مگر مچھ کے آنسو
ٹونی بلیئر نے بھی مزید اعتراف کیا ہے کہ اس وقت دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ داعش ہے
لاہور:
سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے ایک انٹرویو میں تسلیم کر لیا ہے کہ عراق پر حملے میں مدد کر کے ان سے فاش غلطی سرزد ہوئی تھی مگر یہ اس لیے ہوا کہ خفیہ ایجنسی (CIA) نے غلط معلومات فراہم کی تھیں۔ ادھر امریکی صدارت کے لیے ری پبلکن پارٹی کے ایک امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک انتخابی ریلی میں سابق امریکی صدر بش کے عراق پر حملے کو ان کی عاقبت نااندیشی سے تعبیر کیا ہے، انھوں نے مزید کہا ہے کہ کیا اچھا ہو گا اگر صدام حسین اور کرنل قذافی زندہ ہوتے تو عراق اور لیبیا تباہ و برباد نہ ہوتے، مزید برآں انھوں نے لیبیا کی تباہی کا صدر اوباما اور ہیلری کلنٹن کو براہ راست ذمے دار قرار دیا ہے۔
ٹونی بلیئر نے بھی مزید اعتراف کیا ہے کہ اس وقت دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ داعش ہے اور بدقسمتی سے اس کا جنم عراق کے بحران کی دین ہے۔ شکر ہے کہ مغربی رہنماؤں کو اب اپنی غلطیوں کا احساس ہو رہا ہے مگر یہ مگرمچھ کے آنسو اب کس کام کے۔ ان کا یہ افسوس عراق اور لیبیا کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دراصل صدام اور قذافی چونکہ اسرائیل کے وجود کے دشمن تھے اس لیے ان دونوں کے وجود کو ہی ختم کر دیا گیا۔
افسوس کہ اس دشمنی میں ان لوگوں نے یہ بھی سوچنا گوارا نہ کیا کہ ان کے بعد ان ممالک کا کیا بنے گا؟ یہ بات ابھی لوگ نہیں بھولے کہ سابق صدر جونیئر بش نے مشرق وسطیٰ میں آمرانہ حکومتوں کو جمہوری حکومتوں میں تبدیل کرنے کا منصوبہ اپنی شاطرانہ نئی ورلڈ آرڈر کی تھیوری کے تحت پیش کیا تھا۔ دراصل اس منصوبے کے پیچھے مشرق وسطیٰ کے تقریباً تمام اسرائیل دشمن ممالک کی تباہی و بربادی کا پیغام پنہاں تھا تاہم ان تمام میں عراق لیبیا اور شام خصوصی طور پر امریکی نشانے پر تھے جنھیں غیر مستحکم کرنے کے لیے منصوبہ تیار کر لیا گیا تھا بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ دس سال قبل سینئر بش کے زمانے میں ہی تیار ہو چکا تھا۔
1980ء سے قبل عراق ایک مضبوط فوج اور جدید اسلحے سے لیس ملک تھا اس کی معیشت بھی مضبوط تھی۔ صدام حسین اپنی طاقت کے بل پر متعدد مرتبہ اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کی دھمکیاں دے چکے تھے چنانچہ عراق کو کسی نہ کسی طرح تباہ کرنا سینئر بش حکومت کا اہم ہدف بن گیا تھا۔ حکمت عملی کے تحت عراق کو اکسا کر ایران سے 8 سال یعنی ستمبر 1980ء سے اگست 1988ء تک لڑایا گیا۔ امریکا درپردہ عراق کی پشت پر تھا، اسے ہر قسم کا اسلحہ فراہم کرتا رہا اور جب اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو صدام کو جنگ روکنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ اس جنگ میں عراق کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا، ادھر ایران کو بھی زبردست معاشی نقصان اٹھانا پڑا، اس طرح امریکا نے ایک تیر سے اپنے دو دشمنوں کا شکار کر لیا تھا۔
اس جنگ کے خاتمے کے بعد صدام کو کویت پر حملہ کرنے پر اکسایا گیا۔ مبصرین کے مطابق وہ مغربی آشیرواد سے کویت پر قابض تو ہو گیا مگر اس طرح امریکی جال میں پھنس چکا تھا۔ بس یہی وہ نکتہ تھا جہاں سے عراق کی اصل تباہی کا آغاز ہوا۔ کویت پر عراق کے قابض ہونے کے بعد منصوبے کے تحت امریکا نے عراق کے کویت پر حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے کر اقوام متحدہ سے اس کے خلاف قرارداد پاس کروائی اور پھر اس نے اپنے 31 اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق پر دھاوا بول دیا، چند ہی دنوں میں عراق کو نہ صرف کویت کو خالی کرنے پر مجبور کر دیا گیا بلکہ اسے عالمی دہشت گرد قرار دے کر اس پر باقاعدہ جنگ مسلط کر دی گئی۔ دنیا کے 32 ملکوں نے مل کر بے چارے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ صدام کے گھٹنے ٹیکنے کے بعد اس پر مختلف قسم کی پابندیاں لگا کر دنیا سے الگ تھلگ کر دیا گیا۔
اس کے بعد آٹھ سال تک عراق مشکلات میں گھرا رہا۔ کلنٹن کے بعد سینئر بش کے بیٹے جونیئر بش نے امریکا کا تخت سنبھال لیا اور پھر انھوں نے اپنے باپ کے ادھورے چھوڑے مشن کو انجام تک پہنچانے کے لیے عراق پر ایسے مہلک ترین ہتھیاروں کے رکھنے کا الزام لگا کر کہ جن سے دنیا کا امن چوپٹ ہو سکتا تھا، عراق پر اپنے 31 اتحادیوں کے ساتھ حملہ کر دیا۔ ان تمام حملہ آوروں نے مل کر عراق کو تباہ و برباد کر ڈالا۔ واضح ہو کہ عراق پر یہ حملہ جن مہلک ترین ہتھیاروں کی بنیاد پر کیا گیا تھا بعد میں وہ اس کے پاس سے برآمد نہیں ہوئے۔ ان ہتھیاروں کی موجودگی کی رپورٹ امریکی سی آئی اے نے دی تھی۔
بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ صدام کے خلاف یہ رپورٹ بش اور ڈک چینی کے کہنے پر پیش کی گئی تھی، اگر سی آئی اے نے اسے اپنی طرف سے پیش کیا ہوتا تو غلط رپورٹنگ پر یقیناً اس کے خلاف کارروائی کی جاتی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ صرف عراق کو تباہ کرنے کی سازش تھی اور سی آئی اے کی جھوٹی رپورٹ کا سہارا لے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ عراق پر قبضہ کرنے کے بعد بش نے اپنے اصل ہدف یعنی صدام کو پھانسی پر لٹکا کر دم لیا۔ صدام تو اس دنیا سے سرخرو ہو کر ملک عدم چلا گیا مگر اسرائیل کو محفوظ بنانے اور تیل کے لالچ میں عراق کا شیرازہ بکھیر دیا گیا۔
صدام کے بعد عراق میں جو افراتفری شروع ہوئی وہ امریکی حکومت کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی نہ تھم سکی۔ عراق کی اسی بحرانی کیفیت کے دوران ہی عراق میں داعش نے جنم لیا۔ اس فتنے نے تو القاعدہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ داعش اتنی طاقتور کیسے بن گئی کہ امریکا جیسی موجودہ اور برطانیہ جیسی سابق سپرپاور بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔ داعش کے پاس بہ افراط جدید ہتھیار کہاں سے آئے؟ اس نے سیکڑوں نوجوانوں کو بھاری تنخواہوں پر بھرتی کر رکھا ہے۔
اس میں مغرب کے نوجوان جوق در جوق کیوں شامل ہو رہے ہیں اور اس کے اخراجات کو کون برداشت کر رہا ہے؟ اس وقت روس نے داعش پر بمباری شروع کر دی ہے مگر امریکا سمیت تمام مغربی ممالک روس کے فضائی حملوں کی کیوں مخالفت کر رہے ہیں؟ پھر طرفہ تماشا دیکھیے کہ داعش عراق شام اور ترکی میں تو تباہی پھیلا ہی رہی ہے مگر پڑوس میں واقع اسرائیل کا بال بھی بیکا نہیں کر رہی؟ اس سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ داعش کو مغرب کی پشت پناہی حاصل ہے۔
عراق کو تباہ کرنے کے بعد امریکا نے اپنے دوسرے ہدف لیبیا کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ کرنل قذافی کو ان کے ہی لوگوں سے انتہائی بے دردی اور بے بسی کے عالم میں قتل کروا دیا، اب قذافی کے بعد لیبیا میں خانہ جنگی جاری ہے۔ عوام دربدر مارے مارے پھر رہے ہیں، وہ جانیں بچانے کے لیے ناچار یورپ کا رخ کر رہے ہیں مگر کافی لوگ راستے میں ہی بحیرہ روم کی لہروں کا نوالہ بن رہے ہیں۔
اب عراق اور لیبیا کے بعد تیسرا ہدف شام ہے۔ آج مغربی ممالک شام کے ہی کچھ لوگوں کو خرید کر اپنے ہتھیاروں کے ذریعے اسے تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ امریکی بمباری سے پورا شام کھنڈر بن چکا ہے، لاکھوں کی تعداد میں شامی ہلاک ہو چکے ہیں، وہ بھی اپنی جانوں کو بچانے کے لیے یورپ کا رخ کر رہے ہیں مگر کافی لوگ یورپ پہنچنے سے پہلے ہی بحیرہ روم کی نذر ہو رہے ہیں۔ ابھی حال میں ایک شامی بچے کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بحیرہ روم میں ڈوبنے کے واقعے نے پوری دنیا کے ساتھ ساتھ مغرب کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد یورپی ممالک اپنی ہٹ دھرمی ترک کر کے شامی سمیت دیگر پناہ گزینوں کو اپنے ہاں آباد ہونے کی اجازت دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر مغربی ممالک اتنے ہی احترام انسانیت کے قائل ہیں تو وہ شام میں روز ہی سیکڑوں مرد و خواتین اور معصوم بچوں کی ہلاکت کو روکنے کے لیے فوراً جنگ بند کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟ شاید ان سے ابھی یہ کام نہیں ہو سکے گا ابھی بشار الاسد زندہ ہیں۔ مغربی رہنما صدام اور قذافی کی ہلاکت پر اگر واقعی غم سے نڈھال ہیں اور ان کے نزدیک دونوں کی ہلاکت سے عراق اور لیبیا تباہ ہو چکے ہیں تو وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بشار الاسد کے بعد شام کا کیا بنے گا؟ دراصل مشرق وسطیٰ میں اس وقت حالات کچھ ایسے خطرناک موڑ پر پہنچ چکے ہیں کہ بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے۔
ان ممالک کی آپس کی رنجشوں اور نفسانفسی نے غیروں کو وہاں اپنا کھیل کھیلنے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے، ان مغربی گندم نما جو فروشوں کو یہاں کے کچھ ممالک اپنا بہی خواہ اور ہمدرد ضرور خیال کر رہے ہیں مگر وہ دوستی کی آڑ میں وقت آنے پر انھیں بھی تباہ و برباد کرنے کا پلان رکھتے ہیں۔
شاید عراق اور لیبیا کو تباہ اور ایران کو رسوا کرنا مغرب کے لیے ممکن نہ ہوتا اگر خطے کے ممالک ان کا ساتھ نہ دیتے اور اب شام کی تباہی میں بھی یہی ممالک شامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ سیاسی صورتحال اور منفی عوامی رجحانات کی عکاسی ایک سعودی شہزادے ولید کے بیان سے بخوبی ہو جاتی ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو وہ فلسطینیوں کے بجائے اسرائیلیوں کا ساتھ دے گا۔