افغانستان میں قیام امن خطے کی ضرورت
افغانستان وہ خطہ ہے جو تاریخی اور زمینی بلکہ ہر لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے
افغانستان وہ خطہ ہے جو تاریخی اور زمینی بلکہ ہر لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس خطے میں 50 ہزار سال قبل مسیح انسانی وجود کے آثار ملتے ہیں۔ یہ خطہ اولیا اللہ اور اہل علم و فن کا مرکز رہا ہے۔ اس علاقے پر مستقل قبضے کے لیے ہر دورکی سپرپاور نے جارحیت کی لیکن شدید ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ برطانیہ افغانوں کو فتح نہ کرسکا، سوویت یونین کی شکست ہمارے سامنے ہے اور اب امریکا کو ناکامی کا سامنا ہے۔
1989 سے لے کر 1996 تک افغانستان میں تاریخ کی بدترین خانہ جنگی ہوئی تقریباً 6 لاکھ 50 ہزار افغانوں کا قتل ہوا اور یہ قتل کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ آج پوری دنیا غیر محفوظ ہوگئی ہے۔ امریکا کے خوفناک جنگی عزائم، خوفناک مظالم، فضا سے برسنے والے بموں کی بارش، دوبدو جنگ اور آج تک مذاکرات کی بھیک، کون فاتح اورکون بے بس! شدید ترین طاقت کا مظاہرہ کرنے والا امریکا آج کس مقام اورکس پوزیشن میں ہے؟
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں کی سرحد کے آر پار ایک ہی طرح کی قوم بستی ہے، جو مذہب، ثقافت، سماجی اور خاندانی رشتوں کے بندھن میں بندھی ہے اور یہ رشتے اتنے مضبوط ہیں کہ ان کے معاشرتی معاملات میں سرحدیں بیچ میں نہیں آسکتیں، چنانچہ سرحد کے کسی بھی حصے میں اٹھنے والی بے چینی اور وبال کا دوسرے سرحدی حصے پر اثرانداز ہونا بھی غیر فطری نہیں۔ اسی لیے نتائج دونوں ملکوں کے حالات پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں۔ 9/11 کے بعد امریکی جارحیت، افغانستان کی موجودہ صورتحال کی ذمے دار کہی جاسکتی ہے۔ امریکا کی اس جارحیت کے نتیجے میں مزاحمت بھی پیدا ہوئی تو سرحد پار پاکستانی علاقے بھی اثرانداز ہوئے۔ یوں پاکستان بدامنی، شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔
12 سال سے اپنے جاری مشن کو امریکا اپنی ناکامی کے ساتھ لپیٹنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کوشش میں اپنے لیے باعزت واپسی کے راستے بھی ڈھونڈ رہا ہے۔ شاید اسی لیے طالبان سے مذاکرات کی نئی مشق کو آزمایا جا رہا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام معاملات سے پاکستان کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا اگر کسی بھی طرح کی بدامنی افغانستان میں ہوتی ہے تو اثرات پاکستان میں بھی ہوتے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے عوام کو بھی اس امن و سکون کے ایجنڈے میں برابرکا شریک ہونا چاہیے، افغانستان میں موجود مختلف جماعتیں کسی ایک نقطے پر متفق ہوں اور عوام کی آرا کے ساتھ ساتھ صلح اور مفاہمت کی طرف بڑھا جائے۔ طالبان کا 14 برس بعد قندوز پر قبضہ امریکا کی ناکامی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور فریقین میں مذاکرات کی صورت میں اس جنگ کے خاتمے کے امکانات پیدا ہوئے، یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ 12 سال کے بعد امریکی اور غیر ملکی فوجوں کا افغانستان سے انخلا ہو رہا ہے۔ اتنی بڑی جنگ کے بعد سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہوسکتا ہے یا ہم یہ سمجھیں کہ جنگ کے خاتمے کے بعد حالات بالکل نارمل ہوجائیں گے ممکن نہیں۔ ہاں مگر وقت کے ساتھ ساتھ عقل ودانشمندی سے حالات بہتر کیے جاسکتے ہیں۔
ایسے متفقہ فارمولے بنائے جائیں جو نہ صرف افغانستان کے لیے بہتر ہوں بلکہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے لیے بھی قابل قبول ہوں اور بالکل اسی طرح افغانستان میں موجود مختلف سوچ رکھنے والے طالبان کے لیے بھی قابل قبول ہوں۔ سوویت یونین کی شکست کا اگر امریکا صحیح پہلوؤں سے تجزیہ کرتا تو شاید امریکا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا۔ بہرحال تاریخ سب کے سامنے ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں شہادتیں، نفرتیں پھیلانے کا باعث بنیں اور تمام کی تمام دنیا اس کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ پاکستان سوویت یونین کے زمانے سے ہی افغانستان میں جنگ کی صورتحال کی قیمت ادا کر رہا ہے۔
اور ایسی قیمت کہ جس میں دہشت گردی کی المناک وارداتیں شامل ہیں۔ 9/11 کے واقعے کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نئے امتحان کا سامنا کرنا پڑا۔ بچے سے لے کر بوڑھے تک، تمام مسلمان اپنی اپنی جگہ گناہ گار ثابت کیے جانے لگے، خواتین کے حجاب سے لے کر، نمازیوں کی نماز تک وجہ تنازعہ بنی۔ اس کے باوجود کہ یورپ اور امریکا شخصی آزادی کا بھرپور حامی ہے پوری دنیا پر حکومت کرنے کے خواب نے امریکا کو افغانستان میں شدید چکنا چورکیا۔
افغانستان میں جب بھی آگ بھڑکی اس کے شعلے اور اس کی تپش پاکستان میں برابر محسوس کی گئی۔ اب وقت ہے کہ پوری دنیا اتنے سنگین تجربے کرنے کے بعد اگر مثبت رویے اور مثبت سوچ کا مظاہرہ کرے تو پوری دنیا میں دہشت کے سائے کم ہوسکتے ہیں۔ نہتے طالبان اگر جدید ترین اسلحے سے لیس امریکیوں سے لڑ سکتے ہیں اور انھیں طویل جنگ کے بعد شکست سے ہمکنار کرسکتے ہیں تو لمحہ فکریہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اور ایسی کون سی قوت اور طاقت ہے جو نہتے طالبان کو رونگھٹے کھڑی کردینے والی داستانوں کے باوجود بے تحاشا مظالم کی رودادوں کے باوجود سیسہ پلائی چٹان بنا دیتی ہے، جو نہ صرف سپر پاور کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہیں بلکہ پوری دنیا کو غیر محفوظ بھی بنا دیتی ہیں۔
افغانستان پر سپر پاورز کی جارحیت نے پاکستان پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے، سوویت یونین سے لے کر آج تک۔ جنگ کے نتیجے میں لاکھوں مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی گئی بے حساب افغانیوں نے پاکستان میں اپنے روزگار جمائے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ بے شمار تجارت ہوئی کیونکہ بہت ساری باتیں ہم میں مشترک بھی ہیں اس لیے یہ تجارت بڑھتی گئی اور کئی پہلوؤں سے کچھ تجارت کے اثرات بے حد منفی بھی رہے۔ خواتین اور بچوں کا افغانستان میں بہت زیادہ نقصان ہوا، خواتین پر پابندیاں عائد کی گئیں اور خاص طور پر تعلیم کے میدان کو خالی چھوڑ دیا گیا جوکہ موجودہ دور میں کسی کے لیے بھی اچھی بات نہیں ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے بارڈرکی لمبائی تقریباً مربع میل2430 ہے۔ افغانستان کے کئی شہر اس بارڈر کے ساتھ ہی ہیں۔ پشتون آبادی ہے۔ اتنا قریبی تعلق ہونے کی بنیاد پر یقینا ایک دوسرے پر ہونے والے واقعات کا اثر ایک دوسرے پر ہونا لازم و ملزوم ہے۔
دہشت گردی کے واقعات، ٹریننگز اور اسی طرح مختلف چیزیں، جن سے براہ راست پاکستان متاثر ہو رہا ہے اور ہوتا رہا ہے، جنرل ضیا الحق کے دور کے واقعات پر اگر ہم ایک نظر ڈالیں اور روس، افغانستان جنگ کو دیکھیں تو اس کے کئی خطرناک نتائج پاکستان پر آئے۔ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ زرمبادلہ بھی کمایا گیا مگر جس طرح ماحول پاکستان میں پروان چڑھا اور اب امریکا افغانستان کی جنگ کی جو خوفناک قیمت افغانستان نے ادا کی پاکستان میں بھی اس کے اثرات منفی ہی رہے۔
القاعدہ اور طالبان گروپ ان کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر انگلیاں اٹھائی گئیں، ڈرون حملے پاکستان پر ہوئے اور ہوتے رہتے ہیں جس میں دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کا بھی بہت زیادہ نقصان ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات کا تانا بانا سرحد پار پر جاکر ملا۔
پاکستان آرمی کوئی شک نہیں کہ دنیا کی بہترین افواج میں شمارکی جاتی ہے۔ موجودہ ضرب عضب کی کامیابیاں بہت ہی نمایاں ہیں اور مسلسل دہشت گردی سے ملک کو، صوبوں کو، بچانے کے لیے مسلسل قربانیاں دی جا رہی ہیں اور ان کا جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا جا رہا ہے، بہت زیادہ نقصان اٹھانے کے بعد بھی قوم اور افواج ایک ہی صفحے پر ہیں اور پرامن پاکستان کے لیے جانثاری اور بہادری کے جذبوں کے ساتھ آگے ہی آگے گامزن ہیں۔ دہشت گردی سے پاک پرامن خطہ ہی ہماری شدید ضرورت ہے۔