ملکی تاریخ کا سب سے طاقتور زلزلہ
قدرت کا ان دیکھا ہاتھ جب زلزلے لاتا ہے تو لوگوں کا خوف و ہراس دیدنی ہوتا ہے
www.facebook.com/shah Naqvi
FATEH JANG:
اس دفعہ تو کالم کا موضوع کچھ اور تھا لیکن پاکستان کی تاریخ کے سب سے طاقتور زلزلے سے پیدا ہونے والی تباہی نے اس پر لکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس زلزلے کی طاقت پاکستانی محکمہ موسمیات کے مطابق 8.1 تھی جب کہ امریکی زلزلہ پیما نے اس کی شدت 7.5 ریکارڈ کی۔ اس کا مرکز افغانستان میں کوہ ہندوکش کے سلسلے میں کسی مقام پر تقریباً دو سو کلومیٹر زمین کے اندر گہرائی میں تھا۔ جس شدت کا یہ زلزلہ تھا اگر یہ کم گہرائی میں ہوتا تو اس میں ہلاکتیں لاکھوں کی تعداد میں ہو سکتی تھیں۔ یاد رہے کہ جب 2005ء میں آزاد کشمیر بالاکوٹ کے مقام پر زلزلہ آیا تھا اس وقت زلزلے کا مرکز زمین میں صرف دس کلومیٹر گہرائی میں تھا۔ اس زلزلے نے ستاسی ہزار سے زیادہ افراد کی جان لے لی اور سوا لاکھ کے قریب زخمی و اپاہج ہوئے۔
قدرت کا ان دیکھا ہاتھ جب زلزلے لاتا ہے تو لوگوں کا خوف و ہراس دیدنی ہوتا ہے۔ بے پناہ خوف دماغ کو ماؤف اور اعصاب کو شل کر دیتا ہے۔ انسان اس وقت زمین کا قیدی ہوتا ہے اور اس سے بھاگ کر کہیں جا ہی نہیں سکتا۔ ایک ایسی بے بسی کی کیفیت ہوتی ہے جو لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس سال 25 اپریل کو نیپال میں بھی ہولناک زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.8 تھی۔ اس زلزلے کی شدت ایک منٹ بعد کم ہو گئی۔ بھارت اور تبت تک اس زلزلے کو محسوس کیا گیا یہاں تک کہ اس کے اثرات سات ہزار میل دور امریکا تک زلزلے کی پیمائش کرنے والے مرکز تک پہنچ گئے۔
اس زلزلے نے ماؤنٹ ایورسٹ کو ہلاتے ہوئے اس پر موجود کوہ پیماؤں کے کیمپ تباہ کر دیے۔ زلزلے میں نو ہزار لوگ مارے گئے اور بائیس ہزار زخمی ہوئے۔ تیس لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے۔ اس زلزلے نے نیپال کے سب سے قدیم مندر کو، جو پندرہ سو سال پرانا تھا، تباہ کر دیا۔ نیپال میں آنے والا زلزلہ کتنا طاقتور تھا اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ماہرین کے مطابق اس زلزلے کی طاقت ہیروشیما پر گرنے والے 50 ایٹم بموں کے برابر تھی حالانکہ اس وقت اس جاپانی شہر پر صرف ایک ہی ایٹم بم گرایا گیا تھا۔ 7.8 زلزلے کی طاقت 20 طاقتور ایٹم بموں کے برابر ہوتی ہے اور 7.9 زلزلے کی طاقت دس لاکھ ٹن بارود کے برابر ہوتی ہے۔
اس زلزلے نے پورے نیپال کو ہلا کر رکھ دیا۔ سات لاکھ عمارتیں تباہ ہوئیں یا ان کو نقصان پہنچا۔ اس زلزلے نے بتایا کہ ہمالیہ اپنی جگہ سے کھسک رہا ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ زلزلے کا بڑا گڑھ ہے۔ بڑے زلزلوں کے درمیان عموماً اسی سے سو سال کا وقفہ ہوتا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ زلزلوں کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
جو ملک زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع ہیں یا اس کے قریب ہیں، زلزلے وہاں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر یورپ میں زلزلے نہیں آتے کیونکہ وہاں سے فالٹ لائن نہیں گزرتی جب کہ وہ مذہبی نقطہ نظر سے بہت سی برائیوں کا گڑھ ہے۔ پاکستان زلزلوں کے حوالے سے خطرناک رینج میں واقع ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق تقریباً پورا پاکستان ہی فالٹ لائن پر واقع ہے۔ اس میں اسلام آباد بھی شامل ہے۔ زلزلے اس وقت آتے ہیں جب زمین کے اندر پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ سادہ الفاظ میں اسے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جب زمین اپنی انرجی خارج کرتی ہے تو اس کو زلزلہ کہا جاتا ہے یعنی جس مقدار میں زمین اپنی انرجی خارج کرے گی اس قوت کے برابر زلزلہ ہو گا۔ جب زمین پیدا ہوئی تھی تو اس کے افعال میں یہ لکھ دیا گیا تھا، بالکل اسی طرح جس طرح قدرت انسان کے جنیٹک کوڈ میں اس کی صورت، شکل، رنگ، روپ، قد یہاں تک کہ اس کی موت کا بھی تعین کر دیتی ہے۔
اب زمین کی بھی ''مجبوری'' ہے کہ اس نے بھی اپنی انرجی خارج کرنی ہے۔ اب کرے تو کیا کرے۔ اس عمل سے اب لاکھوں لوگوں کی جانیں جاتی ہیں تو جائیں اس کی بلا سے۔ وہ بھی مجبور محض ہے جس طرح انسان ایک حد کے بعد مجبور محض ہے۔ جنیٹک کوڈ اس کا ثبوت ہے۔ یہ بات ہمیں ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ زلزلے اس وقت بھی آتے تھے جب زمین پر انسان کا وجود نہیں تھا تو پھر عذاب الٰہی کی وعید سنانے والے یہ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اس وقت کن گناہوں کی سزا دے رہے تھے؟
بات سمجھنے کی صرف یہ ہے کہ کائنات میں ہماری زمین کی اوقات کیا ہے؟ صرف ایک ذرہ! اس کو اس مثال سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک عظیم الشان وسیع و عریض صحرا ہے۔ اس میں سے ریت کا ذرہ اٹھا لیا جائے تو وہ ذرہ ہماری زمین ہے۔ تو یہ ہے وقعت ہماری زمین کی پوری کائنات میں۔ تو اس پس منظر میں زمین پر بسنے والے انسان کی کیا حقیقت ہو گی۔ زمین کے بارے میں ابھی ہمارا علم اتنا محدود ہے کہ ہم زلزلوں پر قابو پانا تو درکنار اس کی پیش گوئی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کب آئے گا۔ کائنات کے بارے میں ہمارا علم بس اتنا ہی ہے کہ ہم سمندر کے کنارے کھڑے اس کی لہریں گن رہے ہیں۔ کائنات ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن سائنس دان ابھی تک اس کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے۔ لیکن ہم دن رات لفظ کائنات کی گردان کرتے رہتے ہیں۔
زلزلوں کے ذریعے قدرت کا ان دیکھا ہاتھ زمین کے ناک نقشے کو تبدیل کر رہا ہے جیسے کہ ماضی میں ہوا، کہ آج جہاں ہمالیہ کے عظیم پہاڑی سلسلے ہیں، لاکھوں کروڑوں سال پہلے وہاں سمندر تھے۔ آج کے براعظم ماضی میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ مسلسل ہولناک زلزلوں نے انھیں ایک دوسرے سے دور کر دیا۔ سائنس دانوں کے نزدیک یہ زلزلے کمال کی چیز ہیں۔
علم اور سائنس کی ترقی نے دنیا پر قدامت پرستوں کا کنٹرول ختم کر دیا ہے۔ امریکا، یورپ اور مجموعی طور پر مغرب، پادری اور کلیسا کی قید سے آزاد ہو چکے ہیں۔ اب یہی عمل دنیا کے قدامت پرست علاقوں میں دہرایا جانے والا ہے۔ ہمارے خطے کے قدامت پرست اس صورت حال پر حواس باختہ ہیں کہ سادہ لوح ان پڑھ نیم خواندہ عوام میڈیا کے ذریعے سائنسی سوچ کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام کو ان قدامت پرست قوتوں نے جس طرح سیکڑوں ہزاروں سال سے اپنی غلامی میں جکڑ رکھا تھا اب وہ سلسلہ ٹوٹنے جا رہا ہے۔ عوام کی فکری غلامی کے خاتمے کے ساتھ اس طرح ان کی قدیم بادشاہت بھی جلد ختم ہو جائے گی۔
ہماری زمین اس کائنات کا انتہائی حقیر حصہ ہے جس کی اس کائنات میں کوئی حیثیت نہیں کیونکہ انسان سے برتر مخلوقات بھی اس کائنات میں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ اگر ہم کائنات کے آخری سرے تک پہنچنا چاہیں تو اس کے لیے ہمیں روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے پچاس ارب نوری سال چاہیئں۔ اگر انسان کو اپنا وجود برقرار رکھنا ہے تو اسے دوسرے سیاروں کی طرف ہجرت کرنا ہو گی۔
اس سال کے شروع میں اس سال کے آخر کے لیے زلزلے کی پیش گوئی کی گئی تھی جو پوری ہوئی۔ اس کے علاوہ ہمدم دیرینہ افضل رضوی پچھلے ایک مہینے سے مسلسل زلزلے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ میں انھیں یہی کہتا تھا معاف کریں، زلزلہ نہ ہی آئے تو اسی میں خیریت ہے۔ 4-3 تا 8 نومبر تک زلزلے کے آفٹر شاکس ختم ہو جائیں گے۔