بدعنوانی کو قانونی شکل دینا
اس قسم کی خدمات فراہم کرنے کے لیے جو قابل قبول طریقہ اختیار کیا جاتا ہے
سینٹیرا (Centerra) کے مارک کروتھرز (Mark Carruthers) نے تنازعات کے بعد کی فضا میں کنٹریکٹنگ ایجنسیوں پر بدعنوانی کے اثرات کے موضوع پر مقالہ لکھتے ہوئے کہا ہے کہ بدعنوانی ہمارے معاشرے کی ہر سطح پر پھل پھول رہی ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں -1 معیشت: بدعنوانی بڑے منظم انداز میں معیشت کا جزو لاینفک بنا دی گئی ہے۔
-2 سیاست:۔ اعلیٰ سطح کے سرکاری افسران کا نجی شعبے سے بدعنوانی کے حوالے سے گٹھ جوڑ -3 پالیسیاں:۔ بدعنوانی کے ذریعے حکومتی پالیسیوں کی تشکیل جو شہریوں کا نقصان کر کے نافذ کی جاتی ہیں اور-4 چھوٹی نوکر شاہی:۔ نچلے درجے کی کرپشن جس میں بالعموم سرکاری افسر ملوث ہوتے ہیں۔
مارک کا کہنا ہے کہ کرپشن نے باقاعدہ ایک ثقافت یا کلچر کی شکل اختیار کر لی ہے اور معاشرے نے اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ سرکاری اہلکار پاسپورٹ' ویزا' ڈرائیونگ لائسنس' وغیرہ کے لیے رشوت قبول کرتے ہیں۔ بہر حال اعلیٰ سطح پر بدعنوانی کی سرپرستی کے لیے سیاسی لیڈر' حکومت اور سماجی لیڈرز (قبائلی لیڈرز اور وار لارڈز وغیرہ) کے باہمی اشتراک کے ذریعے کرپشن جاری و ساری ہو جاتی ہے اور جب کرپشن پھیلتی ہے تو یہ جرائم کے نیٹ ورکس کو جنم دیتی ہے جس کے نتیجے میں قومی وسائل اور سرمائے کی لوٹ مار ہوتی ہے۔ فراڈ کے واقعات بھی عام ہو جاتے ہیں جس سے پورے معاشرے پر بہت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس قسم کی خدمات فراہم کرنے کے لیے جو قابل قبول طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں ایک ''مڈل مین'' یا ایک ''فکسر'' کا کردار شامل ہوتا ہے جو بااثر افراد تک رسائی اختیار کر کے کسی کنٹریکٹ کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں یہ عام بات ہے اور یہی مڈل مین نجی کمپنی کو بااختیار سرکاری لوگوں تک رسائی مہیا کرتا ہے کیونکہ بااختیار سرکاری افسر کسی مڈل مین یا فکسر کی مدد کے بغیر مقامی مارکیٹ میں رسائی حاصل کرنے کو مشکل سمجھتے ہیں۔
لیکن اس طریقے سے نہ صرف خریدی جانے والی اشیاء کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ کرپشن کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے جس کے لیے جعلی رسیدیں تیار کروائی جاتی ہیں اور جو کمپنیاں رشوت نہیں دیتیں وہ کنٹریکٹ (ٹھیکہ) حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ گویا کسی بھی کاروبار میں بدعنوانی کی راہ مڈل مین یا فکسر کے ذریعے ہی کھلتی ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کی گلوبل ایجنڈا کونسل (GAC) جو شفافیت اور انسداد رشوت ستانی کی خاطر قائم کی گئی اس نے بھی مارک کروتھرز کی طرح تجویز پیش کی ہے کہ کمپنیاں OECD کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے داخلی نظم و ضبط میں اضافہ کریں' اعلی اخلاقیات کا خیال رکھیں اور اس حوالے سے ورلڈ بینک نے جو گائیڈ لائن فراہم کی ہے اس کو پیش نظر رکھیں (یہ گائیڈ لائن پینل کے رکن نیکولا بونوشی (Necola Bonucci) نے مرتب کی ہے جس کا مقصد کرپشن کے بارے میں ایک واضح پالیسی اختیار کرنا ہے۔ اس میں کاروبار کے شراکت کار' ملازمین اور ذیلی ٹھیکے داروں کا نہایت بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔
تمام اسٹاف کو کرپشن روکنے کی پالیسیوں پر باقاعدہ تربیتی پروگرام میں شرکت کرائی جاتی ہے اور کمپنیوں کو کرپشن کے بارے میں رپورٹ کے حقائق بھی بتائے جاتے ہیں۔ مارک کروتھرز دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ انسداد بدعنوانی کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ آپ رسمی طور پر کرپشن کی موجودگی کو تسلیم کریں کیونکہ اس کے بغیر انسداد کرپشن کی مساعی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی۔ اس مقصد کے لیے کرپشن کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لے کر صورت حال کا تجزیہ کرنا لازم ہے۔
کرپشن پر قابو پانے کے لیے کون سے اقدامات کیے جائیں اور امکانی طور پر جن افراد کے کرپشن میں ملوث ہونے کا اندیشہ ہو ان پر زیادہ کڑی نگاہ رکھی جائے۔ کسی پروگرام کو نافذ کرنے سے پہلے یہ لازم ہے کہ متعلقہ ادارہ کرپشن کے امکانات کا مکمل تجزیاتی مطالعہ کرے اور دیکھے کہ کس مرحلے پر بدعنوانی کا امکان ہو سکتا ہے اور اس میں کون ملوث ہو سکتا ہے۔ مارک کے نظریے کے مطابق کرپشن ایک حقیقی معاملہ ہے جس پر حقیقت پسندی کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔
مارک بڑی شدت سے دیانت داری پر عمل کرتے ہوئے جن نتائج پر پہنچے ہیں ان سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں ثقافتی' سیاسی اور کاروباری معاملات کی گہرائی سے تفہیم کی خاطر ہمیں -1 کرپشن کے امکانات کا اندازہ لگانے کے لیے انسانی فطرت کا بھرپور جائزہ لینا ہو گا۔ -3 ان خدمات اور ٹھیکوں کا تجزیہ کرنا جہاں کرپشن کے زیادہ امکانات ہو سکتے ہیں جن میں کہ تعمیرات اور سپلائی وغیرہ کے شعبے آتے ہیں۔
-3 اور یہ بھی کہ کرپشن کس طرح شکل بدل کر سامنے آ سکتی ہے۔ -4 یہ دیکھا جائے کہ کونسے افراد/ نیٹ ورکس کرپشن کی حمایت کر سکتے ہیں۔ مارک کی نصیحت یہ ہے کہ کرپشن کو برداشت کرنے کے پیمانے متعین کیے جائیں۔ انسداد بدعنوانی کے لیے کس طرح کا لائحہ عمل اختیار کیا جائے جس کے لیے داخلی طور پر -1 ایک واضح اور شفاف گائیڈ لائن تیار کی جائے کہ کس حد تک کرپشن کو برداشت کیا جا سکتا ہے (اصولی طور پر تو اس معاملے میں قطعاً کسی برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ یہی درست پیغام ہے) -2 ان افراد کی شناخت واضح کی جائے جن کو بدعنوانی پر نگاہ رکھنے کے لیے متعین کیا جائے۔
-3 پورے اسٹاف کو کرپشن کی مختلف شکلوں سے روشناس کرانے کے ساتھ انسداد بدعنوانی کے اقدامات کی بھی تربیت دی جائے اور اس کام کے لیے ایسے فرد کو متعین کیا جائے جس کو مہمان ملک کے بیوروکریٹس اور سیکیورٹی فورسز ہر سطح پر پہچانتی ہوں۔ اگر کسی مواد کو ترجمے کی صورت میں پیش کیا جائے تو اس ترجمے کی صحت کا جائزہ لینے کا بھی طریق کار وضع کرنا چاہیے جس پر متعلقہ فریق باقاعدہ دستخط کریں۔ -4 کرپشن پر قابو پانے والی پالیسیوں کا ایک معیار مقرر ہونا چاہیے۔ جہاں پر کسی کرپشن کا احتمال ہو اس کے لیے قبل از وقت بات کر لینی چاہیے اور کمپنیوں کو ہدایت کی جانی چاہیے کہ وہ کرپشن کے کسی بھی واقعے کی فوری طور پر اطلاع دیں۔
مارک کے اس شاندار مقالے کی بنیادی سوچ یہ ہے کہ حکومتوں کو ایسی فوری ضرورتوں کے حاصل کرنے میں ایک متوازن راستہ اختیار کرنا چاہیے جن میں کہ کرپشن کا امکان موجود ہو لہٰذا اس بارے میں کرپشن کو برداشت نہ کرنے کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے جس پر کہ ہر سطح پر جوش و خروش کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو بھی اس عمل میں شریک رکھا جائے اور انھیں بتانا چاہیے کہ اگر وہ کرپشن کے بارے میں مطلع نہیں کریں گے تو اس کے مضمرات منصوبے کی ناکامی پر بھی منتج ہو سکتے ہیں۔
جن افراد کو کرپشن کی نگرانی پر متعین کیا جائے ان کو مقامی کسٹم اور دیگر مقامی قوانین سے مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔ عمومی طور پر بدعنوانی پر پردہ پوشی کی کوشش کی جاتی ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر اس کھلے راز کو خفیہ رکھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ مارک کروتھرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن کمپنیوں یا منصوبوں میں کرپشن راہ پا جاتی ہے تو اس کا انجام بالعموم تباہی اور ناکامی کی صورت میں ہوتا ہے۔
''ٹرانسپرنسی اینڈ اینٹی کرپشن'' کے عنوان سے جی اے سی کے حالیہ اجلاس میں یہ تسلیم کیا گیا کہ بین الاقوامی کمپنیاں افغانستان اور عراق وغیرہ جیسے ملکوں میں کسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کو بے حد مشکل قرار دے رہی ہیں کیونکہ اس کے لیے انھیں کرپشن کو قبول کرنا پڑتا ہے اور اس راستے پر چلنا پڑتا ہے جو وہاں مروج ہے۔