بے نظیر کے قتل کے محرکات

محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کا 18 اکتوبر 2007 میں کراچی میں جو والہانہ استقبال ہوا وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔


Syed Mohsin Kazmi November 02, 2015
[email protected]

محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کا 18 اکتوبر 2007 میں کراچی میں جو والہانہ استقبال ہوا وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ کسی نے بے نظیر کے قتل کے واقعے کی تحقیقات میں ذرہ برابر سنجیدگی نہ دکھائی، اگر اس معاملے کی تحقیقات کو پی پی پی اپنے زمانے میں ہی شروع کرتی تو یقیناً بڑی معلومات ہاتھ آتیں، کیونکہ جو لوگ بھی ان کے قتل کے درپے تھے انھوں نے اسے 18 اکتوبر کو ہی ختم کردینا تھا۔ میری نظر میں یہ واقعہ 27 دسمبر سے زیادہ اہم ہے، کیونکہ اصل قاتل اس میں چھپا ہوا ہے۔ میں اس کو اصل قاتل نہیں کہتا جس نے آلہ قتل سے قتل کیا، وہ تو ایک کرائے کا یا برین واش کیا ہوا قاتل تھا۔ اصل قاتل وہ تھے جنھوں نے انتہا پسندوں، طالبان جیسے جنگجوؤں کو یہ احساس دلایا کہ عورت کی حکمرانی اسلام میں حرام ہے۔ بھٹو فیملی کی سیاست کے دشمن ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے ہی بنیاد پرست اور رجعت پسند ہیں، جس میں ہماری نام نہاد مذہبی جماعتوں کی فکر شامل ہے۔ یہ بات طے ہے کہ قاتل اور قتل کروانے میں بیت اللہ محسود جیسے ہی لوگوں کا عملی ہاتھ ہے، مگر اس وقت کی ہماری خفیہ ایجنسیوں نے ان کے مذموم ارادوں پر نظر کیوں نہیں رکھی۔

دبئی کی طرح محترمہ پر خودکش حملے کی پیشگی اطلاع ہماری خفیہ ایجنسیوں کے لیے بڑا سوالیہ نشان ہے، عوام کو بے نظیر بھٹو کا بدل تو ابھی تک نہ ملا، بلکہ پوری ملت جس طرح ذوالفقار علی بھٹو سے محروم ہوئی اسی طرح بے نظیر بھٹو سے۔ میری نظر میں ان دونوں رہنماؤں کی اور ان کی پارٹی کی سوچ وفاق پرستی ہے، جس کی قدر ہر محب وطن اور ہر ایجنسی کو کرنی چاہیے، کیونکہ پاکستان میں 300 کے لگ بھگ جو سیاسی جماعتیں ہیں، ان میں صرف پی پی پی ہے جس نے 1971 کے عام انتخابات میں پاکستان کے پانچوں صوبوں میں سے سندھ اور پنجاب کے دو بڑے صوبوں سے اکثریتی ووٹ لیا جب کہ تمام پارٹیوں نے لسانیت کی بنیاد پر مشرقی پاکستان اور بلوچستان اور فرنٹیئر سے ووٹ لیے۔ اس لیے لسانی بنیاد کا مقابلہ صرف ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہی کیا، جب کہ خفیہ ہاتھ نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات میں خفیہ ہاتھ نے MRD کو بائیکاٹ پر مجبور کردیا جو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی، اس کے بھیانک نتائج سامنے آئے۔

پی پی پی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، ذوالفقار علی بھٹو نے اصولوں کی خاطر پھانسی قبول کرلی اور پہلے نصرت بھٹو پھر بے نظیر بھٹو نے اس پارٹی کو سنبھالا۔ لیکن خفیہ ہاتھ کام کرتا رہا، IJI بنائی گئی، جسے کے ذریعے کچھ لوگ بے نقاب ہوئے۔ یہ سارا گیم صرف اس لیے کھیلا گیا کہ وہ پاکستان میں مطلق العنان ایک پارٹی کی حکومت نہیں چاہتے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے پی پی پی کی وفاق پرستی کو کمزور کرنے کے لیے قوم پرستوں کی حوصلہ افزائی کی، اور انھوں نے ایک لسانی پارٹی کو کراچی میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ ان سب کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کا 62 فیصد آبادی والا صوبہ کسی طور پر مزید صوبوں میں تقسیم نہ ہو۔

2008 سے لے کر 2013 تک پی پی پی نے اسمبلی میں بہت کام کیا، آصف علی زرداری نے نظام اور آئین کو جمہوری بنانے میں بڑی مدد دی، اپنے اختیارات جو بحیثیت صدر کے تھے، وہ پارلیمنٹ کو دیے اور صوبوں کو مزید آزاد بنایا اور پنجاب میں سرائیکی صوبہ بنانے میں تیزی آئی مگر خفیہ ہاتھ کارستانی دکھا گیا اور سرائیکی غریب پھر مایوس ہوگئے۔ یہ ساری باتیں اس لیے کی ہیں کہ آج کی نوجوان نسل اس سے واقف نہیں۔ اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہو یا محترمہ بے نظیر کا قتل، یہ سب ان ہی معاملات کا شاخسانہ ہے۔ ہمیں افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑتا ہے 2008 سے لے کر 2013 تک پی پی پی اقتدار میں رہی۔ صدر بھی ان کا وزیراعظم بھی، اسپیکر بھی، وزیر داخلہ بھی، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ بھی، حتیٰ کہ صوبہ سندھ میں ان کی حکومت رہی لیکن انھوں نے نہ تو محترمہ بے نظیر کے قتل کے اسباب کو جاننے اور عوام کو بتانے کی کوئی بات کی، نہ ہی عوامی ترقیاتی عمل انجام دیے۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ خفیہ ہاتھ کی منصوبہ بندی کا حصہ بن گئے، کیونکہ یہ ہاتھ تو ایک مضبوط وفاق پرست جماعت کا غلبہ چاہتا ہی نہیں ہے۔

وہ منصوبے کے مطابق پورے ملک کے تمام صوبوں میں علاقائیت، لسانیت اور مذہبیت کی بنیاد پر سیاست کا فروغ چاہتا ہے۔ کے پی کے میں اے این پی کو پختونوں کی، بلوچستان میں مینگل کو بلوچوں کی، پنجاب میں پنجابیوں کی مسلم لیگ پھر جماعت اسلامی اور جمعیت اسلام جیسی جماعتیں تو مکتبی نظریے کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں۔ اسی میں وہ سیاست دان بھی ہیں جو ہمیشہ آمروں کی حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آصف علی زرداری پی پی پی کے ذریعے پاکستان کے بھی صدر بن گئے اور بظاہر کوئی غلط اقدام بھی نہیں کیے۔ چین و پاکستان کے تعلقات کو مضبوط بھی کیا، مگر ان میں ایک بہت بڑی خامی جو اب تک ہے کہ وہ پرزور شخصیت نہ بن سکے، انھوں نے اپنی شخصیت سازی پر کوئی توجہ نہ دی، اس لیے وہ 8 سال گزرنے کے بعد بھی بے نظیر کا بدل نہ بن سکے۔ انھوں نے ایک نعرہ دیا تھا ''جمہوریت بہترین انتقام ہے''۔ کاش وہ خفیہ ہاتھ کی فکر کو بدلتے، کیوں کہ پاکستان کی بقا نہ لسانی سیاست میں ہے نہ مذہبی سیاست میں، بلکہ اس کی بقا ایک روشن خیال سیاسی جماعت جو وفاق پرست ہو، اس کے اقتدار میں آنے سے ہے۔

کاش اس بات کو بھی تسلیم کر لیا جائے کہ صرف اور صرف وفاق پرست جماعت ہی مضبوط ریاست کی ضمانت ہے۔ وفاق پرست جماعت سے مراد جس میں نہ لسانیت کی بنیاد ہو نہ مذہبیت کی سیاست، نہ صوبائیت کا شائبہ ہو، بلکہ ایسی جماعت جس میں ہر پاکستانی برابری کی بنیاد پر شامل ہو، چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم، چاہے شیعہ ہو یا سنی، مگر محب وطن ہو، صاف ستھرے کردار کا مالک ہو۔ اگر اس فکر کو آگے بڑھایا جائے جس میں سب سے زیادہ موثر کردار پاکستان کی تمام خفیہ ایجنسیاں ،عسکری ادارے اور پولیس ادا کرسکتی ہے۔ ہماری قوم میں اور ہماری زرخیز زمین میں بیش بہا مال و زر، معدنیات اور گیس کے ذخائر بھی ہیں اور قوم میں محنت اور غیرت کا جذبہ بھی۔ اگر ہم سب وفاق پرست ہوجائیں تو یہ کہنا بہت مناسب ہوگا ہم سبز ہلالی پرچم تلے ایک ہیں۔ اور اسی طرح قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، علامہ اقبال، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کی روح کو بھی تسکین ملے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں