دیمک
میرے خیال سے یہ لفظ ہماری زندگیوں میں رچ بس گیا ہے
ایک دن میری دوست کہنے لگی کہ سنا ہے کہ دیمک کی ملکہ زمین کے اندر گہرائی میں رہ کر دیمک کا زہر اہل زمین کو بھیجتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ انسانوں کے اندر کتنی گہرائی میں دیمک کا بسیرا ہے؟
سوال بہت بامعنی اور دلچسپ تھا۔
میرے خیال سے یہ لفظ ہماری زندگیوں میں رچ بس گیا ہے۔ یہ اکثر تمثیلی طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس کے کئی حوالے ہیں۔ یہ نفرت و تعصب کی بھی دیمک ہے، جو سالہا سال سے خوشی و خوشحالی کے خوابوں کو چاٹ رہی ہے۔ یہ محبت و نفرت کی دیمک بھی ہو سکتی ہے۔ یہ جھوٹ، حسد، رقابت کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔
دوست مطمئن نہیں ہوئی کہنے لگی ''میرا سوال یہ ہے کہ انسان کے اندر کس قدر دیمک پائی جاتی ہے۔ اس کی گہرائی کے بارے میں بتاؤ۔''
کچھ لوگ اپنی بات پر اڑ جاتے ہیں۔ انھیں ادھر سے ادھر ہلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کی ضد سے سیاسی بو آ رہی تھی حالانکہ اسے سیاست سے نفرت ہے۔
پیشے کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر ہے مگر اس کا دل خوبصورت ہے۔ رومانیت کا خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ایسے لوگ ہر خوبصورت چیز سے محبت کرتے ہیں۔ لہٰذا اکثر اس سے اچھی باتیں سنتی ہوں، جیسے آج کل وہ کون سی نئی کتاب پڑھ رہی ہے۔ چند نئی کتابوں کے نام پتہ چل جاتے ہیں یا اچھا شعر سماعتوں پر بارش کے قطروں کی طرح برستا ہے۔
اس کی فطرت میں تضاد ہے۔ اس کا شعبہ حقیقت پسندی کا متقاضی ہے جب کہ فطرت چاند، تاروں، موسم کی رعنائی اور احساس کی نزاکت کو سوچتی ہے۔
یہ ہر دور کے کردار ہیں۔ یہ آج بھی زندہ ہیں اور ہمارے درمیان موجود ہیں اور رہیں گے۔ دیمک کے کئی حوالے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ سیاست، معاشیات، اخلاقیات یا معاشرتی زندگی ہو ، ہر طرف باہر کی عمارت خوشنما دکھائی دیتی ہے، مگر اس عمارت کی جڑیں کس قدر کمزور ہیں۔ اس کی پیمائش ناممکن ہے۔ کیونکہ خستہ حالی اور بدحالی کا لفظ فقط نچلے و متوسط طبقوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ اعلیٰ طبقے خوشحالی کے تاج محل تعمیر کرواتے ہیں۔
چاہے مفروضوں پر ہی کیوں نہ تعمیر کریں۔ دکھ، تکلیف، کمی اور خلا کی پیمائش ناممکن ہے۔ یہ غیر محسوس اداسی جو ساتھ چلتی ہے۔ چیزیں بگڑتی ہیں، انھیں بنایا بھی جا سکتا ہے۔ الجھتی ہیں تو سنوارنا بھی ممکن ہے۔ کمی کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ خلا مثبت سوچ سے کسی حد تک بھرا جا سکتا ہے۔ خوشیاں زوال پذیر ہوتی ہیں تو غم بھی دائمی کیفیت نہیں ہے لیکن ہمیں جوڑنے اور بنانے کا سلیقہ نہیں آتا۔ منفی سوچ ایک خاموش قاتل ہے۔ یہ دیمک لگا خیال حقیقت سے قریب ہو کے گزرا ہے یا ذہن کی اختراع ہے۔ یہ خیال انسانی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔ یہ حبس زدہ رویے معاشرتی صفوں میں گھس کر تو کبھی انفرادی طور پر بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔
اس سوال کے پیچھے میری دوست کے زندگی کے المیے پوشیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ اسے یقینا منفی رویوں نے نقصان پہنچایا ہو گا۔ انسان کے اندر کتنی گہری دیمک لگی ہوئی ہے؟ یا ہمارے درمیان کتنی دیمک کی ملکائیں موجود ہیں اس کا تعین کوئی بھی نہیں کر سکتا۔
ایک طویل عرصے کے بعد کسی نے اتنا اچھا سوال کیا تھا۔ اکثر بحث برائے بحث ہوتے دیکھی۔ یا سوال بھی ایسے کیے جاتے ہیں، جو جلتی پر تیلی کا کام کر جاتے ہیں۔ سیاستدان معنی خیز انداز میں مسکراتے ہیں۔ اینکرز کی وجہ سے ایک لفظ کو بڑی اہمیت ملی ہے اور وہ لفظ ہے سٹ پٹانا۔ معلوم نہیں سوال اہم ہوتا ہے یا جواب۔ مسائل کی چکی میں پستے عوام ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتے ہیں۔ انھیں نہ سوال سمجھ میں آتے ہیں اور نہ ہی جواب۔
جب جواب بے معنی اور بے تکا ہو تو سوال کرنے والے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں، پھر وہ بات بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور سٹ پٹانے لگتا ہے۔
بہر کیف اس دیمک نے زندگی کے تضادات، ناانصافیوں اور استحصال کے دکھ ہرے کر دیے۔ تیسری دنیا کے ملکوں کے دکھ سدا بہار رہتے ہیں۔ کیونکہ فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیز کا دیمک تمام تر خوشحالی کو چاٹ جاتا ہے۔ غریب ہر طرح سے غریب رہ جاتے ہیں چاہے اس ملک کا انفرا اسٹرکچر جدید اور حسین کیوں نہ ہوتا رہے۔ عرب ملکوں کی بدحالی، مشرق وسطیٰ کے ملکوں کا زوال، ایشیا و ساؤتھ ایشیا کے تمام تر وسائل پر ان دیکھا قبضہ سوچی سمجھی سازش ہی کیوں نہ ہو عوامی زندگی کا ضمیر سویا رہتا ہے۔
بے خبری بھی منافع بخش کاروبار ہے۔ لاپرواہی اور غیر ذمے داری سے کئی المیے جنم لیتے ہیں۔ ہمرشیا کا شکار فقط شیکسپیئر کے کردار نہیں تھے۔ یہ کردار جو فیصلے میں دیر کرتے ہیں۔ اور انجانے میں دھوکا کھاتے ہیں۔ بچے اس وقت باپ سے خوش رہتے ہیں جو انھیں خوب دیتا دلاتا ہو۔ جب محبت کا مقصد دینا دلانا ہو تو وہ روگ میں بدل جاتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ احساس اچھا ہو یا برا اس کی پیمائش مشکل ہے۔
''تمہاری اس بات سے متفق ہوں۔ یہ بات میرے دل کو لگی۔'' پہلی بار وہ مسکرائی۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ دوبارہ اپنی ضد پر نہ اڑ جائے اور دیمک کی مقدار نہ پوچھنے لگے۔ یہ میری زندگی کا مشکل ترین سوال تھا۔
انسان کسی چیز کی کمی مستقل محسوس کرتا رہے تو بھی اس کی سوچ کو دیمک لگ جاتی ہے۔ وہ کمی کو حقیقت پسندی سے لینے کے بجائے اسے پر فریب خیال بنا دیتا ہے۔ واہمہ، پر فریب خیال، خواب اور قیاس آرائیوں کے درمیان دیمک خوب پھلتی و پھولتی ہے۔ کہنے لگی ''تمہاری باتوں سے میں اپنے سوال کا جواب کس طرح تلاش کروں؟''
''کیوں کیا یہ کوئی سیاسی جواب ہے کیا؟'' وہ میرے ظرف کا امتحان لے رہی تھی۔
ہمارے ظرف کا ہر کوئی امتحان لے رہا ہوتا ہے جب تک یہ کھوٹا سکہ نہ بن جائے اور مجھے اس لمحے سے بچنا تھا۔
وہ بات کی کھال نکالنا بھی جانتی ہے۔ معلوم نہیں کب اور کس وقت خفا ہو جائے۔
میرے مختلف جواب بھی اسے مطمئن نہیں کر پائے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
یہاں ہر کوئی مطلب کا نتیجہ برآمد کرنے پر مصر ہے۔ اس لفظ کا مقصد کب کا فوت ہو چکا۔ جہاں مردہ پرستی زیادہ ہو، وہاں بے مقصدیت فروغ پاتی ہے۔
سوال مشکل ضرور ہے مگر بامعنی بھی ہے۔ بعض اوقات انسان ان تضادات کے بیچ پھنس کر بری طرح پس جاتا ہے۔
میں نے بات بدلنے کی کوشش کی، مگر وہ ضد پر اڑی رہی۔ بالآخر مجھے وضاحت کرنی پڑی۔ میں نے کہا۔
''دیکھو! یہ فطرت کی انٹروپی ہے، جہاں چیزیں بنتی بگڑتی، کھپتی اور فنا ہوتی ہیں۔ فطرت کے دو پہلو ہیں۔ ایک تعمیری اور دوسرا تخریبی۔ مگر وہ کبھی کبھار تخریبی دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف شہد کی مکھیاں ہیں جو مٹھاس بنتی ہیں بانٹتی ہیں۔ دوسری طرف دیمک ہے جو نقصان کرتی ہے۔''
کہنے لگی میں تو انسان کے اندر لگے ہوئے نقب کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔ اس کی بات سن کر مجھے خان صاحب کا دھرنا یاد آ گیا۔ میں نے کہا ''چلو مان لیتے ہیں کہ دیمک کی ملکہ زمین کی گہرائی میں چھپ کر خاموشی سے اہل زمین کو نقصان پہنچاتی ہے، مگر انسان کے اندر اس کے ذہن، دل یا روح میں دیمک پہلے سے موجود نہیں ہوتی۔ یہ زہر اسے باہر کے ماحول سے ملتا ہے۔''
دیمک ایک روگ ہی تو ہے۔ اور ہم نے کئی روگ پال رکھے ہیں جو ہمیں اندر سے دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ لہٰذا دیمک اگر نفرت سے جڑی ہے تو یہ محبت کا ردعمل بھی ہو سکتی ہے۔
''یہ کیونکر ممکن ہے؟'' اس کے لہجے میں ہٹ دھرمی تھی۔ اسے فقط جواب چاہیے تھا کہ انسان کے اندر دیمک کی مقدار کتنی ہے اور بس۔
''دیکھو! سب سے زیادہ دکھ انسان کو محبت سے ملتا ہے کیونکہ انسان مشروط محبت کرتا ہے۔ ماں کو وہ بچہ اچھا لگتا ہے جو شور نہیں مچاتا۔ شوہر کو وہ بیوی پسند ہے جو تابعدار اور قناعت پسند ہو۔