مہنگائی پر قابو پانے کی ضرورت
عالمی بینک کے نمایندے نے پاکستان میں غربت کی حد درجہ بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کیا ہے
عالمی بینک کے نمایندے نے پاکستان میں غربت کی حد درجہ بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور بدانتظامی اورکرپشن کو اس مسئلے کی جڑ قرار دیا ہے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے حوالے سے پاکستان ایشیائی ممالک میں سب سے آگے ہے۔ عالمی اداروں کے پیش کردہ ان اعداد و شمارکی روشنی میں مہنگائی پر قابو پا لینے کے حکومتی دعوے یقینا کمزورہوجاتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کے عوام کی پوری ایک تہائی تعداد (33 فیصد) خط افلاس سے نیچے ہی رہی ہے۔ اس خطے سے عین اوپر رہنے والوں کی تعداد بھی کم وبیش اتنی ہی ہوگی۔اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ ایک مرتبہ پھر تصدیق کرتی ہے کہ غربت اور مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے اور 20 برسوں سے یہ عمل تیز سے تیز تر ہورہا ہے۔
حال ہی میں وفاقی حکومت نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے تقریباً سات روپے کمی کی سفارش مستردکرتے ہوئے پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل اور دوسری پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تین تین روپے فی لیٹر کمی کردی لیکن ساتھ ہی سیلز ٹیکس میں اضافہ کرکے ماہانہ دس سے بارہ ارب روپے کا اضافی بوجھ بھی ڈال دیا ہے۔ وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے قیمتوں میں کمی اور جی ایس ٹی میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں باقی تمام ایشیائی ممالک کے مقابلے میں کم ہیں۔ انھوں نے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کی شرط پوری کرتے ہوئے گیس کی قیمتوں میں 13 سے 63 فیصد تک اضافے کا بھی اعلان کیا۔ اس سے عالمی مالیاتی ادارے سے 50 کروڑ 10 لاکھ ڈالرکے قرضے کی نویں قسط ملنے کی راہ ضرور ہموار ہوگئی ہے لیکن صارفین پر ناروا بوجھ بڑھ گیا ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملکی معیشت اورگھروں کے چولہے تیل اورگیس سے چلتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کرکے سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے جو ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لینے کے مترادف ہے۔ اول تو پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کے نرخ کم کرنے کا فائدہ عام آدمی تک کم پہنچتا ہے اور یہی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، ہائی اسپیڈ ڈیزل پر ٹیکس کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 45 فی صد تک پہنچ گئی ہے جو مہنگائی بڑھانے کا بڑا ذریعہ ثابت ہوگا، کھادکے کارخانوں کے لیے گیس کے نرخ میں 63 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اس سے نہ صرف کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کی کمر ٹوٹ جائے گی بلکہ اناج کے حصول کے لیے عوام کو بھی ناروا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ تیل اور گیس کی قیمتوں میں اس طرح کا ردوبدل ایسے حالات میں اور بھی مناسب نہیں جب پہلے ہی اشیائے ضرورت کے نرخ عام آدمی کی رسائی سے باہر ہو رہے ہیں۔
''پاکستان بیوروآف شماریات'' کے مطابق کم آمدنی والے طبقے کے لیے قیمتوں کے حساس اشاریے میں 0.24 فیصد یعنی نہ ہونے کے برابر دیکھنے میں آئی جب کہ عام استعمال کی 19 اشیا مزید مہنگی ہوگئی ہیں۔ ان میں چائے، چنے کی دال، سرخ مرچ، باسمتی چاول، کھانے کا تیل، دہی، انڈے، گڑ، پیاز اور دال ماش بھی شامل ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ اب بجلی کے نرخ بھی بڑھا دیے جائیں گے کیونکہ یہ گیس اور تیل سے چلنے والے بجلی کے اداروں کا تقاضا ہوگا۔
اہل پاکستان کا المیہ یہی چلا آرہا ہے کہ یہاں جمہوری حکومتیں بھی رہیں اور فوجی حکومتیں بھی، مگرکوئی نظام مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ ملک میں پائی جانے والی مہنگائی سے ایک عام آدمی کتنا اورکس حد تک متاثر ہوا ہے؟ لوگوں نے بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر اپنے بچوں سمیت خودکشیاں کرلیں، بعض خواتین اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہوئیں، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی ہی وہ وجوہات تھیں یا ہیں جن کے باعث ہماری نئی نسل (جس میں لڑکے اور لڑکیاں سبھی شامل ہیں) غلط کاریوں میں پڑی۔ مہنگائی اور غربت کی اس طرح کی متعدد تفصیلات اکثر اخبارات میں رپورٹ ہوتی ہیں جو فی الواقع انتہائی شرم ناک ہیں۔ جس معاشرے میں اتنے بڑے پیمانے پر مالی بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا عمل جاری رہے، جہاں عدلیہ اور تعلیم جیسے شعبے بھی 98 اور 92 فیصد تک بدعنوانی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہوں، جہاں عام آدمی کے لیے نہ پولیس کسی تحفظ کی ضامن ہو، نہ انصاف ملنے کی کوئی امید ہو وہاں ستم بالائے ستم غم روزگار اور مہنگائی کا عفریت انھیں آدھے سے زیادہ نگل چکا ہو تو ایسے میں ان لوگوں کا محض زندہ رہنا ہی حیرت انگیز ہے۔
ترقی یافتہ دنیا کو تو جانے دیجیے ترقی پذیر دنیا کا بھی بڑا حصہ ہر حوالے سے بڑی تیزی کے ساتھ آگے جا رہا ہے لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ صدیوں کی ناکامیوں اور غلطیوں سے بھی ہم سب سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ کرپشن، آئی ایم ایف (بالخصوص اس کی جان لیوا فرمائشیں یا شرائط) افراط زر وغیرہ کی وجہ سے وطن عزیز میں سرمایہ کاری یکسر ختم ہوکر رہ گئی ہے، دہشت گردی اور تخریب کاری بھی اس کی بنیادی وجہ بنی۔ ظاہر ہے ایسے ماحول، ایسے حالات یا ایسے منظرنامے میں کوئی آخر کس ضمانت کی بنیاد پر سرمایہ کاری کرے گا، کون صنعتیں لگائے گا اورکارخانے قائم کرے گا؟ انھی عوامل کی بنا پر نہ ملک کے اندر سے نئی صنعتوں کے قیام کی شکل میں کوئی سرمایہ کاری ہورہی ہے اور نہ بیرون ملک سے کوئی سرمایہ براہ راست اس مقصد کے لیے آرہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی ساری سرمایہ کاری پرانی کمپنیوں ہی میں ہو رہی ہے۔ جب تک نئے کاروبار شروع نہ ہوں اور نئی صنعتیں نہ لگیں اس وقت تک نہ روزگار کے لیے مواقعے پیدا ہوسکتے ہیں ، نہ بیروزگاری ختم ہوسکتی ہے اور نہ ہی مہنگائی اور غربت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ایک عام طبیب بھی یہ صورتحال بھانپ کر یہی کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں ہر دور میں پارلیمنٹ مضبوط اور طاقتور اورعوام سسکتے، دم توڑتے یا ناتواں رہے ہیں، ہمیشہ سے پارلیمنٹ پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، وزرا کی فوج مراعاتیں، بھاری تنخواہیں اور مزے لے رہی ہے وہ عوام کے دکھوں، مسائل، مصائب اور زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اپنی اپنی مستی میں مست ہیں، کہیں سے بھی یہ دکھائی نہیں پڑتا یا رائے عامہ کے ذریعے یہ پیغام ملتا ہو کہ ان کے نمایندوں کی بھی کچھ نہ کچھ فکر ہے، اسمبلی اور پارلیمنٹ میں آئے دن ہنگامہ آرائی اور ہلڑ ہوتی رہتی ہے اور عوام کی حالت یہ ہے کہ:
ٹک ٹک دیدم' دم نہ کشیدم
لوگ حیرت زدہ ہیں کہ کس کو مطعون کریں؟ کس سے منصفی چاہیں؟ اس صورتحال سے لامحالہ ان کے ذہنوں میں یہ سوال پھر پیدا ہو رہا ہوگا کہ ایسی جمہوریت اور ایسی پارلیمنٹ کا کیا فائدہ؟ حکومت اور اپوزیشن دونوں محب وطن ہونے کی دعویدار ہیں۔ ان کا بڑی شد و مد سے یہ کہنا ہے کہ پاکستان کا مفاد انھیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔کاش ان کا طرز عمل بھی ان کے ان دعوؤں کی صداقت کی گواہی دیتا؟
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ منتخب ایوان اس لیے وجود میں لائے جاتے ہیں کہ وہ عوام کے مسائل اور مصائب کم کریں لیکن افسوس صد افسوس ان کے ارکان کی ترجیحات یکسر مختلف ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ سیاست دانوں کو اس بات کی بھی کچھ فکر دکھائی نہیں دیتی کہ پاکستان کے عوام ان کی افسوسناک کارکردگی پرکیا رائے قائم کریں گے؟