وزیر اعظم کا دورہ امریکا اور خطے میں استحکام
جمہوریت کا استحکام امریکا اور پاکستان کے تعلقات کا بنیادی ستون ہے۔
جمہوریت کا استحکام امریکا اور پاکستان کے تعلقات کا بنیادی ستون ہے۔ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ پاکستان لشکر طیبہ سمیت دوسری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کا عزم کرتا ہے۔ کنٹرول لائن پر کشیدگی ختم کرنے کے لیے جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ صدر اوباما اور وزیراعظم میاں نواز شریف کی واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کے جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں ان نکات پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔
ذرایع ابلاغ پر نشر ہونے والی خبروں میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کی پاکستان میں مداخلت کے ثبوت پر مشتمل دستاویز صدر اوباما کے حوالے کیں۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے واشنگٹن میں مقیم نمایندے نے اپنے ذرایع کے حوالے سے لکھا کہ دونوں رہنماؤں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بھی جائزہ لیا۔ وزیراعظم نواز شریف جب امریکا جارہے تھے تو امریکی اخبار نے یہ خبر شایع کی تھی کہ دونوں رہنما سول ایٹمی معاہدے کے بارے میں غور کریں گے۔ بعض سینئر صحافیوں نے یہ مہم شروع کی کہ وزیراعظم نواز شریف صدر اوباما سے براہ راست ملاقات نہ کریں۔ انھیں اندیشہ تھا کہ ایسی ملاقات بقول ان کے قومی مفاد کے منافی ہوگی۔
پاکستان اور امریکا کی دوستی کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ پاکستان کی امریکا سے دوستی کی بنیاد بانی پاکستان قائداعظم نے رکھی تھی اور تمام فوجی اور سول حکومتیں امریکا سے اچھے تعلقات رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہیں۔ امریکا کا اتحادی ہونے کی بنا پر پاکستان غیر جانبداری کے بجائے سیکیورٹی ریاست بن گیا۔ امریکا نے فوجی حکومتوں کی سرپرستی کی۔ پھر جمہوری حکومتوں کی حمایت کی۔ 1965 کی جنگ کا خاتمہ امریکا کی سلامتی کونسل میں کوششوں سے ہوا۔
دسمبر 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد امریکی صدر نکسن کی مداخلت پر بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے اپنے فوجی جنرلوں کو مشرقی پاکستان پر قبضے سے روکا مگر پھر فوجی اور جمہوری حکومت کے آخری دور میں اس کے تعلقات امریکا سے خراب ہوئے۔ ایوب، یحییٰ، بھٹو، ضیاء الحق، جنرل مشرف کے ادوار میں ایسا ہوا۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور زرداری حکومتوں سے بھی امریکا مایوس ہوا۔ جمہوریت کی بحالی کے فارمولے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں بنے۔ نواز شریف کا یہ دورہ اس روایات کا تسلسل ہے۔ طالع آزما قوتوں سے حرارت پانے والے سیاست دان اور کچھ صحافی گزشتہ سال کے وسط سے نواز شریف کی رخصتی اور اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار میں آنے کی پیشگوئی کرنے میں مصروف رہے تھے۔
کچھ اس دورے کو نمائشی قرار دیتے رہے مگر نواز شریف اور صدر اوباما کے درمیان مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کا آغاز جمہوریت کے استحکام سے ہوا ہے۔ صدر اوباما نے خاص طور پر اپنی تقریر میں یہ ذکر کیا ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں جمہوریت مضبوط ہورہی ہے۔ صدر اوباما کا یہ جملہ پاکستان میں جمہوری نظام کے لیے نیک شگون ہے۔ زرداری حکومت کے دورہ میں موجودہ وزیر خارجہ جان کیری نے کانگریس سے کیری لوگر بل بھی منظور کرایا تھا۔ اس بل کی منظوری کے بعد امریکی حکومت اس بات کی پابند ہوگئی تھی کہ پاکستان میں جمہوریت کے خاتمے کی صورت میں فوجی امداد بند کردے۔ اس بل کے تحت تعلیم اور صحت کے پیشوں کے لیے خطیر امداد مہیا کی گئی ۔
اب دونوں رہنماؤں کے اس اعلامیے پر متفق ہونے سے پھر اس عہد کی تجدید ہوتی ہے کہ جمہوری نظام کے تسلسل سے دونوں ممالک کے تعلقات برقرار رہ سکتے ہیں۔ اس اعلامیے میں کشمیر سمیت تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ بلکہ امریکا بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر بات چیت میں کوئی باقاعدہ کردار ادا کر سکے گا ۔ یہ واضح نہیں تھی مگر پھر واضح ہوگئی کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان وزرائے خارجہ کی سطح پر مذاکرات کا معاملہ التوا کا شکار ہے۔ دوماہ قبل امریکی مشیر خارجہ کے اسلام آباد کے دورے کے بعد پاکستان رینجرزکا ایک وفد نئی دہلی گیا تھا، جو پاکستان رینجرز انڈین گارڈ سیکیورٹی فوج کے درمیان رابطے کا دوبارہ آغاز تھا لیکن پھر بھارت میں انتہاپسند ہندو مذہبی تنظیم شیوسینا کی ممبئی اور دہلی میں غنڈہ گردی، پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہریار خان کے خلاف ممبئی میں بھی بھارتی کرکٹ بورڈ کے دفتر پر شیوسینا کے حامیوں کے مظاہرے کے بعد شہریار خان کی اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کے اونچی سطح پر پہنچ گئے ہیں جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان عوام کے عوام سے رابطے کا موثر ترین ذریعہ کرکٹ سیریز ہے، بھارت میں منعقد ہونے کے امکانات معدوم ہوئے ہیں، مگر وزیراعظم نواز شریف اور صدر اوباما کی ملاقات سے واضح ہوا کہ پاکستان اور بھارت میں جامع مذاکرات ہی مسئلہ کا واحد حل ہیں۔
بھارت میں مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندو انتہاپسندی شدت اختیار کرگئی ہے، جس سے دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ دونوں ممالک کو جامع مذاکرات کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے اور اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ صرف مذاکرات سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح ملک میں موجود دہشت گرد گروپوں لشکر طیبہ، طالبان اور جنوبی وزیرستان میں سرگرم حقانی نیٹ ورک کے خاتمے سے پاکستان کے پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں، خطے میں حقیقی امن قائم ہوسکتا ہے۔ اس وقت ملک میں لشکر طیبہ پر قانونی طور پر پابندی ہے۔ ان تنظیموں کو چلانے والے دوسرے ناموں سے سرگرم ہیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرکے نہ صرف امن کو مستحکم کرسکتی ہے بلکہ بھارت اور امریکا کی شکایات کو دور کرکے عالمی سطح پر اپنا امیج بڑھا سکتی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھارت کی طرح سول ایٹمی معاہدے کے امکانات پر مثبت انداز میں جائزہ لینا چاہیے۔ ان ماہرین کی رائے میں اس مسئلے پر کھلے مباحثے کی ضرورت ہے۔ اس دورے کی ایک اہم خصوصیت مشعل اوباما کی جانب سے پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے 10 ملین ڈالر کی اضافی امداد دینے کا اعلان ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے حکومت پاکستان کے اس عزم کو دہرایا کہ 2018 تک تعلیم کے لیے کل رقم جی ڈی پی کے 2 سے بڑھا کر 4 فیصد کردی جائے گی۔ اس رقم سے خواتین اساتذہ بھرتی کی جائیں گی اور نئے اسکول تعمیر کیے جائیں گے۔
اسی طرح امریکا توانائی کے بحران کے خاتمے، انفرااسٹرکچر کی ترقی، غربت کے خاتمے کے منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرے گا۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان امریکا گئے تھے۔ مجموعی طور پر وزیراعظم نواز شریف کا دورہ امریکا ماضی میں سربراہان مملکت کے دوروں سے ذرا بہتر ہے مگر میاں صاحب اس دورے کے دوران کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو تیار کرسکیں تب اس خطے میں استحکام پیدا ہوگا۔