سوار یا سواری
ہر دوسرے تیسرے دن جب کسی دور دراز کے شہر کی سبز نمبر پلیٹ والی سرکاری گاڑی پر نظر پڑتی ہے
لاہور:
ہر دوسرے تیسرے دن جب کسی دور دراز کے شہر کی سبز نمبر پلیٹ والی سرکاری گاڑی پر نظر پڑتی ہے تو دو امکانات ذہن میں آتے ہیں کہ یا تو کوئی صاحب کسی میٹنگ وغیرہ پر آئے ہیں یا پھر سرکاری پٹرول کی شامت آئی ہے۔ ایک جاسوس قسم کی حس رکھنے والا دوست گاڑی کے مسافروں کو ایک نظر دیکھنے پر فیصلہ دے دیتا ہے کہ افسر لوگ سرکاری کام سے آئے یا سیر سپاٹے پر ہیں دو تین بار تو صرف ڈرائیور کو کار میں پا کر اس نے مسکراتے ہوئے ڈرائیوروں سے گپ شپ کر کے ہم سے شرط بھی جیت لی اور صاحب کا آئندہ کا پروگرام بھی آ سنایا۔ جب سے سرکاری افسروں نے قانون اصول اور ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر حکمرانوں کی چاکری کا فریضہ سنبھالا ہے۔
سیاسی حکمران ان سے مطمئن ہو گئے اور نوکری پیشہ جواباً ان سے خوش ہیں۔ یہ اسی گٹھ جوڑ اور ملی بھگت کا نتیجہ ہے جس سے لاقانونیت کرپشن اور بے انصافی کے عفریت ملک کو تباہی کے گڑھے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ سرکاری موٹروں کا ناجائز استعمال یوں بھی ہو رہا ہے کہ افسر کی ایک گاڑی بیگم کے استعمال میں ہے تو دوسری صاحبزادہ بھگائے پھرتا ہے تیسری ملازم کے سودا سلف لانے کے لیے مخصوص ہوتی ہے جب کہ صاحب کے زیر استعمال تو اچھی والی گاڑی ہے جو شام کے بعد فیملی کار کے طور پر فنکشنز اور دعوتوں وغیرہ پر جانے کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔
کرپشن کے بیسیوں طریقے لوگوں نے اختیار کر رکھے ہیں، چند سال قبل ایک انکم ٹیکس کنسلٹنٹ نے ایک اچھے اخلاق والی خاتون کی بابت بتایا کہ اس کے ایک ہم پیشہ نے پچاس ہزار روپے کی گڈی جیب میں سے نکالی اور متذکورہ با اختیار خاتون کے کمرے میں جا کر گڈی اس کے سامنے رکھ کر مڑ کر باہر جانے لگا تو وہ بولی ''اسے اٹھا لیجیے اور مت بھولیے کہ ہر کام کا ایک سلیقہ ہوتا ہے'' ان صاحب نے نوٹ اٹھا لیے۔ اسی بی بی کے پی اے کے کمرے میں جا کر اس سے لفافہ لیا، رقم اس میں ڈال کر اسٹیپل سے بند کیا اور پھر اس کے کمرے میں جا کر تحفہ دینے کے انداز میں دونوں ہاتھوں میں تھامے لفافہ پیش کر دیا۔
انھوں نے مسکراتے ہوئے قبول کیا اور کہا ''یہ ہوا نا شریفانہ طریقہ'' اسی طرح ایک تحصیلدار کا بیان کیا ہوا دس پندرہ سال پرانا لطیفہ نما واقعہ یاد آیا کہ اس کے ڈپٹی کمشنر نے اسے ایک موٹا لفافہ دے کر کہا کہ فلاں بہت بڑے آدمی کے بیٹے کا ولیمہ ہے تم یہ پچاس ہزار روپے اسے میری طرف سے سلامی کے طور پر دے آؤ اور انھیں بتانا کہ میں سرکاری مصروفیت کے باعث دعوت ولیمہ میں شرکت نہ کر سکوں گا۔ تحصیلدار نے بتایا کہ رقم کسی اچھے لفافے میں ڈالنے کے لیے اس نے لفافہ کھولا تو اس میں چھوٹی مالیت کے کل پانچ سو روپے تھے وہ پریشان ہوا اور پھر اپنی طرف سے اس میں 49500 روپے ڈال کر پچاس ہزار روپے کیے اور دعوت ولیمہ میں جا کر لفافہ پیش کر کے بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ وہ 49500 کا کھانا نہیں کھانا چاہتا تھا۔
بات چلی تھی سرکاری کاروں کے پرائیویٹ استعمال کی اس لیے ذکر کروں گا اپنے پہلے DC کا جن کی سرکاری کار پرانی فوکس ویگن تھی اور وہ کچہری میں بھی اسی کار سے آتے، جی ایچ کیو بھی اسی گاڑی پر اور ایوان صدر بلائے جانے پر فوکسی ہی میں جاتے۔ دو سال راولپنڈی میں تعیناتی کے دوران میں نے میجر (ر) محمد اشرف کو سرکاری فوکسی علاوہ کسی دوسری موٹر میں آتے جاتے نہ دیکھا، ان کی اسی کار پر جھنڈا بھی لہراتا تھا۔
ایم آر عنایت پہلے راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر تھے پھر عرصہ بعد اسی شہر میں کمشنر کے عہدہ پر متمکن رہے، نہایت بااصول ہمدرد اور قابل افسر تھے، ماتحتوں کی اتنی عزت کرتے تھے کہ بعض اوقات انھیں اپنے دفتر سے رخصت کرنے کے لیے خارجی دروازہ کھولنے اٹھ پڑتے، ایک بار تو انھوں نے مجھے بھی دفتر کے کمرے سے رخصت کرنے کے لیے دروازہ کھولا، یہی نہیں ان میں افسری کی بُو بھی مفقود تھی۔
کمشنری سے تبادلہ ہوا تو ان کی تعیناتی اسلام آباد سول سیکریٹریٹ میں ہو گئی۔ اگر وہ چاہتے تو راولپنڈی سے اسلام آباد سرکاری کار سے جانا شروع کر دیتے جو کہ ان کے لیے معمول کی بات ہوتی۔ راولپنڈی صدر سے والجیز کمپنی کی ویگن سروس آبپارہ اور سیکریٹریٹ اسلام آباد کے لیے ہر آدھے گھنٹے بعد چلتی تھی، ایک روز میں صدر سے اسلام آباد جانے کے لیے اس ویگن میں بیٹھا تو دیکھا کہ میرے سابق کمشنر رفیق عنایت مجھ سے اگلی سیٹ پر بیٹھے ہیں اور میرے پیچھے والی سیٹ پر جائنٹ سیکریٹری مفتی لطف اللہ بیٹھے ہیں۔ عنایت صاحب کی کار صبح انھیں گھر سے ویگن اسٹینڈ پر چھوڑ جاتی اور پھر جب سیکریٹریٹ اسلام آباد سے اسی کمپنی کی ویگن مسافروں کو لے کر صدر راولپنڈی آتی تو سابق کمشنر راولپنڈی اس میں سوار ہو کر آتے اور ویگن سے اتر کر کار میں بیٹھ کر گھر چلے جاتے۔
لوگوں نے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد مرے کالج کے وائس پرنسپل سی ڈبلیو ٹریسلر اور فوج کے کرنلوں کو بائیسکلوں پر دیکھا ہوا ہے اور بہت سوں کو دوڑ کر ان کی سائیکلیں پکڑ کر اسٹینڈ پر کھڑی کرتے بھی دیکھا ہے، لیکن کبھی بھی کسی نے ان کی بائیسکلوں کا تمسخر نہیں اڑایا جب کہ اگر آج چیف سیکریٹری، کمشنر یا کوئی جج چھوٹی سوزوکی 800 سی سی پر دفتر جاتا نظر آئے تو ڈیوٹی کنسٹیبل بھی نظریں پھیر کر کھڑا ہو جائے گا لیکن جس نے ڈاکٹر نذیر احمد کو دیکھا ہوا ہے مودّب کھڑا ہو جائے گا کیونکہ ان لوگوں کی پہچان سواری نہیں سوار تھی۔ اب معاملہ الٹ ہے جس کے گھر پر تین چار کاریں کھڑی ہوں گی وہ پانچ سات کاروں والے سے کم مرتبہ پائے گا جب کہ سرکاری افسر کی تو پہچان ہی سرکاری موٹروں کی تعداد اور برانڈ ہے۔
بریگیڈیئر خواجہ نسیم اقبال کا ایک بار جنرل بس اسٹاپ جانا ہوا تو انھیں حاضر سروس جنرل الطاف قادر اپنی بیگم کے ساتھ بس کی اگلی سیٹوں سے اترتے دکھائی دیے وہ کچھ حیران ہوئے اور سلام دعا کے بعد دریافت کیا کہ ''سر آپ پبلک بس پر سوار'' جنرل صاحب سمجھ گئے اور کہا ''مجھے اپنی ڈیوٹی کے ایریا سے باہر سفر کرنا تھا اس لیے سرکاری گاڑی کا استعمال مناسب نہیں سمجھا اس لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا انتخاب کیا کیوں کوئی غلط کام کیا'' خواجہ صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا صرف یہ پوچھا کہ ''سر کوئی خدمت، میری کار پارکنگ میں کھڑی ہے۔'' جنرل صاحب نے شکریہ ادا کیا اور بیگم کے ساتھ چل دیے۔
میری یادداشت میں وہ منظر آج بھی چسپاں ہے جب میں پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور کے کمرے کے باہر کھڑا ڈاکٹر نذیر صاحب کا انتظار کر رہا تھا کہ میاں صلّی چوہدری عید محمد اور ڈاکٹر صاحب کو ہمراہ لے کر مجھے سکھ زائرین کا واہگہ بارڈر پر اسپتال کرنا تھا۔ کچھ ہی دیر میں پرنسپل صاحب اپنی بائیسکل پر تشریف لے آئے۔ ان کے نائب قاصد نے سائیکل تھام لی تو وہ بولے ''کمرے میں آ جائیے ضروری کام دیکھ لوں تو تھوڑی دیر میں آپ کے ہمراہ سکھ زائرین کا استقبال کرنے واہگہ چلتا ہوں۔'' وقت بدل گیا، تب لوگ سوار کا احترام کرتے تھے اب سواری کو سلام کرتے ہیں۔