خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم وہی کچھ پڑھتے ہیں جو ہمیں اچھا لگتا ہے اور وہی کچھ سنتے ہیں جو ہم سننا چاہتے ہیں۔


میرشاہد حسین November 03, 2015
اگر آپ میں عدم برداشت ہے تو آپ اپنے مخالفین کو سننا شروع کر دیں جس حد تک سن سکتے ہیں۔ فوٹو:فائل

سیاست ہو یا کھیل، ہار اور جیت زندگی کا حصہ ہیں، کسی ایک جیتنا ہوتا ہے اور کسی ایک نے بہرحال ہارنا ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب ہم جیت کے گھمنڈ میں تکبر پر اُتر آئیں اور ہار کو تسلیم نہ کرتے ہوئے غصہ دکھائیں۔ حال ہی میں ہونے والی کرکٹ سیریز کا میدان ہو یا سیاست کی چال بازیاں، ہمیں بھارت کا منہ عدم برداشت سے کالا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ الیکشن اس لئے کرائے جاتے ہیں تاکہ منتخب نمائندے عوام کیلئے سہولت کا باعث بن سکیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں الیکشن کی روایت ہمیشہ سے کچھ اچھی نہیں رہی۔ دھاندلی کے شور میں کئی ایک اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ہم سب عدم برداشت کا شکار ہیں۔

ایک روز میں ٹی وی پر ایک سیاستدان کو سُن رہا تھا تو میرے پیچھے سے میرے دوست نے مجھے یہ کہہ کر ٹوکا کہ اسے نہ سنو دماغ خراب ہوگا۔ میں نے مسکرا کر اس کی بات سنی ان سنی کردی کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ بھی عدم برداشت کا شکار ہے اور اپنے مخالف کو سننا پسند نہیں کرتا۔ میرے ایک دوست فیس بک بہت استعمال کرتے ہیں، ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ اس سے فائدہ کیا ہوتا ہے؟ تو کہنے لگے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں تو میں نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ بتاؤ تمہارے دوستوں کی فہرست میں کون کون لوگ شامل ہیں۔ بڑے فخر سے بتانے لگے کہ سب میرے ہم خیال دوست ہیں۔ میں نے ہر نئے شخص کو بلاک کر رکھا ہے تو میں نے مسکرا کر کہا تو اس طرح تم اپنے دوستوں اور ہم خیال لوگوں میں اپنی باتیں گوش گذار کررہے ہو جو پہلے ہی تمہارے ہم خیال ہیں۔

اپنے کنویں میں ٹر ٹر کرکے اور خود کو عدم برداشت کے خول میں بند کرکے ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم دنیا کے خیالات کو بدل رہے ہیں تو شاید ہم کسی کو نہیں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ہم وہی کچھ پڑھتے ہیں جو ہمیں اچھا لگتا ہے اور وہی کچھ سنتے ہیں جو ہم سننا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری بات سنیں لیکن ہم خود کچھ سننے کیلئے تیار نہیں، جہاں کوئی آپ کی بات میں ہاں میں ہاں ملائے گا آپ اسے اپنا دوست سمجھیں گے اور جہاں اس نے نفی کی آپ نے اس کو اپنا دشمن گرداننا شروع کر دیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عدم برداشت سے چھٹکارا بھی ممکن ہے کہ نہیں؟

اسلام نے برداشت کا سبق آج سے 14 سو سال پہلے ہمیں دیا تھا اور صرف سبق ہی نہیں دیا بلکہ ثابت بھی کرکے دکھایا تھا۔ وہی عرب جو صدیوں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے آپس میں انصار اور مہاجر اس طرح اخوت کی لڑی میں پرو گئے کہ جو رہتی دنیا کیلئے مثال ہیں پھر فتح مکہ کے انقلاب کی مثال ہمارے لئے برداشت کا وہ بہترین نمونہ ہے جو دنیا نے آج تک نہیں دیکھا، فتح مکہ کے بعد ہر ایک کو عام معافی مل گئی ۔

نیلسن منڈیلا 27 سال انگریزوں کی قید میں رہے، ان 27 برسوں میں 6 سال وہ قیدِ تنہائی بھی شامل تھی جس میں انہوں نے نہ باہر کی کوئی آواز نہ سنی اور نہ ہی انہوں نے باہر کا آسمان دیکھا۔ یہ ایک ایسی اذیت ناک قید تھی کہ جس کا تصور بھی محال ہے کجا یہ کہ معافی کا سوچا جائے لیکن نیلسن منڈیلا نے اس قید سے باہر آتے ہی ان سب لوگوں کو معاف کر دیا کہ جنہوں نے اس پر مظالم کے پہاڑ توڑے تھے۔ اُنہوں نے اقتدار میں آتے ہی نہ صرف انگریز عملہ کو اپنی جگہ پر بحال رکھا بلکہ اپنی سکیورٹی تک کیلئے انہیں تعینات رکھا اور اس طرح ان کی سیکورٹی انگریز عملہ ہی سر انجام دیتا رہا جو ایک انتہائی مشکل فیصلہ تھا لیکن انہوں نے اپنے عدم برداشت سے یہ سب کر دکھایا۔

عدم برداشت وہ بیماری ہے کہ جس کا تریاق اپنے زہر کے اندر ہے، اگر آپ میں عدم برداشت ہے تو آپ اپنے مخالفین کو سننا شروع کر دیں جس حد تک سن سکتے ہیں، اپنی باری کا حق چھوڑ کر دوسرے کو اپنی باری دینا شروع کردیں، جس نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے، کم از کم آپ دل میں اسے خیال کرکے معاف کریں پھر دیکھئے آپ میں برداشت کی قوت میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔ آغاز میں یہ تھوڑا مشکل ضرور ہوگا لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے جائیں گے آپ کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا، یاد رکھیئے عدم برداشت کی بیماری دوسروں کو کم آپ کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔

اگر میں آخر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ مذہب سے دوری بھی عدم برداشت کو جنم دیتی ہے، مذہب ہمیں حق چھیننا نہیں بلکہ حق دینا سکھاتا ہے، اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہم اپنے خول سے باہر نکلیں اور دوسروں کی رائے کو مقدم سمجھتے ہوئے عدم برداشت کی فضا کے خاتمے کیلئے قدم بڑھائیں، کیونکہ شاعر کیا خوب کہہ گئے کہ،
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

[poll id="745"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں