اب ڈو مور نہیں چلے گا
فوج نے فاٹا اورکراچی میں دہشت گردی کی جڑوں کوکاٹ کر رکھ دیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک وضاحتی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان پیشہ ورانہ مہارت کی حامل اور اپنے کام سے پوری طرح مخلص ایسی فوج رکھتا ہے جو اس کے جوہری اثاثوں کے تحفظ کی اہمیت سے پوری طرح واقف ہے۔
ادھر وال اسٹریٹ جنرل میں چھپنے والے ایک مضمون میں جنرل راحیل شریف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر ہیرو قرار دیا گیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جب سے جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا ہے ملک میں دہشت گردی کا امڈتا ہوا طوفان سرد پڑگیا ہے۔
فوج نے فاٹا اورکراچی میں دہشت گردی کی جڑوں کوکاٹ کر رکھ دیا ہے۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردی کو لگام دے دی گئی ہے اور وہاں کا تو ماحول ہی تبدیل ہوگیا ہے۔ بھارت کی شے پر علیحدگی کا نعرہ لگانے والے اب نظر ہی نہیں آرہے صرف ایک ڈاکٹر اللہ نذر اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پہاڑوں میں چھپ کر علیحدگی کی جنگ لڑ رہا تھا اب اس کی بھی کوئی خبر نہیں آرہی ہے کہ وہ کہاں ہے؟ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ اب وہ بھی دیگر دہشت گردوں کی طرح ٹھکانے لگ چکا ہے۔
ایک وقت تھا جب بلوچستان میں قومی پرچم لہرانا توکجا کوئی پاکستان کا نام ہی نہیں لے سکتا تھا۔ کتنے اسکولوں اورکالجوں میں پاکستانی پرچم لہرانے اور پاکستان کی بات کرنے والے مرد و خواتین اساتذہ کو بے دردی سے شہید کردیا گیا۔
اسی وقت کراچی میں بھی کچھ علاقوں میں ایسا ہی عالم تھا مگر آج پورے بلوچستان میں قومی پرچم ہرجگہ پورے آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا ہے کراچی میں اس دفعہ جشن آزادی اس شان وشوکت سے منایا گیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ اب لوگ دہشت گردوں کے پھندے سے آزاد ہوتے نہیں جا رہے بلکہ آزاد ہوچکے ہیں۔ کاروبار بھی اب بہتری پر ہے کارخانوں میں بھی بلاتعطل کام جاری ہے نہ کوئی بھتہ مانگنے آرہا ہے نہ کوئی انھیں بند کرانے کے لیے گولیاں چلا رہا ہے۔
جہاں تک جوہری اثاثوں کا تعلق ہے یقینا ہماری فوج ان کی محافظ ہے، جب امریکی وزارت خارجہ جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے لیے پاکستانی فوج کو اہل قرار دے رہا ہے تو پھر کسی کو اس سلسلے میں سوال اٹھانے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان پر محض دباؤ ڈالنے کے لیے اس کے جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی پر اس کے دشمن حلقوں کی جانب سے گاہے بہ گاہے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے مگر اس کے پیچھے سراسر بھارتی لابی کا ہاتھ ہوتا ہے۔
ایک ممتاز امریکی تھنک ٹینک کا دعویٰ ہے کہ 2025 تک پاکستانی وارہیڈکی تعداد 113 سے بڑھ کر 250 ہوجائے گی جس کے بعد وہ امریکا، روس، چین اورفرانس کے بعد دنیا کی پانچویں بڑی جوہری طاقت بن جائے گا، پھر انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے محفوظ ہیں ان کی سیکیورٹی کا نظام مضبوط اور فعال ہے جب کہ اس کے مقابلے میں بھارت کے سیکیورٹی نظام کو ابتر قرار دیا گیا ہے۔
اس وقت امریکی حکام بھارت کی سوا ارب آبادی کی منڈی کے سحر میں گرفتار ہوکر اس کی ہر جائز اور ناجائز بات ماننے کے لیے ہر دم تیار نظر آتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ اپنی توجہ اس جانب کیوں مبذول نہیں کرتے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک خطرے کی علامت بن چکا ہے۔ اس کے تمام پڑوسی اس کی روز بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے خوف زدہ ہیں۔ بھارت اپنی فوجی طاقت کے زعم میں ہر پڑوسی کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کررہا ہے۔
اس نے پاکستان کو تو شروع سے ہی نشانہ بنا رکھا ہے۔کیوں کہ خطے میں صرف ایک پاکستان ہی ہے جس نے اس کی بالادستی کو کبھی قبول نہیں کیا اور ہمیشہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے جب کہ کوئی دوسرا پڑوسی ملک ایسا کرنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا پاکستان ہی وہ ملک ہے جس نے اس کی جانب سے تھوپی گئیں چار جنگوں کا مردانہ وارمقابلہ کیا ہے اور اسے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ ان تمام جنگوں کی وجہ بھارت سے کوئی نسلی یا مذہبی تضاد نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ کشمیر ہے۔
اگر بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق کشمیریوں کو حق خود اختیاری دے دیا ہوتا تو پاکستان کی بھارت سے کوئی پرخاش نہ ہوتی مگر کشمیر کیا چیز ہے بھارتی حکمراں تو کابل سے رنگون اور کھٹمنڈو سے کولمبو تک کے پورے علاقے کو اکھنڈ بھارت بناکر رام راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد اکھنڈ بھارت کے اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ نریندر مودی کے اس مذموم منصوبے کی راہ میں چونکہ پاکستان سب سے بڑی رکاوٹ ہے چنانچہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے پورا زور لگایا جا رہا ہے۔
اچھا ہوا کہ نواز حکومت نے بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت پہلے اقوام متحدہ اور اب امریکا کے حوالے کردیے ہیں۔ جان کیری کی سشما سوراج کے ساتھ وہ مشترکہ پریس کانفرنس جس میں پاکستان کو اس کے غیر سرکاری عناصرکے ممبئی حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر اسے دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور مجرموں کو سزا دلانے پر زوردیا گیا تھا۔
اب امریکی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بن گئی ہے کیونکہ اب پاکستان نے تو بھارت کی سرکاری خفیہ ایجنسی ''را'' کی پاکستان میں دہشت گردی کے واضح ثبوت امریکا کو پیش کردیے ہیں جس سے بھارت کی حکومتی دہشت گردی کی پول کھل گئی ہے۔ امید ہے کہ اب آیندہ امریکی حکام بھارت کی طرف داری کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں گے۔
میاں نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکا میں گزشتہ دورے کے مقابلے میں امریکی حکومت کا خوش گوار رویہ دیکھنے میں آیا ہے ۔گوکہ اس دورے کو ناکام بنانے کے لیے بھارتی لابی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا، ان کا امریکی حکومت پر دباؤتھا کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی بڑھتی ہوئی پیداوار پر پابندی لگائی جائے،افغانستان کے مسئلے پر وہ اپنی بے اطمینانی ظاہرکرے اور ڈومورکا ڈنڈا استعمال کرنے کے ساتھ ہی پاکستان کوکسی بھی قسم کی فوجی یا اقتصادی امداد نہ دی جائے۔
خوش قسمتی سے اوباما سے میاں نواز شریف کی ملاقات میں ان میں سے کوئی بھی مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان کی دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں کوششوں کو سراہا گیا۔ افغانستان کے مسئلے پر اس کے کردار کی تعریف کی گئی۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم نے اوباما کے سامنے وہ سوال بھی اٹھا ہی دیا جسے بہت پہلے اٹھانا چاہیے تھا کہ پاکستان طالبان کے ساتھ جنگ اور مصالحت بیک وقت کیسے کرسکتا ہے؟ پاکستان کے اس سوال نے امریکی حکومت کے ڈو مور کے حکم کو توکم سے کم ہمیشہ کے لیے لگام دے دی ہے۔
اس دورے کا سب سے مفید پہلو یہ رہا کہ پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیارے دینے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ کولیشن سپورٹ امداد کو جاری رکھنے کے کانگریس میں درخواست بھیج دی گئی ہے۔اس دورے میں کہیں بھی بھارتی خواہش پوری نہیں ہوئی شاید اس لیے بھی کہ بھارت ہی نہیں پاکستان بھی امریکا کے لیے اہم ملک ہے۔
افغانستان میں اسے پھر پاکستان کی ضرورت پڑچکی ہے البتہ بھارت ایک بات پر بہت خوشی منارہا ہے کہ پاکستان نے لشکرطیبہ کے خلاف کارروائی کرنے کا وعدہ کرلیا ہے اگر یہ خبر درست ہے تو یہ پاکستانی وفد سے بھول ہوئی ہے کیونکہ لشکرطیبہ کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے یہ کشمیریوں کی تنظیم ہے جوکشمیر کی آزادی کے لیے کام کر رہی ہے۔
اس دورے کا ایک اہم مسئلہ پاکستان کے چھوٹے جوہری ہتھیار تھے جن کے خلاف بھارتی پروپیگنڈا عروج پر تھا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ امریکی حکومت پاکستان کو ان ہتھیاروں کی تیاری سے روک دے تاکہ وہ جب چاہے پاکستان میں گھس کر اپنی مرضی کی کارروائی کرسکے مگر پاکستانی وفد نے خطرے کو بھانپ کر میاں نواز شریف کی اوباما سے ملاقات سے قبل ہی اپنے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کے دفاع میں پریس کانفرنس منعقد کرکے بھارتی سازش کو ناکام بنادیا۔
پاکستانی سیکریٹری خارجہ نے بڑی وضاحت سے امریکی میڈیا کے سامنے یہ بات رکھی کہ بھارت کولڈ اسٹارٹ منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کم رینج تک مارکرنے والے جوہری ہتھیار تیار کرنا پاکستان کے لیے ناگزیر ہوگیا تھا۔
پاکستانی وضاحت کا امریکی حکومت نے پورا پورا اثر لیا اور چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی خاص بات نہیں کی گئی اورکوئی بات کی بھی کیسے جاتی کیونکہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے سیکیورٹی پلان سے تو پہلے سے ہی امریکی حکومت مکمل طور پر مطمئن ہے چنانچہ اس محاذ پر بھی بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔ بحیثیت مجموعی میاں نواز شریف کا دورہ موجودہ حالات میں کامیاب ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور اگر اس دورے میں کچھ اہداف کا حصول باقی رہ بھی گیا ہے تو وہ یقیناً آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اگلے ماہ دورہ امریکا میں پورے کر لیے جائیں گے۔