بھٹو کے گڑھ سے

وجہ یہ نہیں تھی کہ سندھ حکومت کے دل میں لیاری والوں کے لیے محبت جاگ اُٹھی تھی


Zuber Niazi October 23, 2015

24اپریل2015 لیاری والوں کے لیے کچھ مختلف دن تھا، اس دن کے استقبال کے لیے ایک ہفتہ پہلے ہی پورے علاقے کو بلدیہ عظمی کے عملے نے سجا کر رکھ دیا۔ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر استرکاری ہوئی، سرکاری اسکولوں میں رنگ روغن کیا گیا، واک چاکنگ ختم کی گئی۔ علاقے میں پورا ہفتہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی اور نہ ہی پانی کا کوئی مسئلہ پیش آیا۔

وجہ یہ نہیں تھی کہ سندھ حکومت کے دل میں لیاری والوں کے لیے محبت جاگ اُٹھی تھی بلکہ اس دن پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے لیاری کے ککری گراؤنڈ میں خطاب کرنا تھا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ سڑک جو 20 سال سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ۔ پی پی کے شریک چیئرمین کے لیے راتوں رات بنا دی گئی۔ 24 اکتوبر کو سابق صدر نے بارہ ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی جھرمٹ میں جلسے سے خطاب کیا۔جس میں اُنہوں نے لیاری کے لیے ایک ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا۔ اس موقعے پر اُنہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے تین ماہ کے اندر علاقے کو پانی فراہم کرنے کا وعدہ لیا ۔

اپریل کے بعد مئی گزرا، پھر جون جولائی اگست آیا اور اب خیر سے اکتوبر کا مہینہ جاری ہے۔ لیاری والوں کو نہ ٹھیک سے پانی مل سکا اور نہ ہی ایک ارب کی کوئی خبر ہے۔کئی برسوں سے گینگ وار کا شکار رہنے والے اس علاقے میں یہ سیاسی بھونچال اچانک سے نہیں نہیں۔ بھٹوکے اس گڑھ میں طویل عرصے سے بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والی پیپلزپارٹی کو یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ پورے ملک کی طرح اب لیاری میںبھی حالات وہ نہیں رہے جو پہلے ہوا کرتے تھے۔ بدامنی، مسائل کے انبار اور سب سے بڑھ کر میڈیا پر دن رات ہونے والے تبصروں اور تجزیوں نے علاقے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

2013کے عام انتخابات میں پورے ملک میں جس طرح پیپلزپارٹی کو نقصان اُٹھانا پڑا اُس کے اثرات لیاری میں بھی دیکھے گئے اور ممکن ہے اس کی واضح تصویرآنیوالے بلدیاتی انتخابات میں نظر آجائے۔ علاقے سے دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر جاوید ناگوری اور ثانیہ نازجب کہ قومی اسمبلی کی نشست پر شاہجہان بلوچ منتخب ہوئے۔ تینوں کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے، لیکن علاقہ مکین کہتے ہیں کہ حلقوں میں اگرڈبے کھلوا کر انگوٹھوں کے نشانات کے ذریعے ووٹوں کی تصدیق کی جائے تو اس کے بھی ایسے ہی نتائج نکلیں گے جیسے لاہور کے حلقہ این اے 122اور125کے نکلے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران پارٹی کے سینئر رہنما ملک محمد خان کو نامعلوم افراد نے قتل کردیاتھا جس کے بعد پی پی کی سینئر اور جونیئر قیادت علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئی اور آج بھی واپس آنے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی واپس آبھی گیا ہے تو اُس نے چپ کا روزہ رکھنے میں ہی عافیت جانی۔ پی پی کی محبت میںاہل لیاری نے آصف زرداری کے 5 سالہ دور حکومت میں ظلم وستم کے پہاڑ جھیلے ہیں۔گینگ وار نے علاقے کو اعصابی طور پر گھائل کردیا۔

پیپلزپارٹی سے جیالوں کی ناراضگی کی ایک واضح جھلکاُس وقت دیکھنے میں آئی جب گزشتہ برس 18اکتوبرکو پیپلزپارٹی نے مزار قائد کے احاطے میں میدان سجایا تو لیاری کے جیالوں کے لیے100بسوں کا انتظام کیا گیا۔ وہ 100بسیں ککری گراؤنڈ میں کھڑی رہیں لیکن جیالے آنے کو تیار نہیں ہوئے۔اس طرح دنیا نے دیکھا کہ اکتوبر دو ہزار سات میں شہید بے نظیر بھٹو کے استقبال کے جو مناظر چشم فلک نے دیکھے تھے اُس کے بالکل برعکس تصویر ہمیں دکھائی دی۔ پیپلزپارٹی سے لیاری والوں نے بہت محبت کی۔

