افغانستان کی سیکیورٹی
قندوز نے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ افغانستان ٹوٹ پھوٹ کے عمل کی طرف بڑھ رہا ہے
ISLAMABAD:
قندوز نے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ افغانستان ٹوٹ پھوٹ کے عمل کی طرف بڑھ رہا ہے بالخصوص وہ کامیابیاں جو ناقابل بیان اخراجات کے ساتھ امریکا کی قیادت میں اتحادی ملکوں نے درجن بھر برسوں سے زیادہ عرصے تککیں، وہ سب کے سب رائیگاں نظر آنے لگی ہیں۔ لیکن افغانستان کا ٹوٹنا اس پورے ریجن کے استحکام اور اس کی سیکیورٹی کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔ لہٰذا امریکی صدر اوباما کی طرف سے افغانستان میں امریکی فوج کے قیام میں 2016ء سے بعد تک کی توسیع دینا افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک مثبت علامت ہے۔
یہ فیصلہ کن اقدام دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک ریجن میں استحکام پیدا کرے گا جب کہ یہ ریجن اسٹرٹیجک اعتبار سے بھی بے حد اہم ہے۔ اوباما نے نہایت جراتمندانہ طور پر فوج کے قیام میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے تا کہ اس علاقے میں جس قدر بھاری اخراجات کے ذریعے سرمایہ کاری کی گئی ہے اور جتنی جانی قربانیاں دی گئی ہیں ان کے مقصد کو تحفظ دیا جا سکے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا افغان حکومت تبدیلی کے لیے تیار ہے؟
اٹلانٹک کونسل نے ''افغانستان اور امریکی سیکیورٹی'' کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ کیا 11 ستمبر 2011ء کے حملوں کے 14 سال بعد بھی افغانستان کی اتنی ہی اہمیت ہے کہ اس کے لیے امریکی فوج کی جانوں اور بے پناہ مالی اخراجات جاری رکھنا روا ہے جس کے لیے فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اخراجات بھی شامل ہیں؟ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس خطے سے دہشت گردی کے خطرے کو یکسر نابود کرنے کی خاطر انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مسلح افواج کا مسلسل چوکس رہنا ناگزیر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک طویل المدت حکمت عملی کا متقاضی ہے جس کی بے شمار دیگر شاخیں بھی ہمہ وقت متحرک رہیں تا کہ متشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا جا سکے۔
امریکا کا تزویراتی ہدف یہ ہے کہ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کو شکست دے اور پاکستان کو ان کے لیے محفوظ ٹھکانے بنانے سے روکے جب کہ افغانستان کو اپنے طور پر مضبوط اور مستحکم بنایا جائے۔ اگر القاعدہ یا داعش کو شکست دینے کی ضرورت ہے تو اس کے لیے ایک طویل المدت حکمت عملی وضع کرنا پڑے گی تا کہ سب سے پہلے انتہا پسندانہ متشدد نظریات کو ختم کیا جائے کیوں کہ انتہا پسند عناصر اسلامی نظریات کو مسخ کر کے اپنی الگ تفہیم پیدا کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں منظرعام پر آتی ہیں۔ لیکن چونکہ یہ تنظیمیں ایک طویل مدت خطرے کا باعث ہیں لہٰذا ان کے مقابلے کے لیے سب کو مل کر کوشش کرنی چاہیے بالخصوص اس خطے کے اہم ممالک کو جن میں چین' روس' ایران' سعودی عرب اور پاکستان شامل ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے اپنے دورہ امریکا میں دہشت گردی کی ایک نئے انداز سے تشریح کی اور کہا کہ جنوبی اور مغربی ایشیا، چین اور وسطی ایشیا میں جو ریاستی نظام قائم ہے دہشت گردی سے اس کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عالم اسلام کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کریں تا کہ اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل ہو سکے۔ اگر دہشت گردی کے سدباب کی کوششیں مسلسل جاری رکھی جائیں تو بالآخر ہمیں کامیابی نصیب ہو جائے گی۔
افغانستان کی ''نیشنل یونٹی گورنمنٹ'' کو اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور نہ صرف اپنے لوگوں کو بلکہ بین الاقوامی برادری کو بھی ان کی کامیابیاں نظر آنی چاہئیں نیز انھیں اپنی خامیوں کا الزام دوسروں پر نہیں دھرنا چاہیے۔ افغانستان کو خود انحصاری کی منزل حاصل کرنی چاہیے تا کہ ان کے علاقے سے بین الاقوامی کمیونٹی کا کردار بتدریج کم کیا جا سکے۔ واضح رہے وہ ممالک جہاں جمہوریت خاصی جڑیں پکڑ چکی ہے وہاں بھی اگر مخلوط حکومت بنے تو اس کے لیے کارکردگی دکھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب کہ افغانستان کو بڑے شدید قسم کے چیلنج درپیش ہیں لیکن افغانستان کے دوست چاہتے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر ترقی کرے تا کہ اس کی اقتصادی حالت اور سیکیورٹی مستحکم ہو سکے اور افغان حکومت اپنے اس ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اصلاحات نافذ کر سکے اور یہ ثابت کر سکے کہ افغانستان اب بھی سیاسی' مالیاتی اور عسکری وعدے پورے کرنے کے قابل ہے لہٰذا اس کے لیے امریکی اور عالمی امداد اور حمایت جاری رہنی چاہیے۔
امریکا کا تزویراتی ہدف یہ ہے کہ وہ اپنی مسلح افواج کا جنگ کرنے کا کردار افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کو منتقل کر دے کیونکہ گزشتہ دو سال سے امریکی فوج افغان فوج کو دفاعی اور دہشت گردی کے انسداد کی تربیت فراہم کرتی رہی ہے لیکن جیسا کہ قندوز کے واقعے سے ظاہر ہوا امریکا اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ افغان فوج قندوز میں انسداد دہشت گردی کے چیلنج پر پورا نہیں اتر سکی۔ اس سال جنگ بڑی مشکل رہی ہے طالبان نے نئی حکومت پر بہت بری طرح دباؤ ڈالا تا کہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ آیا وہ ایساف (انٹرنیشنل سیکیورٹی رزسٹنس فورسز) کے انخلاء کے بعد پیش آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ بدقسمتی سے انٹیلی جنس کے حوالے سے ان کی اہلیت قابل بھروسہ نہیں اور نہ ہی وہ دہشت گردی کے خلاف خصوصی آپریشن میں فضائی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
قندوز کے واقعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء سے افغانستان کے لیے شدید خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ افغان فوج امریکا کو انٹیلی جنس فراہم کرتی ہے جو کہ انسداد دہشت گردی (CT) کے لیے بہت ضروری ہے اگر امریکا نے CT آپریشنز میں کمی کر دی تب افغانستان میں دہشت گردی کے حملوں کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما نے اپنے فوجی منصوبہ سازوں کی بات مان لی کہ ابھی امریکی اور ایساف افواج کو واپس نہیں آنا چاہیے۔
قندوز کو واپس حاصل کرنے کی جدوجہد کی گئی تا کہ شہر کا کنٹرول دوبارہ سنبھالا جا سکے لیکن اس کے لیے زبردست مشکلات پیش آئیں۔ موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ سیاسی اور سیکیورٹی قیادت میں یکجہتی ہونی چاہیے اور میدان جنگ میں بھی یہ تعاون نظر آنا چاہیے۔ قندوز کے واقعے نے یہ بھی سمجھایا ہے کہ ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ طالبان تمسخر کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ ''امریکنوں کے پاس گھڑیاں ہیں لیکن ہمارے پاس وقت ہے''۔ انھیں اس بات کا موثر جواب دیا جانا چاہیے، ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ انھیں عوام الناس کی حمایت کبھی حاصل نہ ہو گی اور طالبان کی دہشت گردی کو بالآخر شکست ہو گی۔
حکومت پاکستان کو احساس ہے کہ انتہا پسندی پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے خطرہ ہے جب کہ حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ نے طالبان کے نئے لیڈر ملا منصور کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور اب یہ داعش کی مدد سے اقتصادی سرگرمیاں شروع کرنا چاہتے ہیں جس کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں۔ افغانستان کی معیشت کی بحالی کے لیے نہایت اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کی خود انحصاری کی حکمت عملی کی کامیابی کے لیے بھی یہ ضروری ہے تا کہ ملک میں کاروبار کے لیے نارمل یعنی معمول کی فضا قائم ہو سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نجی شعبے کے ساتھ بھی اشتراک کیا جائے اور کرپشن کو روکنے کی کوشش کی جائے تا کہ روزمرہ کی اقتصادی سرگرمیاں جاری رہ سکیں۔
جنرل راحیل شریف نے فروری 2015ء میں کابل کے دورے کے دوران واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ''افغانستان کے دشمن، پاکستان کے دشمن ہیں۔'' وزیراعظم نواز شریف نے مئی کے مہینے میں کابل میں وہی بات کہی کہ ''افغانستان کے دشمنوں کو پاکستان کے دشمن سمجھا جائے گا''۔ اگرچہ پاکستان قیام امن کے لیے اپنی سی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے مگر پھر بھی امریکا میں تمام تر ناکامیوں کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے اور یہ بھی الزام لگایا گیا کہ قندوز کے واقعے میں پاکستانی عناصر بھی ملوث تھے جنہوں نے اسپتال کو اپنا ٹھکانہ بنا رکھا تھا حالانکہ یہ بات قطعاً غلط ہے اور ایسی باتوں سے حالات بہتر ہونے کے بجائے اور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور افواج نے بے بہا قربانیاں دی ہیں لہٰذا ایسی بات کرنا ان کی دل شکنی کے مترادف ہے۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ افغانوں کو اس کا عادی ہو جانا چاہیے۔
(واشنگٹن ڈی سی، یو ایس اے میں 19 اکتوبر 2015ء بروز سوموار ہونے والی اٹلانک کونسل کی پینل ڈویژنز میں کی جانے والی گفتگو کا اقتباس)