ہم شرمندہ بھی نہیں ہوتے

بے چاری متاثرہ خاتون شرمندہ بھی تھیں اورکہہ رہی تھیں کہ میں نے خود ان لوگوں کو بیگ میں ہاتھ ڈالتے دیکھا ہے


فاطمہ نقوی October 20, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: صبح صبح آفس آتے ہوئے بھائی نے ہمیں آفس ڈراپ کرنے سے انکارکردیا جس کی وجہ سے ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ کا رخ کرنا پڑا ہم عازم منزل تھے کہ بس میں شور ہنگامے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں معلوم کرنے پر علم ہوا کہ ایک خاتون کے پرس سے موبائل فون اور پیسے نکال لیے گئے ہیں۔

مگر کچھ خواتین اس خاتون کو ہی لتاڑ رہی تھیں کہ تم غلط الزام لگا رہی ہوکیونکہ متاثرہ خاتون نے چیزیں نکالنے والی خاتون کا ہاتھ پکڑ لیا تھا مگر متاثرہ خاتون کا ساتھ دینے کی بجائے عورتیں پکڑے جانے والی کا ساتھ دے رہی تھیں۔ آخر الزام لگانے والی خاتون خاموش ہوگئیں تھوڑی دیر کے بعد تین چار خواتین کا وہ ٹولہ جو زیادہ شورکر رہا تھا اگلے اسٹاپ پر اترگیا۔

بے چاری متاثرہ خاتون شرمندہ بھی تھیں اورکہہ رہی تھیں کہ میں نے خود ان لوگوں کو بیگ میں ہاتھ ڈالتے دیکھا ہے اتنی دیر میں دوسری خواتین نے اپنے اپنے بیگ تلاشے تو پتہ چلا کہ زیادہ تر خواتین کے بیگ میں سے موبائل اور والٹ غائب ہیں جب جا کر علم ہوا کہ یہ خواتین جو پچھلے اسٹاپ پر اترگئیں سب ساتھی تھیں اور ایک دوسرے کو بچا کر اپنا کام مکمل کر کے یہ جا وہ جا۔ اب بیٹھے روتے رہو۔

اس طرح کی وارداتیں اب اکثر بسوں اور پبلک مقامات پر تواتر کے ساتھ ہو رہی ہیں جس میں خواتین ملوث ہیں یہ گروہ بناکر چلتی ہیں ۔ اگر پکڑی جاتی ہیں تو دوسری ان کو صاف بچا کر نکل جاتی ہیں اکثر دنداسہ وغیرہ بیچنے والی خواتین ان کاموں اور دوسری اخلاقی برائیوں میں ملوث ہیں مگر جس طرح سے دوسرے جرائم پیشہ افراد کی پکڑ دھکڑ نہیں ہو پاتی اسی طرح ایسی خواتین بھی صاف بچ کر نکل جاتی ہیں اور اکثر جگہوں پر تو پولیس کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے اگر معاملہ بگڑ جائے تو پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے اور بعد میں آگے جاکر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

ان ہی وارداتوں کی وجہ سے ہمیں بھی پچھلے دو مہینوں میں دو تین موبائل فونز سے ہاتھ دھونا پڑے جوکہ گن پوائنٹ پر نہیں بلکہ خواتین کی وجہ سے ہم ان چیزوں سے محروم ہوئے اور اب ہم بغیر موبائل فون کے ہیں مگر اتنی ہمت نہیں ہو رہی کہ ایک عدد مزید فون لے کر ان وارداتیوں کو دلوادیا جائے کہ آئیے اور لے جائیے کہ آپ کے لیے ہی ہم نے اپنی حلال روزی میں خرچ کیا ہے۔ مرد جیت کتروں کی خوش پوش ٹولیاں بھی سنا ہے اسی طرح بس میں سوار ہوکر واردات کرتی ہیں۔پکڑے جائیں تو سب مل کر بیچ بچاؤ کرکے یہ جا وہ جا۔

کہتے ہیں کہ جیسے عوام ویسے حکمران اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم جب مختلف ٹاک شوز اور دوسری جگہوں پر دیکھتے ہیں کہ یہ وارداتیے بڑی سے بڑی واردات عوام کے ساتھ کرکے اپنی ساتھیوں کو صاف بچا لیتے ہیں اور کہیں کہیں تو دودھ سے دھلا بھی ثابت کردیتے ہیں کہ سچ جھوٹ میں تمیز کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ کسی کو ایک کام کرنے پر ستارہ امتیاز سے نوازا جاتا ہے تو کچھ دنوں کے بعد اسے ان ہی کاموں کے کرنے پر اپنے منصب سے برطرف بھی کردیا جاتا ہے۔

ملک میں کرپشن سرطان کی طرح پھیل گئی ہے کچھ عرصہ پہلے تک یہ حال تھا کہ لوگ رشوت خفیہ طریقے سے لیتے تھے اور اپنے مکانوں میں ہٰذا من فضل ربی لکھوا کر خوش تھے مگر اب دن دہاڑے کھلے عام ہرطرف اس کا رواج ہے دو تین دہائیوں سے تو جمہوری حکومتوں کا یہ تحفہ عوام کو ملا ہوا ہے کہ ہر درجے کے سرکاری اہلکاروں کا طرز بود وباش شاہانہ ہے مگر ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ جناب! یہ بے دریغ پیسہ آیا کہاں سے؟

ہر محکمے کی قاصد سے لے کر اعلیٰ عہدیدار تک کی ایسی ایسی داستانیں ہیں جو داستان امیر حمزہ سے کم نہیں ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں احتساب کون کرے جس کے خود کے ہاتھ صاف ہوں مگر کوئی ایسا نظر نہیں آتا فی الحال کہ جس نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں ملک کے نامور صحافی اپنے کالمز اور رپورٹوں کے ذریعے کرپشن کے کیسز سامنے لاتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے وہی ڈھاک کے تین پات کہ یہ ایسے کرپٹ لوگ پھر زیادہ باعزت طریقے سے سامنے آجاتے ہیں۔

اصل مسئلہ صرف ہوس کا ہے یہ ہوس جب تک ختم نہیں ہوگی کرپشن کی داستانیں سامنے آتی رہیں گی جہاں جس کو موقعہ مل رہا ہے وہ اپنے کام نکال رہا ہے اور یہ سیاست دان ، بیوروکریٹ اور سرکاری اہلکار صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ۔لاہور کے ضمنی انتخاب میں جس طرح روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا اور اس الیکشن کو زندگی اور موت کا معاملہ قرار دیا گیا سب کے سامنے ہے، جو کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے الیکشن میں کامیاب ہوں گے تو وہ اپنے خرچ کیے مال کو وصول نہیں کریں گے؟ جب ہمارے حکمرانوں کی یہی سوچ ہو کہ صرف اور صرف ذاتی مفادات ہی پیش نظر ہوں تو باقی کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔

ہماری سمجھ سے تو بالاتر بات ہے آج ملکی صورت حال خارجی ہو یا اندرونی دونوں دگرگوں ہے پاکستان کا شمار اس وقت غریب ممالک میں ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کے قرضے سود در سود بڑھ رہے ہیں ہم ڈیفالٹر ہونے کے قریب ہیں مگر ڈالر لندن میں ٹھیلوں پر آواز لگا کر بیچے جا رہے ہیں، ملک غریب ہے تو کیا ہوا ذاتی حیثیت میں ہمارے لوگوں سے زیادہ امیرکوئی نہیں ہوگا۔ تعلیم کی بدولت ہی کسی ملک کی ترقی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

غربت و افلاس کو دورکیا جاسکتا ہے مگر ہمارے ملک میں سب سے زیادہ بیڑا غرق اسی شعبے کا کیا گیا ہے بچوں کو تعلیم نہیں مل رہی مناسب خوراک کا فقدان ہے، عورتوں کی حالت زیادہ خراب ہے، مہنگائی اورغربت نے لوگوں کو جرائم کی طرف مائل کردیا ہے۔ آج ایک 30 ہزار ماہانہ کمانے والا بھی غربت کی لکیرکے اردگرد ہی کہیں موجود ہے مگر ایوان صدر پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کی شاہ خرچیاں الگ داستان سناتی نظر آتی ہیں حکمرانوں کی شاہ خرچیاں دیکھ کر کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ پاکستان غربت کے انتہائی درجے پر موجود ہے۔

قوم کا پیسہ تعلیم پر خرچ کیا جائے بچوں اور خواتین کی صحت کی مد میں ،تعلیمی اخراجات اور صحت کے معاملات کو دیکھنے کے لیے خرچ کیا جائے تو پھر ہم بجٹ بناتے وقت پیسے کی کمی کا رونا نہیں رو سکیں گے مگر تعلیم صحت اچھی قوم ہماری ترجیح میں ہی نہیں ہے بات نکلے گی تو پھر دور تک جائے گی۔

صبح کے واقعے سے ہونے والی گفتگو نے ملک کے حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے ہی لیا کہ جب تک اوپرکی سطح پر سادگی اختیار نہیں کی جائے گی نچلی سطح پر جرائم بھی ہوتے رہیں گے عوام کی پسماندگی بھی دور نہیں ہوگی اور بسوں پبلک مقامات پر خواتین کے یہ ٹولے ایسے ہی وارداتیں کرتے رہیں گے کیونکہ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ غربت کفر کی طرف لے جاتی ہے تو ابھی کفر کی طرف تو نہیں مگر ہماری قوم جرائم کی طرف تو مائل ہوگئی ہے اور شرمندہ بھی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں