محبت ہریالی ہے
بقول ایک عالم ’’اسلامی تصوف کی تاریخ اصحاب صفہ سے شروع ہوئی جو مسجد نبوی کے ’’صف‘‘ میں رہتے تھے
تصوف کی وضاحت مختلف انداز میں کی جاتی رہی ہے، جس کی رو سے کہا جاتا ہے کہ ''انسان اپنی ذات کو خدا میں کھو کر بقا کے راستے تلاش کرتا ہے۔'' تصوف، خدا شناسی کا جوہر ہے۔بعض اوقات تصوف اور شریعت کو الگ سمجھا جاتا ہے۔ تصوف قدیم علم کی پیروی کے اتھ وقت کے نئے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش ہے۔
بقول ایک عالم ''اسلامی تصوف کی تاریخ اصحاب صفہ سے شروع ہوئی جو مسجد نبوی کے ''صف'' میں رہتے تھے جب کہ صوفی یا تصوف کا لفظ بعد میں استعمال کیا گیا اس سے پہلے اسلامی تعلیمات میں ''احسان'' لفظ ملتا ہے جسے تصوف کے ہم معنی لفظ سمجھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے شیخ ابوالہاشم کو صوفی کے لقب سے نوازا گیا۔
یوں تصوف کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا۔ مختلف ادوار میں تصوف کے مختلف مکتبہ فکر پائے گئے۔ حضرت بایزید بسطامی سے ''الطیفوریہ'' سلسلہ منسوب کیا جاتا ہے۔ شروع میں محاسبیہ، قصاریہ، الھلیہ، الحکیمیہ، الخزاریہ، نوریہ، حفیضی، ساریہ وغیرہ سلسلے مقبول ہوئے جو زیادہ دن نہ چل سکے۔
تصوف کا یہ سفر آگے بڑھتا رہا۔ وقت کے ساتھ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقش بندی سلسلے مقبول ہوئے۔ صوفیائے اکرام نے وحدت الوجود کے حوالے سے یہ سوچ متعارف کرائی کہ خدا تعالیٰ اپنی ذات میں واحد اور لامحدود ہے۔ صوفی شعرا نے اس خیال کو خوبصورت انداز سے اپنی شاعری کا محور بنایا ہے۔یہ کائنات خدا کی عظمت کا اظہار ہے۔
وہ کائنات کے جمال میں بستا ہے۔ انگریزی کے متعدد شعرا نے بھی اس سوچ کی توسیع کی ہے۔ جیسے ولیم ووڈز ورتھ نے اس حقیقت کو Pantheism کا نام دیا ہے۔ اس کی شاعری کی رو سے یہ چاند، ستارے، سورج، پہاڑ، دریا، سبزہ اور سمندر خدا کی عظمت کا اظہار ہیں۔صوفی ازم کا مطلب ہے بے کراں محبت۔ انسانیت سے غیر مشروط محبت جو خامیوں پر انسان کو نہیں دھتکارتی۔ یہ انسان کو پیار محبت سے سمجھا بجھا کے سیدھے راستے پر واپس لے کر آتی ہے۔
صوفی ازم داخلیت کا نام ہے یہ من کی دنیا کا انوکھا سفر ہے، سمجھ باہر سے نہیں ملتی۔ ادراک، وجدان و عرفان باطن کی دریافت ہے کیونکہ مشاہدہ داخلی ہنر ہے۔شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ساتھ حضرت سچل سرمست کا کلام اپنی انفرادیت، معنویت اور گہرائی میں باکمال ہے۔ شاہ لطیف کا لہجہ ٹھنڈا میٹھا اور شبنمی ہے مگر سچل سرمست کا احساس سمندر کی تیز لہروں جیسا ہے۔ سچل کی ذات کی خوداعتمادی، بغاوت اور سائنسی انداز فکر، رومی کے فکر سے قریب تر ہے۔ جیسے یہ شعر:
برف سورج کی طرف دیکھتے ہی پگھل جاتی ہے
اور پانی بن جاتی ہے
پانی سے برف بنی تھی
برف تھی تو وجود رکھتی تھی،
پگھلنے پر آئی
تو ہستی کھو بیٹھی
گلیشئر پگھلتے ہیں تو سو کام ہوتے ہیں۔ اس پانی میں کھیتیاں سرسبز اور شاداب ہوتی ہیں۔ پانی کی کئی خصوصیات ہیں۔ یہ زندگی بخش ہے اور شفاف بناتا ہے۔یہ سائیکل آف لائف ہے۔ زندگی کا پہیہ جو مستقل گھوم رہا ہے۔ آج ایک روپ ہے تو کل دوسرا۔ چیزیں بنتی، بگڑتی، سنورتی اور فنا ہوتی ہیں۔نہ وجود کو بقا ہے، نہ آواز اور رویوں کو۔ سچل وجود سے بے خبر ہونے کو کہتے ہیں مگر خیال سے باخبر ہونے کو زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔ کثرت سے باہر کھلنے کا درس دیتے ہیں۔
خود فریبی سے خودشناسی کا یہ انوکھا درس ہے۔ زندگی کے المیے خود فریبی کے اردگرد گھومتے ہیں۔ مگر خودشناسی کا جوہر انسان کو زندگی کی حقیقت کے قریب لے کر آتا ہے۔ سچل کا یہ شعر مولانا رومی کے احساس سے قریب تر ہے:
''میں اپنی ذات سے آزادی حاصل کر چکا ہوں
اور سچائی بیان کر رہا ہوں
میری آنکھوں سے اشک رواں ہیں
میں اپنا درد دل بیان کر رہا ہوں
میں نہ یہ ہوں اور نہ وہ ہوں
بلکہ سراپا الٰہی راز ہوں''
رومی کہتے ہیں:
ذہن کے قید خانے کا دروازہ کھول دو
ان کا بت توڑ دو
سوچ کے پرندے کو آزاد کر دو
اسے لامحدود فضاؤں میں اڑنے دو
''میں'' کے بدلے ''تم'' کہنا سیکھو
سچل سرمست اپنی شاعری کے وسیلے خود انحصاری کا درس دیتے ہیں۔ اندھی تقلید سے روکتے ہیں۔ انسان کو آنکھیں کھول کے راستے کا تعین کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ راستہ منزل کے بجائے کسی کھائی کی طرف جا رہا ہے۔
سچل، سچائی کے راستے کا انتخاب کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ منفی رویوں اور فرسودہ رسموں کے خلاف ان کے الفاظ کھلی بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ آپ ان رسموں اور رواجوں کو توڑنے کے لیے کہتے ہیں جو انسانی قدروں کے منافی ہیں۔ یہ رویے جو انسانوں کو اونچ نیچ اور تفریق کے خانوں میں بانٹتے ہیں۔
سچل کی شاعری، وہم، گمان، خود فریبی و مبالغہ آرائی سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہے۔صوفی شعرا میں مولانا رومی مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہیں۔ ان کے کلام کی بے باکی و مستی قاری کے احساس کی کھڑکی اَن دیکھی دنیاؤں کی طرف کھول دیتی ہے۔ لیکن خیال کی اس ندرت میں سچل سرمست ان سے کسی طور پیچھے نہیں ہیں۔ بقول سرمست:
میرے دل میں کئی الاؤ بھڑک رہے ہیں
یہ کیفیت میرے عاشق ہونے کا سبب ہے
میخانے کی طرف جاتے ہوئے جب مسجد
کے قریب سے گزر ہوا میرا تو
میں نے تسبیح کو توڑ دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ مجاز اور حقیقی جذبے کے درمیان بہت کم فاصلہ ہے۔ سچل سرمست نے اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں کھل کے عشق مجازی کا اظہار کیا ہے۔ شاہ لطیف کا عاشق، عشق کی آگ میں خاموشی کے ساتھ جلتا ہے۔ جیسے شمع کے گرد پروانے جل کے راکھ ہو جاتے ہیں مگر سچل اظہار میں کسی قسم کی جھجھک یا حجاب کا قائل نہیں۔ وہ ان قاتل آنکھوں کا تذکرہ برملا کرتے ہیں جن آنکھوں نے ان کے من میں محبت کا بیج بویا ہے اور طلب کا صحرا محبوب کی حسین آنکھوں کے تصور سے ہرا بھرا نخلستان بن گیا ہے۔ محبت، ہریالی ہے۔ یہ روح کو سرسبز و شاداب بنا دیتی ہے۔
یہ مجازی محبت، خودشناسی کا ہنر عطا کرتی ہے۔ اب حقیقی محبوب بھی زیادہ دور نہیں۔ دل کی مٹی ذرا نم ہو لینے دو پھر وحدت کے پانی سے آبیاری ہو گی اور وجدان کے جابجا پھول کھلیں گے۔دل اگر انسان کی محبت سے خالی ہے تو احساس کی زرخیزی کیسے پیدا ہو گی۔سچل کی نظر میں محبت، بیج کی طرح ہے جو انتظار کی دھوپ میں درخت بنتا ہے، شاخیں سرسبز ہو کے میوہ دیتی ہیں، بیج یہ مٹھاس ازل سے سمیٹے ہوئے ہے، محبت کو یقین کی بنیاد چاہیے بالکل اسی طرح مٹی کا جوہر ڈھل جانا ہے لہٰذا محبت بھی محبوب کے رنگ میں ڈھل جاتی ہے جیسے کپاس سے کپڑا بنتا ہے۔
چرخہ وسیلہ بنتا ہے پھر رنگ برنگی کپڑے تیار ہوتے ہیں لہٰذا کائنات بھی ایک وسیلے سے خیال کی رنگا رنگی کا۔ بالآخر یہ خیال ایک دن خیال حقیقی سے جا ملے گا، سورج ایک ہی ہے مگر کرنیں بیشمار ہیں لہٰذا یہ دنیاوی محبت بھی اس عظیم ہستی کی محبت کا پرتو ہے۔ پھر سچل فرماتے ہیں گڑ، مصری اور چینی گنے سے بنے ہیں۔ ان کا محور ایک ہی ہے۔ لہٰذا کائنات کو جانو، سمجھو اور پرکھو یہ مشاہدہ تمہیں ابدیت کے راستے پر لے جائے گا۔ جہاں تمام راز بے نقاب ہو جاتے ہیں۔