نفع اور نقصان کی ریزگاری
تا کہ کہیں دوبارہ وہ لفظ چپکے سے ہماری زندگی میں پھر نہ شامل ہو جائے وہ لفظ تھا سلیقہ
اگر آپ اپنے ذہن پر زور ڈالیں تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ کچھ عرصے قبل تک ایک لفظ کو ہم سب کی زندگی میں بہت اہمیت حاصل تھی اور اس کا بہت عمل دخل تھا پھر بعد میں ہم نے اس لفظ کو اپنی زندگی سے دربدر اور ساتھ ہی ملک بدر کر دیا ۔
تا کہ کہیں دوبارہ وہ لفظ چپکے سے ہماری زندگی میں پھر نہ شامل ہو جائے وہ لفظ تھا سلیقہ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ زندگی کو بڑے سلیقے سے گزارا کرتے تھے، ان کی زندگی کی ہر ہر چیز میں اور رشتے میں کھڑا و ہ مسکراتا رہتا تھا۔ اس وقت حکومتیں بھی بڑے سلیقے سے چلتی تھیں، حکومتی اور ریاستی ادارے بڑے سلیقے سے اپنا اپنا کام سرانجام دیا کرتے تھے۔
سلیقے کی وجہ سے ہر طرف برکت ہی برکت تھی زرق میں برکت تھی وقت میں برکت تھی رشتوں میں برکت تھی اسی لیے اس وقت برکت بڑا مشہور نام ہوا تھا۔ زندگی بہت آسان ہوا کرتی تھی اور نیچر کے بہت قریب بھی لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر بڑے تندرست ہوا کرتے تھے رات جلدی سوتے تھے اور صبح جلدی اٹھتے تھے۔
اس وقت نا گھروں میں ایئرکنڈیشنر ہوا کرتے تھے نا ہی فریج اور نا ہی واشنگ مشین اور نا ہی کاریں لوگ پیدل سفر کیا کرتے تھے یا پھر ٹانگوں میں آیا جایا کرتے تھے شادی بیاہ یا موت میت میں سارا محلہ آپ کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ محلے کا ہر گھر آپ کا اپنا گھر ہوا کرتا تھا، بالٹیوں میں آم ٹھنڈے کیے جاتے تھے وہ بھی ایک آنے کی برف سے مٹکوں کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیا جاتا تھا، جس میں پانی نلکوں سے بھرا جاتا تھا اور وہ پانی تمام جراثیموں سے پاک ہوا کرتا تھا۔ نا بجلی کبھی جاتی تھی اور نا ہی بجلی کوئی چوری کیا کرتا تھا کیونکہ بجلی انتہائی سستی ہوا کرتی تھی کھانا لکڑیوں پر پکایا جاتا تھا جسے یاد کر کے آج بھی بزرگ گلے لگ لگ کر دھاڑے مار مار کر روتے ہیں۔
پتنگ بازی، لٹو، کنچے اور کبڈی محبوب مشغلے ہوا کرتے تھے۔ کرکٹ اور ہاکی عروج پر ہوا کرتی تھی بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتیاں بنا بنا کر چھوڑی جاتی تھیں۔ ٹڈے پکڑ کر اس کے پاؤں میں دھاگہ باندھ کر اسے اڑایا کرتے تھے۔ گھروں کے دروازے کھلے رہا کرتے تھے نا چوری کا ڈر ہوا کرتا تھا اور نا ہی کبھی کوئی گھر کی چیز غائب ہوتی تھی۔ گوشت اور سبزیاں روز کی روز لائی جاتی تھیں۔ ہرا دھنیا اور ہری مرچ سبزی والے مفت ڈال دیا کرتے تھے۔
مسلمان، عیسائی، ہندو، بہائی، پارسی سب مل کر ایک ساتھ اپنے اپنے تہوار مناتے تھے۔ نا کہیں کوئی نفرت تھی اور نا ہی کہی تعصب محرم الحرام اور عید میلادالنبی ﷺ انتہائی جوش و خروش سے شیعہ اور سنی ایک ساتھ مناتے تھے۔ ہر جگہ رواداری، برداشت، احترام، کا بو ل بالا تھا۔ سرکاری نوکریاں با آسانی دستیاب تھیں۔
صرف سرکاری اسکول اور کالج ہوتے تھے استاد اور طالب علمو ں میں قابل رشک احترام اور محبت کا رشتہ قائم تھا۔ اسٹوڈنٹ سیاست کو عروج حاصل تھا لیکن محبت اور احترام کے ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مباحثوں، ڈراموں اور ہفتہ طلبہ منانے کا رواج قائم تھا۔ اس وقت ریڈیو کا بول بالا ہوا کرتا تھا لوگ ریڈیو پر بی بی سی کی خبریں اور پروگرام 'سیربین' بڑے شوق سے سنا کرتے تھے۔ ہاکی میچ کی کومینٹری سننے کے لیے لوگ پوری پوری رات جاگتے تھے اور ساتھ ہی محمد علی کی باکسنگ کا مقابلہ بھی براہ راست ریڈیو پر سنتے تھے۔
