صرف اللہ کی طاقت
اللہ بے حد رحیم و غفور ہے اور سب سے زیادہ طاقتور اور ہر چیز پر قادر، کوئی شک نہیں کہ وہ تمام عالم کا رب ہے، الل
اللہ بے حد رحیم و غفور ہے اور سب سے زیادہ طاقتور اور ہر چیز پر قادر، کوئی شک نہیں کہ وہ تمام عالم کا رب ہے، اللہ نے یہ دنیا بنائی ہے اور وہی اس کا سسٹم بنانے والا ہے۔ ہر کام، ہر چیز اس کے حکم کے تابع ہے، انسان چاہے تو بھی اپنی پلک تک اپنی مرضی سے نہیں جھپک سکتا۔ یہ ہوا، یہ پانی، یہ پہاڑ گویا سب کچھ اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔
اتنی طاقت کا سرچشمہ ہونے کے باوجود اللہ نے انسانوں کو بے شمار اختیارات سے بھی نوازا ہے اور شاید وہ اس لیے کہ وہ آزماتا ہے کہ کون کون، کیا کیا ہونے کے باوجود کس طرح اپنے معاملات اللہ اور انسانوں سے نبھاتا ہے، مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے اور انسان اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کو جواب دہ ہے، اور اسی اعمال کی بنا پر وہ جنت اور جہنم کا حقدار ہوگا۔ رسول پاکؐ ہمارے آخری رسول ہیں اور خوش قسمتی سے ہم ان کے امتی ہیں۔
رسول پاکؐ کی تمام زندگی ہم تمام مسلمانوں کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اللہ نے جو حکم فرمایا، رسول پاکؐ نے وہ کرکے دکھایا، محبت، نفرت، جنگ، قدرتی آفات، رشتہ داریاں، دوستیاں، تبلیغ اسلام، علم کی تعلیم، فرائض گوکہ نبی پاکؐ کی زندگی میں ہم سب کے لیے تمام نمونے موجود ہیں۔ قرآن پاک بھی ہمیں ہر زندگی کے موڑ پر ہدایت دیتا ہے گوکہ بحیثیت مسلمان ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس ہماری زندگی گزارنے کا ضابطہ 14 سو سال سے یا پہلے سے موجود ہے بس ہمیں اس کو سمجھنا ہے اور Follow کرنا ہے۔
تمام رولز اور طریقے احسن طریقے سے ہمارے پاس موجود ہیں، جھوٹ نہ بولو، پورا تولو، ملاوٹ نہ کرو، حرام سے بچو، زنا اور ریاکاری کو اپنے قریب نہ آنے دو، حقداروں کو ان کا حق دو، والدین اور اولاد دونوں کو ان کے فرائض ادا کرنے کی ہدایت، جن وجوہات کی بنا پر پچھلی قوموں پر عذاب آئے ان سے بچنے کی ہدایت، غریبوں، لاچاروں کی مدد کرنے کا حکم، اعلیٰ زکوٰۃ کا نظام کہ دولت مند اپنی دولت میں سے کچھ حصہ غریبوں کو ضرور دیں۔
اپنے لوگوں سے لے کر پڑوس تک حق کی تلقین گوکہ اللہ کی عبادت اولین فرض ہے مگر اس کے ساتھ وہ تمام رہنمائی ہمیں حاصل ہے جوکہ بحیثیت انسان ہمیں ضروری ہیں، حکمرانوں کے لیے طرز حکمرانی اور رعایا کے لیے رعایا کے فرائض، ریاست اور حکومت کا تعلق، علم کی فضیلت، عورت اور مرد کے کردار کا تعین، بچوں سے لے کر بزرگوں تک کے لیے کس طرح رہیں اور کیسے ان کا خیال رکھا جائے۔
مسلمانوں کے علاوہ تمام دنیا کے انسان اللہ کی مخلوق ہیں اور وہی ان کا رب ہے اس لیے دیگر مذاہب کے لوگوں کے رابطے یا تعلق کا بیان، غرض کہ ہر چیز اور ہر موضوع کو قرآن میں بتایا گیا اور پچھلی قوموں پر کیوں عذاب آیا، گمراہ اور بدکردار اقوام کا کیا انجام ہوتا ہے تمام تر موضوعات ہمیں قرآن میں ملتے ہیں ، رسول پاکؐ کی زندگی سے رہنمائی اور احادیث موجود ہیں۔
دیکھا جائے اور غور کیا جائے تو زندگی بہت آسان اور سہولتیں تمام لوگوں کے لیے موجود ہیں، مگر کیا کیجیے کہ اللہ کے حکم سے ہی شیطان بھی دنیا میں موجود ہے۔ جو اللہ سے ہدایت چاہتے ہیں وہ اللہ سے منسلک ہوجاتے ہیں اور جن کے دل و دماغ پر شیطان غالب آجائے وہ، وہ کرگزرتے ہیں کہ جن کا خمیازہ تمام قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
اگر کبھی پہاڑوں کو توڑ توڑ کر راستے بنائے جاتے ہیں تو شب و روز سیکڑوں انسان، بھاری بھاری جدید مشینوں کے ساتھ دن و رات لگے رہتے ہیں، کئی سال پہلے سے پلاننگ ہوتی ہے، کتنی دولت خرچ ہوگی تخمینہ لگایا جاتا ہے، کام کرنے والے لوگوں سے معاہدے کیے جاتے ہیں، کئی اموات بھی ہوجاتی ہیں، پھر جب یہ راستے کئی سالوں کی شب و روز محنت کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں تو حکومتیں انھیں اپنی بڑی کامیابی قرار دیتی ہیں، کبھی کبھی معجزوں سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اتنا مشکل کام تھا کہ اللہ کی پناہ!
مگر کبھی یہی آسمانوں سے باتیں کرتے مضبوط پہاڑ اللہ کے حکم سے صرف چند سیکنڈز میں ایسے اپنی شکل اپنی ہیئت بدلتے ہیں کہ صرف چند سیکنڈز میں سارا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ سالہا سال کی محنت سے بنائے گئے راستے صرف چند سیکنڈز میں ایسے غائب ہوجاتے ہیں کہ گویا یہ جگہ ہی نئی ہو۔ واہ اللہ کی شان کہ بس اللہ ہی قدرت ہے۔
سالہا سال سے بسی ہوئی آباد بستیاں صرف لمحہ بھر میں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں، جہاں پہاڑ ہوتے ہیں وہاں پانی آجاتا ہے، جہاں پانی ہوتا ہے وہ پہاڑ کھڑے نظر آتے ہیں صرف اور صرف چند سیکنڈز میں۔ سائنس اور علم کتنا ہی آگے بڑھ جائے مگر اللہ کی مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا، انسانی سوچ اور عقل فلسفہ، PHDاور تمام بڑی بڑی ڈگریاں ایک حد تک آکر خاموش ہوجاتی ہیں، اتنی صاف صاف چیزیں نظر آنے کے باوجود، شیطان انسانوں کو نہتا نہیں چھوڑتا، زمین کی پلیٹیں ہل گئیں، براعظم، براعظم سے ٹکرا گئے اور بہت ساری منطق۔ مگر بات نہیں کرتا تو اپنی پھنے خانی کی ڈھے جانے کی، بات نہیں کرتا کہ اللہ کی نافرمانی اس کو عبرت بنا گئی، بات نہیں کرتا کہ کوئی بھی حیثیت نہیں ہمارے اس دنیاوی علم کی۔
اس علم کے آگے جس میں ہر لفظ کھول کھول کر انسانوں کو ہدایت پر آنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ ''بس اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو! '' ان بے چاروں، عقل کے اندھے لوگوں کو دیکھ کر ہی ترس آتا ہے جو بڑی بڑی علم کی ڈگریاں رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ مگر اللہ کے قانون سے انحراف کرتے ہیں۔ پھر اللہ ان لوگوں کو ان کی اوقات یاد دلاتا ہے اور تمام علم، تمام عہدوں سے فارغ یہ لوگ اپنے اچھے وقتوں کو یاد کرتے ہیں مگر بے چارے اللہ کی حکمت نہیں ڈھونڈتے، پیروں فقیروں کے پاس جاتے ہیں، انسانوں سے اپنی خیر اور بھلائی کی امید لگاتے ہیں مگر غافل رہتے ہیں اللہ اور اس کے احکامات سے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، جو دلوں کے تمام رازوں کو جانتا ہے، تمام سوچیں اس سے پنہاں نہیں۔
ہر دور میں اللہ پاک نے انسانوں کی فلاح کے لیے واضح احکامات دیے، نہ کرنے پر ان کی سزاؤں کے بارے میں بھی بتایا، پچھلی امتوں کے انجام بھی موجود ہیں، صرف سیکنڈوں میں سمندر الٹ کر باہر آجاتا ہے جس کو کوئی انسانی طاقت نہیں روک سکتی، ہوائیں بے قابو ہوجائیں تو کسی کے بس میں نہیں، ان کو روکنا سوائے اللہ کے۔ جو کچھ زمینوں میں ہے آسمانوں میں سب پر بے شک اللہ ہی قادر ہے۔ ناگہانی آفات ان ہی کو کہا جاتا ہے جو انسانوں سے بس سے باہر ہوتی ہیں۔
صرف بے بسی ہو، دکھ ہوں، آنسو ہوں اور آہیں ہوں، گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے، مگر یہ سب اللہ کے معاملات ہیں کیونکہ وہ تمام جہانوں کا مالک ہے بادشاہ ہے، ہم تو صرف اور صرف اللہ کے احکامات پر چل کر ان عذابوں سے بچ سکتے ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ بڑے سے بڑا سورما بھی خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے گیا ہے تمام ہیرے جواہرات، تمام دولت کچھ کام نہ آیا، زلزلوں میں انسانی جانیں بڑے بڑے پتھروں پر دب گئیں زمین پھٹی اور کیا کچھ اس میں سما گیا کوئی بھی نہ جان سکا سوائے اللہ کے۔
سورہ الرحمن میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ ''اس نے انسان کو پیدا کیا۔ پھر اس کو گویائی سکھائی، سورج اور چاند حساب کے ساتھ چلتے ہیں اور بے تنے کے درخت اور تنے دار درخت دونوں اللہ کے مطیع ہیں اور اسی نے آسمان کو اونچا کیا اور اسی نے دنیا میں ترازو رکھ دی تاکہ تم تولنے میں کمی و بیشی نہ کرسکو۔''