پسینے میں شرابور محنت کش خواتین سے بے نظیر گلے ملتی تھیں۔ بھٹوازم ان کی روح میں رچ بس گیا تھا۔یہاں سے پارٹی نے کھمبے کو بھی ٹکٹ دیا تو جیت اُس کا مقدر بنی لیکن رہنماؤں کی نا اہلیت ، بے حسی ، غیر انسانی رویے کے باعث علاقے میں ایک ایسا سیاسی خلا پیدا ہوا ہے جسے پُرکرنے کے لیے دیگر سیاسی پارٹی خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہیں۔ رواں سال 2 اگست کو مسلم لیگ ن نے علاقے میں بہت بڑے جلسے کا انعقاد کیا جس میں کراچی کی سینئر قیادت نے شرکت کی۔ ن لیگ کی جڑیں ویسے بھی علاقے میں موجود تھیں لیکن یہ اتنی مضبوط نہیں تھیں کہ تنہا پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرتیں ۔ اس بار لیگیوں کا خاص ہدف پیپلزپارٹی سے نالاں طبقہ ہے ۔

رہنما ہر اُس شخص کو پارٹی میںشامل کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں ذرہ برابر بھی پیپلزپارٹی سے بیزاری دکھائی دے۔ دوسری طرف کپتان کی تحریک انصاف نے بھی لیاری میں زبردست مہم شروع کردی ہے۔ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں بدامنی اور گینگ وار کے باوجود کپتان کے کھلاڑی کو یہاں سے بھاری تعداد میں ووٹ ملے۔ پیپلزپارٹی کے سابق رہنما نبیل گبول تو ٹی وی پر برملا کہہ چکے ہیں کہ اس علاقے سے اصل کامیابی تحریک انصاف کو ملی لیکن اُن کا مینڈیٹ چرالیا گیا۔ حال ہی میں لیاری کے علاقے دریا آباد میں تحریک انصاف کی جانب سے ایک بہت بڑے دفتر کا افتتاح کیا گیا۔

جس میں عارف علوی، علی زیدی اور خرم شیرزمان نے شرکت کی۔ آنیوالے بلدیاتی انتخابات کے لیے بھی علاقے میں زبردست سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ ن لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، پاکستان عوامی تحریک کے علاوہ آزاد امیدواروں کی ایک بہت بڑی فوج نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے ہیں۔ لیاری سے دو مرتبہ ایم این منتخب ہونیوالے نبیل گبول بھی اپنی سیاسی طاقت دکھانے کے لیے بے چین ہیں۔

وہ لیاری کی تمام برادریوں کو اکٹھا کرکے بلدیاتی انتخابات میں اُترنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ایک پیپلزپارٹی ہی ہے جس کی طرف سے کوئی خاص سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آرہیں۔ ایک وقت تھا جب پیپلزپارٹی کو ٹکٹ لینے کے لیے لوگ مرے جاتے تھے لیکن آج لیاری کی پندرہ یونین کونسلوں میں امیدوارڈھونڈنے پڑ رہے ہیں۔ شیخ رشید کی زبان میں اگر کہا جائے تو پیپلزپارٹی کی قیادت ستو پی کر سوئی ہوئی ہے۔ سونے پہ سہاگہ علاقے میں پانی اور لوڈشیڈنگ نے بھی مکینوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔

بھٹو کے اس گڑھ کے لیے لیاری کے جیالوں نے کیا کیا قربانیاں نہیں دیں لیکن جواب میں پارٹی نے اس علاقے کو کیا دیا؟آج بھی لیاری کا نام سُن کرذہنوں میں کسی جنگ زدہ علاقے کا خاکہ بن جاتا ہے۔ پہلے بھی یہ علاقہ بلیک لسٹ تھا اور آج بھی ۔ جن لوگوں کو پارٹی نے ٹکٹ دیے وہ جیت کرکروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے۔ اور آج کل ڈیفنس اور کلفٹن میں بیٹھ کر اخبارات کے ذریعے سیاست فرماتے ہیں۔ لہٰذا آنے والے بلدیاتی انتخابات اس علاقے کے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ الیکشن فیصلہ کریں گے کہ لیاری اب بھی بھٹوکا گڑھ ہے یا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں