کس نام سے پکاروں
فلمی دنیا میں ایورنیو اسٹوڈیو لاہور کو بھی ایک تاریخی حیثیت حاصل رہی ہے۔
RAWALPINDI:
فلمی دنیا میں ایورنیو اسٹوڈیو لاہور کو بھی ایک تاریخی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایورنیو اسٹوڈیو میں بڑے دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے ایک بڑا سا چبوترا بھی ہے اور اس چبوترے کے وسط میں ایک فوارہ بھی ہے، چبوترے کے ساتھ لوہے کی گرل بھی لگی ہوئی ہے۔ اکثر شام کے وقت گرمیوں کے دنوں میں اس چبوترے میں ایک بھیڑ سی ہونا معمول کی بات تھی، فلم نویس شاعر، موسیقار، فلمساز، ہدایت کار اور آرٹسٹ اس چبوترے کی شان بڑھاتے رہتے تھے۔
اس چبوترے پرشاعرکوکوئی اچھا سا فلمی گیت کا مکھڑا سوجھتا تو وہ کسی موسیقارکو سناتا ہوا نظرآتا تھا اورکسی موسیقارکے ذہن میں کوئی دھن جنم لیتی تو وہ ہدایت کارکو سنا دیا کرتا تھا۔اسی چبوترے پرکوئی کہانی کار اپنی کہانی کے خوبصورت سین سنانے کے لیے کسی فلمساز اور ہدایت کارکے لیے بے چین رہتا تھا اور بعض اوقات تو کئی فلمی کہانیوں کے آئیڈیاز اسی چبوترے پر فائنل ہوجایا کرتے تھے، بعض اوقات اسی چبوترے پر پوری پوری فلمیں بن جایا کرتی تھیں اور اسی چبوترے ہی پر ریلیز ہوکرکامیاب اور فلاپ بھی ہو جاتی تھیں۔ اسی لیے ایورنیو اسٹوڈیو کا یہ چبوترہ آج تک میرے ذہن سے نہیں نکلا ہے۔
اسی چبوترے پر کبھی کبھی محمدعلی، نیلم، وحید مراد اور سلطان راہی اپنے پرستاروں کو آٹوگراف بھی دیتے نظر آتے تھے اوردلچسپ بات یہ ہے کہ بعض اوقات اسی چبوترے پر فلمسازوں کو آرٹسٹوں سے ان کی شوٹنگ کی تاریخیں بھی مل جایا کرتی تھیں ایک اور خاص بات یہ اس چبوترے سے ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آغا۔جی۔اے گل کا دفتر بھی صاف نظرآتا ہے۔ دفتر کی ایک بڑی سی شیشے کی ایک کھڑکی تھی جس کے آر پار ہر چیزصاف نظر آتی تھی اورآغا۔جی۔اے گل اپنے دفتر میں کرسی کے ساتھ کھڑے ہوئے چبوترے کے ہر دلچسپ منظرکو بڑی آسانی سے دیکھا کرتے تھے۔
ایورنیو اسٹوڈیو کے اسی چبوترے پر ایک دن مشہور فلمسازوہدایت کار ایس اے بخاری نے مجھے بلا کر یہ خوشخبری سنائی کہ میں جلد ہی اپنی نئی فلم کا آغازکرنے والا ہوں، ابھی فلم کے اسکرپٹ پر کام ہو رہا ہے، فلم کا نام فائنل ہوگیا ہے ''کس نام سے پکاروں'' اس فلم میں خواجہ پرویزکے ساتھ میں تم سے بھی گیت لکھواؤں گا، یہاں میں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں دو بخاری بڑے مشہور ہوئے ہیں۔
ایک کیمرہ مین اور فلمساز جعفر شاہ بخاری اور دوسرے فلمساز و ہدایت کار ایس اے بخاری۔ یہ فلمی دنیا کی سینئر ترین شخصیات میں شامل تھے۔ جعفر شاہ بخاری نے بے شمار فلموں میں فوٹوگرافی کی پھر یہ فلمساز اور ہدایت کارکی حیثیت سے بھی بڑے مشہور ہوئے اور ان کی کئی فلموں نے نمایاں کامیابی حاصل کی، جعفر شاہ بخاری اپنی ذات میں بڑے بے باک اور بعض لوگوں کے خیال میں بڑے منہ پھٹ تھے۔
ان سے گفتگو کرتے ہوئے بڑے بڑے ہیرو اور ہیروئنیں گھبراتی تھیں بلکہ اکثر اداکارائیں تو ان کے جملوں اور فقروں کو سن کر رو بھی پڑتی تھیں مگر شاہ صاحب پرکبھی کوئی اثر نہیں پڑتا تھا جب کہ ایس اے بخاری، جعفر شاہ بخاری کے بالکل برعکس تھے وہ انتہائی حلیم الطبع دھیمے دھیمے لہجے میں بڑی تہذیب کے ساتھ گفتگوکرتے تھے۔
ان میں بڑی برداشت کا مادہ تھا ہاں جعفر شاہ بخاری کی لغت میں برداشت کا لفظ ہی نہیں تھا، کسی بھی ہیرو یا ہیروئن کو ان کی فلم سائن کرنے کے بعد شاہ صاحب شوٹنگ کی تاریخیں دیتے ہوئے کبھی انکارکرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی یہی وجہ تھی اکثر بڑے آرٹسٹ ان کی فلمیں ایک آدھ بار ہی کرتے تھے۔جعفر شاہ بخاری کو ایک کریڈٹ یہ بھی جاتا ہے کہ شاعر حبیب جالب جو فلموں میں گیت لکھنے سے دور رہتے تھے مگر جب جعفر شاہ بخاری نے فلم ''سماج'' بنائی توگیت لکھنے کے لیے حبیب جالب انھیں انکار نہ کرسکے کیونکہ حبیب جالب کی شاہ صاحب سے بھی بڑی دیرینہ دوستی تھی، حبیب جالب نے ''سماج'' کے لیے کئی گیت لکھے تھے مگر ایک غزل اس فلم کی بڑی مقبول ہوئی تھی، جس کے بول تھے:
یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
جسے مہدی حسن نے اپنی خوبصورت آواز میں گایا اور جسے اے حمید نے اپنی موسیقی سے سجایا تھا۔ اب میں پھر فلمسازوہدایت کار ایس اے بخاری کی طرف آتا ہوں وہ ایک شام ایورنیو اسٹوڈیو کے چبوترے پر اداکار غلام محی الدین کے ساتھ رازونیاز میں مصروف تھے میں نے ان کی گفتگو کے دوران ان کے قریب جانا مناسب نہ سمجھا اور میں ان دونوں سے کچھ فاصلے پر بڑی خاموشی سے جا کر کھڑا ہوگیا، اچانک غلام محی الدین کی نظر مجھ پر پڑی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے وِش کیا تو بخاری صاحب نے بھی مجھے دیکھا پھر بڑی شفقت سے انھوں نے کہا۔ ارے بھئی یونس ہمدم! اتنی دورکیوں کھڑے ہو قریب آجاؤ۔ اب تو تمہارے بھی ہمارے پاس آنے کے دن آرہے ہیں۔
میں نے قریب جاکر دونوں سے ہاتھ ملایا تو بخاری صاحب نے بتایا بھئی! آج میری نئی فلم کس نام سے پکاروں کی شوٹنگ کی تاریخیں گلو سے بھی فائنل ہوگئی ہیں۔ اسکرپٹ مکمل ہوچکا ہے۔ نذیر علی اس فلم کی موسیقی دیں گے۔
میں نے سوچا ہے پہلے میں جوگانے نذیر علی سے ریکارڈ کرواؤں گا جو فلم کے پہلے شوٹنگ اسپیل میں فلمبند ہوں گے اور ہاں میری اس فلم کے شاعروں میں خواجہ پرویز کے ساتھ تمہارا نام بھی شامل ہوگیا ہے۔میں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بخاری صاحب کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا اپنی نئی فلم کو کب سیٹ پر لارہے ہیں وہ بولے دو تین دن میں شاہد اور بابرا شریف کی بھی شوٹنگ ڈیٹس فائنل ہوجائیں گی بس پھر شوٹنگ کا مسلسل پروگرام بنانا ہے آیندہ ماہ پہلے شوٹنگ شیڈول میں غلام محی الدین اور نئی اداکارہ نوین تاجک کے کچھ سین اور ایک گیت فلماؤں گا اور پھر دوسرے شوٹنگ اسپیل میں بابرا شریف، شاہد، نوین تاجک اور دیگر سائیڈ آرٹسٹوں کا کام عکس بند کیا جائے گا اور اس اسپیل میں ایک گیت جو شاہد، بابرا شریف اور نوین تاجک پر فلم بند ہونا ہے وہ گیت تم نے لکھنا ہے۔ جب کہ فلم کا پہلا گیت میں خواجہ پرویز سے لکھوا رہا ہوں۔
مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہو رہی تھی کہ میں اب فلمی دنیا کے ایک سینئر ترین اور مشہور فلمساز و ہدایت کار ایس۔اے۔ بخاری کی فلم کے لیے بھی گیت لکھوں گا اور یہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات تھی کہ میں فلم انڈسٹری کے مشہور دو بخاریوں میں سے ایک بخاری کی گڈ بک میں آگیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد بخاری صاحب چبوترے سے چلے گئے اور پھر میں اور غلام محی الدین رہ گئے۔ میں نے غلام محی الدین سے نئی اداکارہ نوین تاجک کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ مجھے اس کے بارے میں بس اتنا پتہ ہے کہ وہ لاہور ٹی وی کے ڈراموں میں کام کرتی رہی ہے لیکن میری اس سے کوئی خاص ملاقات نہیں رہی ہے۔
اب میں کچھ اداکارہ نوین تاجک کے بارے میں بیان کرتا ہوں۔ نوین تاجک کا تعلق ایک کرسچن گھرانے سے تھا اس نے کچھ ماڈلنگ بھی کی تھی مگر اس کی پہچان لاہور ٹیلی ویژن کا ایک ڈرامہ ''قرۃ العین'' تھا جس میں اس کی اداکاری کو کافی پسند کیا گیا تھا۔
کراچی کی کرسچن لڑکی اداکارہ روزینہ کے بعد نوین تاجک دوسری کرسچن لڑکی تھی جسے روزینہ کی طرح فلمی دنیا میں ہاٹ کیک کہا گیا تھا۔ اسے ہدایتکار ایس سلیمان نے اپنی فلم ''پرنس'' میں اداکار آصف رضا کے ساتھ پیش کیا تھا ، فلم کے مرکزی کردار ندیم اور بابرا شریف نے ادا کیے تھے۔ یہ فلم 1978ء میں نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی اس کے بعد ہدایت کار پرویز ملک نے بھی نوین تاجک کو اپنی فلم ''پاکیزہ'' میں راحت کاظمی کے ساتھ رومانوی کردار میں کاسٹ کیا تھا جب کہ شبنم اور ندیم نے فلم کے ہیرو اور ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ''پاکیزہ'' میں مسرور انور کا لکھا ہوا اور ناہید اختر کا گایا ہوا گیت نوین تاجک پر قوالی کے انداز میں فلمایا گیا تھا۔ موسیقار ایم اشرف تھے اور گیت کے بول تھے:
کچھ ان کی جفاؤں نے لوٹا کچھ ان کی عنایت مارگئی
ہم رازِ محبت کہہ نہ سکے چُپ رہنے کی عادت مارگئی
اس فلم کی مذکورہ قوالی نے ثریا بھوپالی والی رانی کی یاد تازہ کردی تھی۔ ''پاکیزہ'' 1979ء میں ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم نے گولڈن جوبلی منائی تھی۔ نوین تاجک کا تذکرہ آیا تو اس کی فلموں کا تذکرہ بھی نکلتا چلا گیا۔ اب میں پھر ایس اے بخاری کی فلم ''کس نام سے پکاروں'' کے اس سیٹ پر آجاتا ہوں جس پر نوین تاجک اور غلام محی الدین پر ایک گیت کی فلم بندی کی تیاری ہو رہی تھی۔ جب میں فلم کے سیٹ پر پہنچا تو وہاں ایک وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں پیانو رکھا ہوا تھا اور پیانو کے قریب غلام محی الدین بیٹھا ہوا لائٹنگ کے فائنل ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ (باقی آیندہ)