وقت کا فیصلہ

طویل انتظار کے بعد ایرانی پارلیمنٹ نے آخر کار جوہری ڈیل کی منظوری دے دی


Zamrad Naqvi October 19, 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

طویل انتظار کے بعد ایرانی پارلیمنٹ نے آخر کار جوہری ڈیل کی منظوری دے دی۔ یہ وہ ڈیل تھی جس کے بارے میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اتفاق رائے رواں سال 14 جولائی کو ہوا تھا۔ ان عالمی طاقتوں میں امریکا، روس، چین، برطانیہ اور جرمنی شامل تھے۔ اس تاریخی معاہدے کے نتیجے میں اگر ایک طرف ایران کے ایٹمی پروگرام پر کچھ پابندیاں عائد ہوں گی تو دوسری طرف ایران پر سے ان معاشی پابندیوں کا خاتمہ ہو جائے گا جس نے ایرانی معیشت کو مفلوج کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اثرات ایرانی عوام کی زندگیوں پر بھی مرتب ہوتے رہے تھے۔ ایرانی ہویاامریکی کانگریس دونوں ایوانوں میں اس کی منظوری آسان نہیں تھی۔ امریکی کانگریس میں اس ڈیل کی شدید مخالفت تھی۔ خاص طور پر ری پبلکن پارٹی جس کی اس وقت کانگریس میں اکثریت ہے وہ ایران کی شدید مخالفت ہے تو وہ دوسری طرف اس حد تک اسرائیل نواز ہے کہ اس نے صدر اوباما کو دھمکی دی کہ اگر یہ بل پاس بھی ہوگیا تو وہ جب برسراقتدار آئے گی تو اس جوہری ڈیل کو منسوخ کر دے گی نہ صرف یہ بلکہ اس نے ایرانی حکومت کو بھی اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے اسے خط لکھ دیا۔

اس سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے مارچ کے شروع میں امریکا کا دورہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران مخالف قوتیں امریکا میں اس قدر طاقتور ہیں کہ انھوں نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی صدر کی منظوری کے بغیر اسرائیلی وزیراعظم کو دورے کی دعوت دے دی حالانکہ صدر اوباما اس موقعہ پر اسرائیلی وزیر اعظم کے دورے کے حق میں بالکل نہیں تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دورہ امریکا پر اوباما کی پوزیشن بڑی مضحکہ خیز تھی کہ اسرائیلی وزیر اعظم امریکی کانگریس کے مشترکہ ایوانوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کو شخصی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس ڈیل کی مخالف قوتوں نے جس میں عرب بادشاہتیں پیش پیش تھیں اس ڈیل کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے کئی سو ملین ڈالر مختص کیے تا کہ عالمی رائے عامہ ہموار کر کے اس ڈیل کو روکا جائے۔ ری پبلکن پارٹی کا اوباما انتظامیہ پر سب سے بڑا اعتراض ہی یہی تھا کہ جوہری ڈیل ہونے کے باوجود ایران اس پوزیشن میں رہے گا کہ وہ ایٹم بم بنا سکے۔

اس جوہری ڈیل کا سب سے بڑا مخالف اسرائیل تھا وہاں یہ صورت حال بنی کہ اسرائیل کے سابق جرنیلوں نے جن کا تعلق ماضی میں خفیہ ایجنسی اور دیگر سیکیورٹی اداروں سے رہ چکا ہے۔ انھوں نے احتجاجی طور پر ایک خط پریس کو جاری کر کے اسرائیلی وزیراعظم کو انتباہ کیا کہ اسرائیل امریکا تعلقات کو جو نقصان ان کے اقدامات سے پہنچ چکا ہے اس کو درست کرتے ہوئے ایران امریکا جوہری ڈیل کے حوالے سے زمینی حقائق کو تسلیم کریں جس کے نتیجے میں ایران خطے میں ایک کردار حاصل کر سکتا ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل کو تیار رہنا چاہیے۔ امریکی ری پبلکن پارٹی کی عددی قوت جس کے ساتھ صدر اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کی ممبران کی ایک تعداد مل گئی۔ لیکن اس سب کے باوجود ری پبلکن پارٹی جس کو کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اس بل کو تارپیڈو نہیں کر سکی جب کہ امریکی صدر پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ اگر کانگریس کی طرف سے مخالفت ہوئی تو وہ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس کوشش کو ویٹو کر دیں گے۔

ایک طرف یہ صورتحال تھی تو دوسری طرف ایران میں بھی جوہری ڈیل کے مخالفین کی بڑی تعداد تھی۔ یہ تھے سخت گیر قدامت پسند جو اس ڈیل کو ایران کے خلاف سازش قرار دے رہے تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اس طرح کی پابندیاں قبول کرنے سے ایران کے جوہری پروگرام کو سخت نقصان پہنچے گا اور اس کی ترقی رک جائے گی تو دوسری پابندیاں اٹھنے سے جب دوستی بڑھے گی تو ایران میں امریکا اور مغرب کا اثر و رسوخ بڑھے گا جو ایرانی اسلامی انقلاب کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ وہ اس طرح کہ ایک وقت کے بعد ایران کے اندر وہ عناصر طاقتور ہو جائیں گے جو لبرل اور سیکولر کہلاتے ہیں۔ اس طرح ایران کے اندر سے تبدیلی لانا ممکن ہو جائے گا۔ یہی تحفظات تھے جن کی بنا پر ایرانی رہبر آیت اللہ خامنائی نے کہا کہ ایران آیندہ امریکا سے کوئی مذاکرات نہیں کرے گا۔ اس جوہری ڈیل کی مخالفت ایران کے اندر تو تھی ہی خود ایران کے اندر یہ عالم تھا کہ جو افراد ایران کی طرف مذاکرات میں حصہ لے رہے تھے انھیں غدار قرار دیا گیا۔ ایرانی پارلیمنٹ کے 290 اراکین ہیں، اس میں سے 161 اراکین نے جوہری ڈیل کے حق میں ووٹ دیے۔ایک وقت تھا کہ مشرق وسطیٰ پر ایران کی بادشاہت تھی لیکن امریکا ایران لڑائی ہوئی اور یہ بادشاہت سعودی عرب کو منتقل ہو گئی۔ صرف پینتیس 35 سال بعد یہ صورتحال پھر بدل رہی ہے۔

بظاہر یہ طویل عرصہ لگتا ہے لیکن لگتا ہے کہ پلک جھپکتے ہی یہ وقت گزر گیا۔ وقت نے گزرنا ہی ہوتا ہے۔ جو آنے والی تبدیلیوں کو بھانپ لیتے ہیں وہی کامیاب رہتے ہیں ورنہ وقت ان کو کچلتا ہوا آگے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے لیے بھی ایران امریکا جوہری ڈیل میں بہت سے سبق پنہاں ہیں جو بھارت اور افغانستان کے حوالے سے ہمارے کام آ سکتے ہیں۔ ایران امریکا جوہری معاہدہ ایران امریکا دونوں کے لیے ہی بہت مشکل تھا لیکن مجبوراً دونوں نے کیا کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ ورنہ جو راستہ تھا وہ تیسری عالمی جنگ پر جا کر کھلتا۔ ایک طرف خطہ تباہ ہوتا تو دوسری طرف عالمی سامراج لیکن دہشت گردوں کی انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتیں۔ خطے کے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ہمیں بھی ماضی سے ہٹ کر بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ یہ وقت کا فیصلہ ہی ہوتا ہے جو اسرائیل اور عرب بادشاہتوں کو جوہری ڈیل تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس لیے وقت سے کبھی نہیں لڑنا چاہیے۔ اس کے ہر فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔ اسی میں خیر پوشیدہ ہے اور چھپا ہوا خیر ظاہر ہونے میں وقت لگتا ہے لیکن اس کے لیے بڑے حوصلے اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ وقت کو برا مت کہو...... اور اس کو ہی مقدر کہتے ہیں۔

...یمنی بحران کا حل نومبر دسمبر میں سامنے آ سکتا ہے۔

سیل فون:۔0346-4527997۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں