بارہواں کامن جاوید نثار سید میڈی بینک

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’سخی اللہ کا دوست ہے کہ چاہے فاسق اور فاجر کیوں نہ ہو۔‘‘


Orya Maqbool Jan October 26, 2015
[email protected]

آج سے ٹھیک اکتیس سال قبل 18 اکتوبر 1984ء کو سول سروسز اکیڈمی کی راہداریوں میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ نوجوانوں نے قدم رکھا۔ ہر کوئی مستقبل میں بیورو کریسی کی اعلیٰ منازل طے کرنے کے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھا۔ ملک کا اعلیٰ ترین امتحان نہ صرف پاس کرنا بلکہ اس میں ایک ایسی پوزیشن حاصل کرنا کہ بیورو کریسی کی منزلِ اول کی نوکری آپ کو میسر آ جائے، اس کا نشہ ہر کسی کے دماغ کو ساتویں آسمان پر جا بٹھاتا ہے۔ رشتے دار، دوست، اہل محلہ یہاں تک کہ عام لوگ بھی ان نوواردانِ سول سروس کو ایک مختلف نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ایسے تکبر اور نخوت کا زہر بڑے بڑوں میں سرایت کر ہی جاتا ہے۔ لیکن اکیڈمی میں یہ ایک برادری، ایک کنبہ اور ایک خاندان نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نوکری کی بھول بھلیوں، اقتدار کی کشمکش، آگے بڑھنے کی ہوس اور دیگر عوامل ان کو ایک دوسرے کو کہنیاں مار مار کر آگے بڑھنے کی لت ڈال دیتے ہیں۔ لیکن اس سب کا احساس انھیں اکیڈمی کے دنوں میں نہیں ہوتا۔ ملک بھر کے اعلیٰ ترین دماغ انھیں حکمرانی کے گر سکھانے آتے ہیں۔

عام آدمی سے الگ ان کی دنیا جیسی انگریز نے آباد کی تھی تھوڑے فرق کے ساتھ آج بھی ویسی ہی ہے۔ پاکستان میں بیوروکریسی کی تمام نوکریوں، دفتر خارجہ، کسٹم، پولیس، انکم ٹیکس، انفارمیشن، اکاؤنٹس سے لے کر مشہور زمانہ سی ایس پی، پھر ڈی ایم جی اور آج کل پاکستان ایڈمنسٹریٹر سروس تک تمام گروپوں کے یہ افسران جب اکیڈمی میں اکٹھے آتے ہیںتو اسے ''کامن ٹریننگ'' کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ 1973ء میں شروع ہوا۔ اس سے پہلے تمام گروپ علیحدہ علیحدہ ٹریننگ کرتے تھے۔ 1984ء کا یہ گروپ 'بارہواں کامن'' کہلایا۔ ڈیڑھ سو کے اس ہجوم میں ایک میں بھی تھا۔ طبعاً افسری ماتحتی کے بکھیڑوں سے دور، ڈسپلن نام کی بلا سے بھاگا ہوا، قہقہوں میں عمر بھر کی پریشانیوں کو چھپاتا اس ماحول میں آ نکلا تھا۔ کہتے ہیں ہر شخص کا ایک مقناطیسی دائرہ ہوتا ہے جو اپنے جیسے مقناطیسی مزاج رکھنے والے کے دائرے میں اڑ کر پہنچ جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ اکیڈمی میں جس شخص کے طلسم نے مجھے اپنا اسیر کیا وہ جاوید نثار سید تھا۔ ایک حیران کن شخص، ایک صنعت کار کا بیٹا جس کے پاس اس وقت نئے ماڈل کی گاڑی تھی، جب اکیڈمی میں صرف چند لوگ گاڑیاں رکھ پاتے تھے۔

میری طرح ڈسپلن کے بکھیڑوں اور افسری ماتحتی کے دائروں سے دور، مزاح جس کا اوڑھنا بچھونا کہ کہتے ہیں فیصل آباد کی مٹی ہی ایسی ہے، ہر طرح سے ایک کھلنڈرا اور متلون مزاج نوجوان، لیکن اس کی ایک صفت ایسی تھی جس نے اس کی شخصیت میں جاذبیت، کشش اور مقناطیسیت پیدا کی تھی۔ وہ تھی اس کی مہمان نوازی۔ میں نے زندگی میں اس سے وسیع دسترخوان کسی شخص نہیں دیکھا۔ ایک ایسا شخص کہ جس کا دل چاہتا ہو کہ اس کا دسترخوان ہر وقت بچھا رہے اور وہ لوگوں کو خوش خوش کھلاتا پلاتا رہے۔ یہ تو صوفیاء کا دستور تھا اور آج بھی ہے۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا آپس میں رنجش ہو جائے تو ایک دوسرے کی دعوت کرو (مفہوم)۔ ایسے شخص کا حلقۂ اثر تو وسیع ہونا ہی تھا۔ اس کی گاڑی اس کے ''متاثرین'' سے بھری رہتی اور اس کی محفل اس کے قہقہوں، لطیفوں اور بذلہ سنجیوں سے آباد رہتی۔ اکیڈمی کے دن پر لگا کر اڑتے چلے گئے۔ میری خوش نصیبی کہ میں بھی اسی کے ساتھ ڈی ایم جی میں تھا۔ اس لیے ہم لوگ مال روڈ پر سول سروسز اکیڈمی میں رہ گئے اور باقی تمام گروپ بکھر گئے۔

یوں مجھے مزید اس شخص کی معیت میسر آ گئی۔ لیکن تقریباً نو ماہ بعد میں نے بلوچستان میں نوکری کے لیے اپنی رضا مندی کا اظہار کیا اور وہاں چلا گیا اور وہ پنجاب کے خالص افسرانہ ماحول کا حصہ بننے نکل کھڑا ہوا۔ مجھے اندازہ تھا کہ ایسا شخص بیورو کریسی کے کاٹ دار اور ایک دوسرے کی لاش پر کھڑے ہو کر قد بلند کرنے والے ماحول کا حصہ نہیں بن سکتا۔ وہی ہوا، چند پوسٹنگ اور پھر اس شخص کو سول سروسز اکیڈمی کے علمی ماحول میں پناہ ملی جہاں اس نے آٹھ سال ٹریننگ کرواتے گزار دیے۔ لیکن اس شخص سے میرا رابطہ ایسے ہی قائم رہا جیسے پردیس میں آباد لوگوں کا اپنے علاقے کی ہواؤں سے رہتا ہے۔ وہ ایک خوشبو اپنے دامن میں لیے پھرتا ہے اور جو کوئی اس شہر لاہور میںآتا ہے اسے زبردستی اس خوشبو کی لپیٹ میں لیتا ہے۔ آج بھی اس کا دسترخوان وسیع بلکہ دن بدن وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

لیکن مجھے اس بات کا ادراک تک نہ تھا کہ میرا دوست جس سے میں ہر طرح کی بے تکلقی سے کلام کر لیتا ہوں، جس سے میرا دوستی کا ایسا رشتہ ہے کہ کسی حجاب اور مرتبے کا اس میں گزر نہیں، وہ شخص ایک دن کچھ ایسا کرگزرے گا کہ مجھے اس کی جانب ایسے دیکھنا پڑے گا کہ جیسے کسی بلند و بالا عمارت کو دیکھتے ہیں اور میں اس کے سامنے ایک بونا اور بالکل بے حیثیت سا ہو کر رہ جاؤں گا۔ میں اس کا دوست تھا لیکن اب میں اس کا مداح ہوں، اس سے مرعوب، اس کا ارادت مند اس کے حلقہ اثر کا خوشہ چیں، حیران ہوں یہ وہی کھلنڈرا، متلون مزاج جاوید نثار سید ہے۔ لیکن یہ تو میرے اللہ کی عطا ہے، وہ جسے عطا کر دے، ہم تو بس فخر کر سکتے ہیں کہ ہم نے اس بہت بڑے شخص کے ساتھ چند دن گزارے ہیں اور وہ ہمیں اپنا دوست کہتا ہے۔

جاوید نثار سید کو ورثے میں اپنے والد کی طرف سے دوائیاں بنانے والی ایک بہت بڑی فیکٹری Helicon Pharma ملی۔ وہ خوشحال لوگوں میں سے ہے جو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سول سروس میں ڈی ایم جی گروپ کا تڑکہ، کسی بھی شخص کو تکبر کی وادیوں میں بھٹکانے کے لیے یہ بہت سامان تھا۔ گزشتہ سال وہ حسب عادت ''بارہویں کامن'' کی ایک ملن پارٹی میں شریک تھا جو پنجاب کے گورنر ہاؤس کے سبزہ زار میں ہو رہی تھی۔ پارٹی کے دوران اسے سٹروک ہوا، وہ خود اسپتال گیا، ڈاکٹروں نے کہا، معجزاتی طور پر بچ نکلا ہے، کچھ عرصے بعد اسے دل کا شدید دورہ پڑا، اللہ نے اسے صحت یابی عطا کی، لیکن اس سب کے بعد وہ بالکل بدل چکا تھا۔ ایک ایسا انسان جس نے اپنی باقی زندگی کو غنیمت جانا اور سوچا کہ یہ تو ایک وارننگ تھی اور باقی زندگی کو خلق خدا کی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہیے۔ اس کی دوائیاں بنانے والی کمپنی 80 دوائیاں بناتی ہے۔ اس نے ان میں سے 40 اہم ادویات کو وقف کر کے 24 جولائی 2014ء کو ''میڈی بینک'' کے نام پر ایک ٹرسٹ قائم کر دیا۔ ان ادویات کی سالانہ آمدنی ایک ارب بیس کروڑ روپے ہے۔

یہ ٹرسٹ کسی بھی قسم کی امداد اور چندہ وصول نہیں کرتا۔ بڑے لوگ بھی کمال کے ہوتے ہیں۔ اس نے اس ٹرسٹ کو اپنے ''بارہویں کامن'' کے نام مسنون کر دیا۔ یوں میرے جیسے گناہگار اور ناکارہ شخص کے ہاتھ میں بھی ایک پرچی آ گئی جو یقیناً اللہ کے حضور کام آئے گی لیکن وہ جاوید نثار جو یہ پرچی تقسیم کرتا ہے، میں سوچتا ہوں تو اس کے بلند مقام کا تعین ہی نہیں کر پاتا۔ بس اپنی کم مائیگی اور کوتاہیوں پر شرمندہ سا ہو جاتا ہوں۔ یکم رمضان کو قائم ہونے والا یہ میڈی بینک ٹرسٹ، اسپتالوں میں میڈی بینک کھولتا ہے جہاں ڈاکٹروں کی تشخیص پر مستحق اور نادار لوگوں کو مفت دوائیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس وقت بارہ اسپتالوں اور چالیس سیٹلائٹ کلینک میں یہ بینک قائم کر دیے ہیں۔ جن میں اسلام آباد کا پمز، کراچی کے عباسی شہید، جناح پوسٹ گریجویٹ، ریلوے حسن اسپتال، سروسز اسپتال پشاور کا، ریلوے اسپتال، ایبٹ آباد کا ایوب اسپتال اور لاہور کا ریلوے اسپتال شامل ہیں۔ سیٹلائٹ کلینک وہ ہیں جہاں ڈاکٹر یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی نسخہ لکھنے کی فیس نادار مریضوں کو معاف کر دیں گے تو ان کے کلینک پر میڈی بینک مفت ادویات فراہم کرے گا۔

میڈی بینک ان چالیس کلینکوں کو بڑھا کر پانچ سو ایسے کلینوں تک رسائی چاہتا ہے اور ملک کے ہر اسپتال میں اپنا فری میڈی بینک قائم کرنا چاہتا ہے تا کہ کوئی نادار اور غریب اس لیے علاج سے محروم نہ رہ جائے کہ وہ دوائی نہیں خرید سکتا۔ ان کے پاس موجود موجودہ رقم سے اندازہ ہے کہ پانچ سو سٹلائٹ کلینک اور 50 اسپتالوں میں فری میڈیسن سینٹر قائم کیے جا سکتے ہیں اور اگلے پانچ سالوں میں پانچ ہزار کلینک اور 500 میڈیسن بینک قائم ہو جائیں گے۔ Helicon کمپنی پاکستان کی پانچ معیاری کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے اور اس کی فراہم کردہ ادویات معیار کی ضمانت ہیں۔ میں میڈی بینک کے نمبر یہاں تحریر کررہا ہوں کہ کوئی ڈاکٹر اگر اپنی نسخے کی فیس معاف کر کے یا کوئی اسپتال اس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہے، یا پھر کوئی اور ایسا شخص جو اس طرح کی ادویات کا بینک قائم کرنا چاہے وہ اس شمع سے روشنی لے سکے۔Ph:042-35726183, Call:0300-4135120,0333-4172797,Medi Bank [email protected], medibank [email protected]

یہ سب اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میرے اس دوست نے مجھے راستہ دکھایا ہے، نجات کا، اپنے گناہوں کے کفارے کا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''سخی اللہ کا دوست ہے کہ چاہے فاسق اور فاجر کیوں نہ ہو۔'' میرا دوست تو اللہ کا دوست ہے اور کیسا عظیم دوست ہے جس نے پورے ''بارہویں کامن'' کو بھی اس دوستی میں شریک کر لیا ہے۔ اس کی سخاوت کی عادت نے اللہ سے دوستی میں بھی سخاوت کو ترک نہیں ہونے دیا۔ ایسے شخص کو میں دوست نہیں محبوب کہہ سکتا ہوں۔ ایک ایسا محبوب جس کے کردار کی روشنی نے سول سروس کے چہرے پر بھی روشنی بکھیری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں