اپنے گریبان میں بھی جھانکیے
اس میں شک نہیں کہ امریکی صدر اوباما کی رگوں میں ایک مسلمان کا خون گردش کر رہا ہے
اس میں شک نہیں کہ امریکی صدر اوباما کی رگوں میں ایک مسلمان کا خون گردش کر رہا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی ماں کے عیسائی مذہب کو اپنا لیا تھا تاہم انھوں نے اپنے باپ سے بھی رشتہ نہیں توڑا اور اپنے والد کے دیے گئے نام بارک حسین اوباما کو ہمیشہ برقرار رکھا۔ شاید اسی نام کی وجہ سے امریکی انتہا پسند عیسائی انھیں مسلسل مسلمان ہونے کا طعنہ ہی نہیں دیتے رہے بلکہ امریکی صدارت کا اہل بھی نہیں سمجھتے تھے۔
چند دن قبل امریکی صدارتی الیکشن کے لیے جاری نئی مہم کے دوران ایک ریپبلکن امیدوار بین کارسن نے اوباما کو نشانہ بناتے ہوئے کھل کر کہا کہ امریکی عوام کسی مسلمان صدرکو برداشت نہیں کرسکتے پھر امریکی آئین بھی مسلمانوں کے نظریات سے اختلاف کرتا ہے۔گوکہ اوباما کو شروع سے ہی ان کے اسلامی نام کی وجہ سے مسلمان ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہے مگر یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ انھوں نے آج تک خود پر ہونے والی تنقید کا کوئی جواب نہیں دیا اور شاید اسی لیے ان پر ان کے عقائد کے بارے میں تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا جیسا آزاد خیال معاشرہ جہاں مذہب کو ایک ذاتی فعل سمجھا جاتا ہے اور ریاست کا کسی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے پھر بھی وہاں کے عوام کسی مسلمان کو امریکا کا صدر نہیں دیکھنا چاہتے تو اس رجحان سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی خود امریکا میں بدرجہ اتم موجود ہے اور اس میں کمی کے بجائے روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ بعض آزاد مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کو عروج پر پہنچانے میں خود امریکا اور یورپی ممالک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یورپ میں خاص طور پر ہالینڈ، ڈنمارک، جرمنی اور فرانس میں یہ عفریت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
وہاں مسلمانوں کو طرح طرح سے تنگ کیا جا رہا ہے حتیٰ کہ خواتین کو حجاب کی پابندی سے بھی روک دیا گیا ہے۔ ویسے تو یہ تمام ممالک دنیا کے مہذب ترین ممالک کہلاتے ہیں مگر یہ دوسروں کی تہذیب اور مذہب کی کیا قدرکریں گے جب کہ خود اپنی تہذیب اور اقدار کو بھول چکے ہیں۔ یورپی ممالک میں پیغمبر اسلامؐ کے خاکے بنانا ایک عام فیشن بن گیا ہے گوکہ اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے مگر اس زہریلی مشق کو آزادیٔ اظہار کا نام دیا گیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے وہاں کی حکومتیں اس دل آزار مہم کی ہمت شکنی کرنے کے بجائے ہمت افزائی کرتی نظر آرہی ہیں۔
بلاوجہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا کہاں کا انصاف ہے جب کہ مسلمانوں نے کبھی عیسائی مذہب کی توہین نہیں کی وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ کا ایک نبی مانتے ہیں اور ان کی ناموس کے لیے اپنی جان بھی دے سکتے ہیں۔القاعدہ اور طالبان کا بدلہ اسلام اور مسلمانوں سے لینا سراسر زیادتی ہے۔ مسلمانوں نے القاعدہ اور طالبان کی کبھی حمایت نہیں کی کیوں کہ یہ دونوں تنظیمیں عالمی امن کی دشمن ہیں۔کسی بھی مسلم ملک نے انھیں اپنے ہاں ٹکنے نہیں دیا اور ان کے جنگجوؤں کو عبرت ناک سزائیں دی ہیں جس کی پاداش میں ان تنظیموں نے مسلمان ممالک کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
ان تنظیموں نے جتنا پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے کسی اور ملک کو نہیں پہنچایا۔ اس وقت پاکستان ان سے ہی نبرد آزما ہے اور اپنی حدود میں ان کا صفایا کرکے دم لے گا۔اس وقت امریکا اور یورپی ممالک دنیا کے سفید وسیاہ کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ وہ چاہیں تو مسلمانوں کے تمام دیرینہ مسائل حل کرسکتے ہیں مگر مسلمانوں سے تعصبانہ برتاؤ مسلسل جاری ہے۔ فلسطین اورکشمیر دو ایسے مقبوضہ خطے ہیں ۔
جن کے عوام برسوں سے اپنی آئینی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر ان کی کوئی آواز سننے کو تیار نہیں ہے جب کہ تیمور اور جنوبی سوڈان کے عیسائی عوام کے لیے ان کی چند ہی سال کی جدوجہد کے بعد دو مسلم ملک انڈونیشیا اور سوڈان کو توڑ کر دو عیسائی آزاد اور خودمختار ملک بنا دیے گئے ہیں ادھر اقوام متحدہ کو مزید توسیع دینے کا پروگرام زیر غور ہے۔ بھارت، برازیل، جرمنی اور جاپان کو اقوام متحدہ کا مستقل ممبر بنائے جانے کا امکان ہے مگر کسی مسلم ملک کو مستقل ممبر بنانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
مغربی ممالک خود ہی مذہبی انتہا پسندی پھیلانے میں سرگرم ہیں مگر مسلمانوں کو مذہبی انتہا پسندی کا طعنہ ہی نہیں دیا جاتا ہے بلکہ اس کا محرک قرار دیا جاتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے عالمی مذہبی انتہا پسندی سے متعلق جاری کی جانیوالی حالیہ سالانہ رپورٹ میں داعش اوردیگر مسلم انتہا پسند تنظیموں کی قوت میں اضافے پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک مکمل طور پر مذہبی، لسانی اور نسلی تعصب سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ اس رپورٹ میں اصل نشانہ اسلامی ممالک کو ہی بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں مذہبی انتہا پسندی کے رجحان کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
افسوس اس امر پر ہے کہ مغربی ممالک خود اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ ان کے اپنے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کس تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے ساتھ ہی وہ اپنے حواری اسرائیل اور بھارت جیسے مذہبی جنونیت میں ڈوبے ہوئے ممالک کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ اسرائیل نے تو مذہبی انتہا پسندی کی انتہا کردی ہے وہ فلسطینی مسلمانوں کو برداشت کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہے۔
وہ فلسطین کو ایک آزاد ملک تسلیم کرنا توکجا مسلمانوں کو فلسطین میں رہنے کے حق سے ہی محروم کرنے کے در پے ہے اپنے ہولوکاسٹ پر آنسو بہانے والے یہودی اب تک ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کو تہہ تیغ کرچکے ہیں۔ فلسطینیوں کے گھروں پر بمباری کرنا اور راہ چلتے مسلم نوجوانوں کو قتل کرنا معمول بن گیا ہے۔ مغربی ممالک جن کی اسے پشت پناہی حاصل ہے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو یہ مسئلہ آسانی سے چند ماہ میں ہی حل ہوسکتا ہے مگر وہ اسے خود ہی طول دے رہے ہیں اور اسرائیل کو جدید ترین اسلحے سے لیس کرکے مشرق وسطیٰ کا ٹھیکیدار بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔
اسرائیل کی طرح بھارت میں بھی مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے وہاں بھی مسلمان ہی نشانے پر ہیں۔ ایک طرف انھیں مکمل مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے تو دوسری جانب انھیں ہندوؤں کے مذہبی عقائد کے آگے سر جھکانے کے لیے مجبورکیا جا رہا ہے۔ گائے محض ایک جانور ہے مگر اونچی ذات کے ہندو اسے اپنی ماں قرار دیتے ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے گوشت کو کھانے کی اجازت لینا تو کجا اسے چھونے پر بھی پابندی لگا دی ہے پورے بھارت میں گائے ذبح کرنے اور گوشت کی فروخت پر پابندی لگانے کے ساتھ اس کی نگرانی بی جے پی کے غنڈوں کے حوالے کردی گئی ہے۔ مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے پر نہیں بلکہ گوشت کھانے کے شبے میں قتل کیا جا رہا ہے اس کی مثال دادری کے اخلاق احمد سے دی جاسکتی ہے حال ہی میں ایک اور مسلمان نوجوان کو سہارن پور میں گائیوں کو ٹرک میں لاد کر لے جانے کی پاداش میں بی جے پی کے غنڈوں نے مار مار کر قتل کردیا ہے۔
دراصل بھارت میں جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے مذہبی انتہا پسندی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ نریندر مودی خود ایک کٹر مسلم دشمن مہاسبھائی ہیں ۔احمد آباد میں 2002 میں مسلمانوں کا قتل عام ان ہی کے اشارے پر ہوا تھا وہ اب پورے بھارت میں ہندوتوا کو لاگو کرانا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں وزیر اعظم بنانیوالی مسلم دشمن راشٹریہ سیوک سنگھ نے یہی ٹاسک سونپنا ہے۔ کہنے کو بھارت ایک سیکولر ملک ہے مگر نریندر مودی نے بھارت کے سیکولرزم کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔
بھارت میں اس وقت صرف آر ایس ایس ہی نہیں بلکہ متعدد ہندو انتہا پسند جماعتیں سرگرم عمل ہیں جن کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کو یا تو ختم کردیا جائے یا پھر بھارت سے نکال دیا جائے۔ بال ٹھاکرے کی شیوسینا مسلم کش سرگرمیوں میں سب سے آگے نکل چکی ہے وہ ممبئی میں کئی مرتبہ مسلمانوں کا قتل عام کراچکی ہے اسے پاکستان سے خداواسطے کا بیر ہے کوئی پاکستانی اداکار یا گلوکار ممبئی میں اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرسکتا غلام علی کی حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے۔
سابق وزیر خارجہ محمود علی قصوری بڑی محبت کے ساتھ اپنی کتاب کی رونمائی کے لیے ممبئی گئے تھے مگر شیوسینا نے ان کے ایک پاکستانی ہونے کی وجہ سے تقریب کے انعقاد میں روڑے اٹکائے مگر میزبان نے کسی طرح تقریب منعقد کرکے دکھادی جس کی پاداش میں میزبان جناب کلکرنی کے چہرے پر کالک مل دی گئی۔ کیا یہ مذہبی اور اخلاقی انتہا پسندی کی انتہا نہیں ہے؟ مغربی ممالک مسلمانوں کو تو مذہبی انتہا پسندی کے لیے کھل کر نشانہ بناتے ہیں مگر افسوس کہ نہ خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتے ہیں اور نہ اپنے حواری ممالک کی خبر لیتے ہیں۔