عورتیں گھروں میں بورا، بڑیاں اور سویاں بناتی تھیں جو سال بھر چلا کرتی تھیں۔ گھروں میں پتھر کی چکی بھی ہوا کرتی تھی۔ شب برات میں دس دس قسم کے حلوے تیار ہوتے تھے اور دس دس قسم کی برفیاں الگ۔ تین چار قسم کے اچار تیار کیے جاتے تھے، کونڈوں میں ٹیکیاں بنا کر ذخیرہ کر لی جاتی تھیں، جو سال بھر چلا کرتی تھیں، روزوں کا اپنا ایک الگ مزہ ہوا کرتا تھا۔
سحری میں محلوں میں لوگوں کو ڈھول بجا بجا کر اُٹھایا جاتا تھا۔ مسجدوں سے بار بار وقت کی یاددہانی کروائی جاتی تھی۔ نعتوں کی دلکش آوازیں پوری رات سنائی دیتی تھیں ہر گھر سے افطاری مسجد ضرور جاتی تھی اس وقت لوگ واجبی سے لکھے پڑھے ہوتے تھے لیکن ان میں کمال کی سمجھ بوجھ، تہذیب و تمدن، اخلاق، برداشت ہوتی تھی۔ لوگ اس طرح فیصلے کیا کرتے تھے کہ ذہانت شرما جایا کرتی تھی۔
ہر محلے میں لائبریری ہوا کرتی تھی جہاں کرائے پر کتابیں ملتی تھیں۔ کرشن چندر، منٹو، عصمت چغتائی، ٹیگور، قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، ساحر لدھیانوی، مصطفیٰ زیدی، ابن صفی، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، احمد فراز جیسی عظیم شخصیات کی کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ کوئل، شہید، یہودی کی بیٹی، آگ، درشن، چکوری، یہ امن جیسی فلمی بنتی تھیں، محمد علی، زیبا، وحید مراد، سدھیر، صبیحہ خانم، شمیم آرا، سنتوش کمار، درپن، مسرت نذیر جیسے اداکار اور ادا کارئیں ہوتی تھیں۔
اس زمانے کے گانے اگر آج بھی سنے جائیں تو روح خوش ہو جاتی ہے اور تو اور یہ وہ زمانہ تھا جب سلیقہ سلائی مشین کا بول بالا تھا کوئی جہیز سلیقہ سلائی مشین کے بغیر مکمل نا ہوتا تھا۔ اس زمانے میں حکومتیں، ادارے، افراد سب کے سب چین کی بانسری بجایا کرتے تھے پھر اچانک اس چین کی بانسری کو بے چینی کی نظر لگ گئی اور چین کی بانسری میں سے بے چینی کی دھن بجنا شروع ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بے چینی کی دھن نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اور اب ہر طرف غصہ، جھنجھلاہٹ، بے چینی، بے قراری، افرا تفری، بے وفائی کا دور دورہ ہے۔
اب ہمیں صرف الجھنے میں تسکین ملتی ہے ہر جگہ ہر وقت آپ کو لوگ ایک دوسرے سے الجھنے ہوئے ہی ملیں گے جہاں سچ، ایمانداری، دیانتداری، خلوص، محبت، اخلاص کو ایمان کا درجہ حاصل تھا۔ وہاں اب انھیں کوئی ٹین ڈبے والا بھی نہیں پوچھتا، اب چاروں طرف بے ایمانوں، لٹیروں، ظالموں، غاصبوں کا وحشیانہ رقص جاری ہے۔
اب ہر رشتے، ناتے، جذبے، احساس کو کاروباری نگاہ سے تولا اور پرکھا جاتا ہے۔ اب ہر جگہ صرف کاروبار ہوتا ہے اب ہم سب کاروباری بن گئے ہیں، نفع اور نقصان کی ریزگاری گننے والے کاروباری لوگ۔ اگر کوئی غلطی سے بھی سچ، شرافت، تہذیب و تمدن، ایمانداری کی بات کر بیٹھتا ہے تو ہم سب مل کر اس کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ اسے نانی نہیں بلکہ پر نانی یاد آ جاتی ہے۔
اور وہ اپنی وصیت میں اپنی آنے والی سات نسلوں کو ہدایت کر جاتا ہے کہ کبھی غلطی سے بھی شرافت، ایمانداری کی بات کھلے عام مت کرنا اگر کرنی بھی ہو تو اپنے دل میں کرنا اور ا سے ہرگز ہرگز ہونٹوں پر مت لانا ورنہ تمہیں بھی یہ ہی وصیت اپنی آنے والی سات نسلوں کو کرنا پڑی گی، اب نا وہ لوگ رہے نہ ان کی باتیں رہے اور نا ہی ان کے انداز و اطوار رہے اب ہم ہیں اور ہماری اپنی باتیں ہیں اپنے انداز و اطوار ہیں اور اپنے اپنے کاروبار ہیں زمانہ کتنی جلدی اور تیزی سے بدلتا ہے یقین ہی نہیں آتا۔ خیر ساری بے کار کی باتیں چھوڑو، آؤ اپنا اپنا کاروبار کریں۔