اردو مرثیے کا ارتقائی سفر

شعری اصناف میں مرثیہ خواہ کسی ہیئت میں ہو مسلسل نظم کی حیثیت رکھتا ہے


نجمہ عالم October 30, 2015
[email protected]

شعری اصناف میں مرثیہ خواہ کسی ہیئت میں ہو مسلسل نظم کی حیثیت رکھتا ہے اور متعدد اصناف سخن مثلاً غزل، قطعہ، مثنوی، رباعی، قصیدہ اور جو منظوم ڈرامے کے علاوہ داستان کی خصوصیات کا بھی حامل ہے۔

مرثیہ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں لکھا گیا ہے۔ تاریخ شاعری کے آغاز اور ارتقا کا جائزہ لیا جائے تو شاعری کی قدیم ترین صنف مرثیہ قرار پائے گا۔ مرثیہ اصناف سخن میں قدیم کے ساتھ پاکیزہ ترین صنف ہے، مرثیے میں رکیک اورگھٹیا خیالات وجذبات کی گنجائش نہیں، اردو مرثیہ دیگر زبانوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ عموماً اسوۂ رسولؐ اور نواسۂ رسولؐ کا عکس اور اخلاق حمیدہ کی تعبیر کا ذریعہ بھی ہے، اردو میں مرثیہ اس نظم کو کہا جاتا ہے جو واقعات کربلا اور شہدائے کربلا کے کرداروافکار پرکہی گئی ہو۔اردو کے علاوہ ان مخصوص معنوں میں مرثیہ اور کسی زبان میں نہیں پایا جاتا یہاں تک کہ عربی اور فارسی کی تاریخ مرثیہ بھی اس مفہوم سے ناآشنا ہے، مرثیے کا موضوع درحقیقت اعلیٰ کردارکی تعمیر اورتزکیہ نفس ہے۔

اگر اس کو مختصراً بیان کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرثیہ کا موضوع امام حسینؓ کی شہادت، یزید اور امام کے درمیان معرکۂ کربلا ہے۔ اس معرکے میں بظاہر یزید کو فتح ہوئی مگر حقیقتاً امام حسینؓ کو فتح دائمی نصیب ہوئی جس کے نتیجے میں اسلامی اقدار از سر نو تازہ و زندہ ہوگئیں، بقول مولانا محمد علی جوہر:

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلاکے بعد

واقعہ کربلا تاریخ انسانی کا غیر معمولی واقعہ ہے اس واقعے میں انسان اور انسانیت کے لیے کتنے ہی حیرت انگیز اور اخلاق آموز پہلو موجود ہیں اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو اس کی تفصیل اور حقائق سے اچھی طرح واقف ہو۔ مرثیہ کسی بھی ہیئت میں کہا جاسکتا ہے یعنی موضوع مقررہ ہوسکتا ہے مگر ہیئت کی کوئی قید نہیں، مگر میر انیس ودبیر کے بعد مرثیوں کے لیے عموماً مسدس کو ہی اپنالیا گیا ہے کیوں کہ ان دونوں حضرات نے اس اندازکو بام عروج پر پہنچا دیا۔

اگرچہ اس سے قبل اکثر قصیدے کی ہیئت بھی اختیارکی گئی تاکہ امام حسینؓ کے تمام اوصاف وصفات کو واضح طور پر بیان کیا جاسکے،اگرچہ مرثیے کا ظاہری ڈھانچہ تقریباً وہی ہے، جو سودا نے متعارف کرایا جس کو میر خلیق، میرضمیر نے سنوارا، میر انیس ومرزا دبیر نے ظاہری ومصنوی اعتبار سے پائے تکمیل تک پہنچا دیا۔ابتدا میں مرثیہ صرف بین کے اشعار تک محدود تھا جس کا مقصد گریہ و زاری تھا اس دورکے مراثی بہت مختصر ہوتے تھے، رفتہ رفتہ مرثیے کے موضوعات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اس میں نئے نئے موضوعات شامل ہوتے گئے، مثلاً تمہید (چہرہ) ممدوح کی صفات عالیہ، دشمن کی اخلاقی کمزوریاں، جنگی مناظر، رجزخوانی، گھوڑے، تلوارکی تعریف، سامانِ حرب کی تفصیل، مناظر فطرت کی عکاسی،ان تمام مضامین کے باعث مرثیے کے اعتبار بڑھا اور یوں یہ اردو نظم کی ایک باقاعدہ صنف قرار پایا جس اردو میں رزمیہ شاعری کا گراں قدر اضافہ ہوا جس سے اردو شاعری اب تک تہی داماں تھی۔

دیگر اصناف سخن کی طرح مرثیے کی ابتدا بھی دکن سے ہوئی، شاہان گولکنڈہ و بیجا پور خود بھی شاعرانہ ذوق کے حامل تھے اور شعرا کے قدردان بھی تھے بلکہ بعض نے مرثیہ (ہیئت کے فرق سے) خود بھی کہے، ولی کے بارے میں خیال ہے کہ انھوں نے مرثیہ نہیں کہا مگر واقعات کربلا پر ان کی ایک مثنوی ملتی ہے جس کو ہم مثنوی کی ہیئت میں مرثیہ کہہ سکتے ہیں (اس وقت تک مرثیے کے لیے ہیئت مقرر نہ تھی) مرثیہ حصول ثواب کے لیے بطور مذہبی فریضہ لکھا جاتا تھا ،اس لیے اس کی عروضی خامیوں پر توجہ ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی ، میر تقی میر نے تذکرہ نکات الشعراء میں کئی مرثیہ گو شعرا کے نام تحریرکیے ہیں۔

خود میر اور سودا نے مرثیے لکھے مگر ان کے مراثی میں کوئی جدت زمانۂ گزشتہ سے نہیں ملتی بلکہ ان مرثیوں میں حقیقی جذبات اور اثر آفرینی بھی مفقود ہے، البتہ سودا کے مرثیے میں ہیئتی تبدیلی کا سہرا ضرور باندھا جاسکتا ہے کیونکہ سودا کے زمانے تک مرثیہ عام طور پر چومصرعہ ہوا کرتے تھے، خیال ہے کہ سودا نے سب سے پہلے مسدس میں مرثیہ لکھا جہاں تک مضمون، جدید تشبیہات و استعارات، میدان کار زار کے تفصیلی حالات کا مرثیہ میں اضافے کا تعلق ہے، اس کے لیے میرضمیرکا نام لیا جاتا ہے گویا مرثیے کا رنگ و انداز بدلنے میں میر ضمیر کو اولیت حاصل ہے۔

میر ضمیر کے بعد کئی مرثیہ گو شعرا کے مختصر حالات ملتے ہیں، البتہ میر خلیق نے مرثیے کے بندوں میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ جدید مضامین و مطالب بھی پیدا کیے جس کے باعث مرثیے گو مقبولیت حاصل ہوئی اور بطور صنف شاعری اس کا مقام متعین ہوا اور مرثیہ اردو شاعری کی ایک معتبر صنف قرار پایا میر خلیق کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے زبان کی صفائی وسلاست، محاورے کی صحت اور روزمرہ پر خصوصی توجہ دی، انھوں نے کلام میں ادق تشبہیات اور شکوہِ الفاظ کے بجائے درد اور اثرآفرینی کو ترجیح دی جو آگے چل کر میر انیس کے کلام کی نمایاں خصوصیت قرار پائی۔

میر انیس نے واقعات کربلا کو تاریخ کے ساتھ ساتھ شاعرانہ حسن کے تناظر میں پیش کرکے اردو شاعری کے دامن کو اس قدر وسعت دی کہ مزیدکی گنجائش نہ رہی، انیس کی شاعری پر اظہار خیال کرنے والوں نے ان کی فصاحت وبلاغت، تمثیلوں، استعاروں اور صنایع و بدایع کا تواتر سے تذکرہ کیا ہے اس میں شک نہیں کہ کلام انیس میں یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں مگر انیس کا اصل کمال کردار نگاری، منظرکشی اور جذبات انسانی کی مرقع کشی میں ہے، انسانی تعلقات اور رشتوں کا تقدس ایک مکمل اسلامی معاشرے کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے، انیس نے خانوداہ رسالتؐ کی عظمت،کرداروں کے تزکیہ نفس سے مرثیے کی فضا کو بے حد اعلیٰ و ارفع بنادیا ہے۔

ہرکردار کے مکالمے اس کی حیثیت، صنف، عمر اور سیدالشہدا سے تعلق کے مطابق ہیں، یوں تو بے شمار اشعار کرداروں کی حقیقت سمجھنے کے لیے پیش کیے جاسکتے ہیں مگر کالم کا تقاضہ ہے کہ صرف ایک دو مثالوں پر اکتفا کیا جائے مثلاً حضرت عباسؓ، امام کے جانثار اور وفادار بھائی ہیں، قافلۂ حسینی کا تمام انتظام ان کے سپرد ہے، امامؓ کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرنے والا جب قیام حسینی لبِ فرات سے ہٹانے کی بات چلی تو عباس کو جلال آگیا اورکہاکہ یہ میری زندگی میں ممکن نہیں، بات امام عالی مقام تک پہنچی انھوں نے عباسؓ کو اپنے خیمے میں طلب کیا اور سمجھایا کہ صرف چند دن کی بات ہے بات بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں تم اپنے خیمے دریا سے ہٹالو، عباسؓ جو لشکر یزید کو آگاہ کرچکے تھے کہ میری زندگی میں یہ ممکن نہیں کے چہرے کا رنگ بدل گیا، امام عباسؓ کی قلبی کیفیت کو محسوس کررہے ہیں اس صورتحال کی انیس کس قدر عمدہ مرقع کشی کرتے ہیں۔

مانو میرا کہا میں تمہارا امام ہوں

غازی نے سر جھکاکے کہا میں غلام ہوں

کلام انیس میں بچوں کے اور نسوانی مکالمے بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔المناک، حیرت انگیز، خاندان نجابت وغیرہ کا اظہار جس میں بے حد فطری انداز میں ہوا ہے۔ صبح عاشورہ جناب زینب امام حسینؓ کی زوجہ محترمہ کو بے اختیار دعا دے رہی ہیں۔

یا رب رسولؐ پاک کی کھیتی ہری رہے

صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھر رہے

دعا کے الفاظ اور انداز میں کس قدر نسوانیت ہے، اس کا اندازہ صاحبان ذوق اچھی طرح لگاسکتے ہیں۔

مرثیے کا یہ ارتقا انیس کے زمانے تک ہے جو رکا نہیں بلکہ ارتقا کا یہ سفر جاری ہے ،جدید مرثیے کا آغاز جوش ملیح آبادی سے کیا جاتا ہے۔ جوش نے یہ جدت اختیار کی کہ موضوعاتی یا عنواناتی مرثیے لکھے قیام پاکستان کے بعد آزاد نظم کی صورت میں بھی کچھ مرثیے کہے گئے، جدید مرثیہ گو شعرا میں یوں تو کئی معتبر نام ہیں لیکن ہلال نقوی نے بھی موضوعاتی مراثی کہہ کر مرثیہ گو شعرا میں اہم مقام پایا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں