہترین معاشی نظام تخلیق نہیں کر سکتا جس میں فراڈ بالکل جنم نہ لے۔ اسی لیے سرمایہ داری کے حامیوں کا کہنا ہے' وولکس ویگن اسکینڈل کو مثال بنا کر اس معاشی نظام کو زبرو توبیغ کا نشانہ نہیں بنائیے۔
مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے سرخیل ترقی یافتہ ممالک خصوصاً امریکا میں کاروباری و تجارتی اداروںکی اکثریت کسی نہ کسی شکل میں دھوکے بازی کرنے میں محو ہے۔امریکی کمپنیاں زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں ایسے ہتھکنڈے اپناتی ہیں کہ قوانین سے بچ سکیں۔ اور جب قانون کی گرفت میں آ جائیں' تو اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی بھرپور کوششیں کرتی ہیں۔غرض آج کارپوریٹ امریکا میں خصوصاً زیادہ سے زیادہ پیسا کمانا بنیادی امر بن چکا۔ امریکی کمپنیوں کے نزدیک عوام کی صحت ' اخلاقیات اور معاشرے کی سلامتی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
چونکہ امریکا ایک سپر پاور ہے' لہٰذا اس کا انسان دشمن کارپوریٹ کلچر رفتہ رفتہ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں بھی پھیل رہا ہے۔مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل ایک امریکی کاروباری' مارٹن شکریلی کی ادویہ ساز کمپنی' ٹیورنگ فارماٹیکلز نے دوسری کمپنی سے ''ڈارا پرم'' (Daraprim) نامی دوا بنانے کے حقوق خرید لیے۔ یہ دوا مختلف امراض بشمول ایڈز میں قیمتی انسانی جان بچانے میں کام آتی ہے۔
سودا طے پاتے ہی مارٹن موصوف نے دوا کی قیمت میں ''5455'' گنااضافہ کر دیا۔ چناںچہ پہلے فی گولی 13.50ڈالر کی تھی' تو اب 750 ڈالر میں ملنے لگی۔ مارٹن نے یہ اضافہ اسی لیے کیا کیونکہ اب کارپوریٹ امریکا میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانا سکہ رائج الوقت بن چکا۔ بہر حال انسانی حقوق کی تنظیموں نے لالچ و ہوس دکھانے پر مارٹن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
امریکا اور یورپ میں اب د انش ور طبقہ یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ ہمارا معاشی نظالم کس نہج پر استوار ہو چکا؟ اسے عوام اور معاشرے کو فائدہ پہنچانا چاہیے' مگر فی الوقت وہ 1فیصد آبادی کو امیر سے ا میر تر بناتا جا رہا ہے۔ بانیانِ امریکا نے تو ایسے معاشی نظام کا خواب ہرگز نہیں دیکھا تھا۔
ساکھ کو خطرہ
یہ 1937ء کی بات ہے جب جرمن کار ساز ادارے' وولکس ویگن کمپنی کی بنیاد رکھی گئی۔ جرمن میں وولکس ویگن کے معنی ہیں:''عوامی کار''۔ آج یہ جاپانی ٹویوٹا کمپنی کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا کارساز ادارہ ہے۔ وولکس ویگن گروپ کاروں کے کئی مشہور برانڈ تیار کرتا ہے۔مثلاً وولکس ویگن، آودی، بینٹلے، پورشے' بوگاٹی' سکوڈا' لمبورگنی اور سیات (SEAT)۔ یہ ادارہ دوکاتی (Ducati)نامی موٹرسائیکل بھی بناتا ہے۔
''ڈیفیٹ ڈیوائس'' کا اسکینڈل آنے سے قبل وولکس ویگن گروپ کی اچھی خاصی ساکھ تھی مگر اب خریدار بے اعتماد ہو چکے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ عالمی سطح پر کمپنی کی کاروں کی فروخت کم ہو جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ معیار بنانے اور شہرت پانے میں برسوںلگ جاتے ہیں لیکن ایک لمحے کی غلطی سارے کیے کرائے پہ پانی پھیر دیتی ہے۔ وولکس ویگن کا حالیہ اسکینڈل اس حقیقت کی منہ بولتی مثال ہے۔
ڈیفیٹ ڈیوائس
ڈیفیٹ ڈیوائس سے مراد ہر وہ آلہ یا سافٹ ویئر ہے جو کسی گاڑی سے نکلنے والے ایندھنی کیمیائی مواد و گیسوں پر خفیہ یا عیاں طریقے سے اثر انداز ہو۔ امریکا میں خصوصاً گاڑیوں میں ڈیفیٹ ڈیوائس استعمال کرنا جرم ہے۔
کاروں میں ڈیفیٹ ڈیوائس کے استعمال کا پہلا کیس 1973ء میں سامنے آیا۔ تب امریکا میںانکشاف ہوا کہ کارساز اداروں... جنرل موٹرز' فورڈ' ٹویوٹا اور کرزلر نے اپنی کاروںمیں ایسے آلے نصب کیے ہیں جو کم درجہ حرارت میں آلودگی کنٹرول کرنے والے آلات بند کر دیتے ہیں۔ امریکی حکومت کے دباؤ پر کارساز اداروں کو یہ آلے اپنی گاڑیوں سے نکالنے پڑے۔
ایک ایسا ہی آلہ وولکس ویگن کی کاروں میں بھی نصب تھا۔ مگر جرمن کارساز ادارے نے اس کی بابت امریکی انوائر مینٹل پروٹیکشن ایجنسی کو مطلع نہیں کیا۔ لہٰذا جرمن ادارے کو نہ صرف اپنی کاروں سے آلہ نکالنا پڑا' بلکہ بطور سزا ایک لاکھ بیس ہزار زڈالر کا جرمانہ بھی بھرا۔ گویا وولکس ویگن کمپنی طویل عرصے سے قانون شکنی کرنے اور دوسروں کو دھوکا دینے میں مصروف ہے۔
امریکی ماہرین کا کہنا ہے ''دنیا بھر میں کارساز ادارے اپنی کاروں کی فروخت بڑھانے کے لئے ڈیفیٹ ڈیوائسز کا استعمال کرتے ہیں ۔لیکن وولکس ویگن کمپنی نے اپنی ڈیزل گاڑیوں میں جس عیاری و ''سوفیسٹی کیٹیڈ'' طریقے سے اس آلے کو استعمال کیا' اس کی د ھوکے بازی و فراڈ کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔''