علم بمقابلہ جہل

بلکہ ہمارا کھانا اس وقت تک ہضم ہی نہیں ہوتا جب تک ہم دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔


نجمہ عالم November 06, 2015
[email protected]

''اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں، دوسرے کا چھیڑو نہیں'' اس مشہور قول پر اگر عمل کر لیا جائے تو ہم کتنی پرسکون اور دلآویز زندگی بسر کر سکتے ہیں، مگر مشکل یہ ہے کہ ہم اس قول کے خلاف عمل پیرا ہیں یعنی اپنا عقیدہ تو جانے کب کا چھوڑ چکے ہیں مگر دوسروں کے عقائد کو ہر وقت چھیڑتے رہتے ہیں۔

بلکہ ہمارا کھانا اس وقت تک ہضم ہی نہیں ہوتا جب تک ہم دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا دوسروں کی آنکھ کا تنکا نکالنے پر ہر وقت کمر بستہ۔ یہ تم نے کیسے کپڑے پہنے ہیں، تم حجاب کیوں لیتی ہو، آج کل تو یہ بالکل دقیانوسی لگتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تعلیمی ادارے طلبا سے کھچا کھچ بھرے پڑے ہیں بلکہ کتنے تو داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

گویا تعلیم کو فروغ ہو رہا ہے مگر علم کا حصول جس کا حصول ترقی پسند دین نے ہر مرد و عورت پر فرض قرار دیا ہے اس کا کہیں دور دور پتہ نہیں۔ علم کیا ہے؟ ہدایت و آگاہی کی روشنی جب کہ جہالت گمراہی اور فکر کا اندھیرا۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 152 میں ارشادِ رب العزت ہے کہ ''اللہ ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لا چکے ہیں کہ انھیں گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سرپرست شیاطین ہیں کہ ان کو ایمان کی روشنی سے نکال کر گمراہی کی تاریکیوں میں ڈال دیتے ہیں، یہی لوگ تو جہنمی ہیں وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔''

حضرت علیؓ سے کسی نے سوال کیا کہ علم کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا علم ہدایت ہے علم روشنی ہے جب کہ جہل گمراہی اور تاریکی ہے، دوسرے شخص نے یہی سوال کیا تو اس کو جواب دیا علم روشن خیالی ہے جب کہ جہل تنگ دلی و تعصب ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیان کردہ ان تعریفوں کی روشنی میں جب ہم آیت مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا سرپرست بناتے ہیں وہ روشن خیال اور ہر طرح کے تعصب سے پاک ہوتے ہیں اور جو تعصب اختیار کرتے ہیں وہ جہل و کفر کے پیروکار اور ان کا سرپرست شیطان ہے۔

ان تینوں حوالوں کے بعد ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم علم حاصل ہی نہیں کر رہے۔ اگر ہم بھاری فیس دے کر جدید تعلیمی اداروں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں تو وہ صرف ڈگری تو ہو سکتی ہے ''علم'' نہیں، کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں ڈگری یافتہ ہونے کے باوجود معاشرے میں ہر قسم کا، ہر سطح پر تعصب روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، سیاسی، علاقائی، لسانی اور مذہبی تعصب تو آج کل اپنے عروج پر ہے، سیاسی جماعتوں نے تعلیمی اداروں میں اپنی ذیلی تنظیمیں بنا کر تعلیمی اداروں کے ماحول کو بھی اس قدر برباد کر دیا ہے کہ علم تو دور تک نظر نہیں آتا اور تعلیمی ادارے ہر طرح کے تعصب کے اکھاڑے بن چکے ہیں۔

سیاسی جماعتیں جب مذہب کی بھی ٹھیکیدار بن جائیں اور اپنا مخصوص مسلک دوسروں پر بھی زبردستی تھوپنے لگیں تو دوسرے مسلک اور خیالات والے کا اس کو قبول نہ کرنے سے تصادم کی صورت پیدا ہوتی ہے پھر ہدایت گمراہی اور روشن خیالی جہالت کے اندھیروں میں ڈھلنے لگتی ہے۔ میرے ذہن ناقص میں یہ بات نہیں سما سکی کہ ہمارے علما ایک غیر متعصب، روشن خیال اور مائل بہ ترقی معاشرہ تشکیل دینے میں کیوں ناکام رہے؟

مسلمانوں کے تمام مسالک کے بنیادی اصول ایک ہیں، سب کا اللہ ایک، رسول ایک، کتاب ہدایت ایک پھر ہمارے درمیان جو معمولی نظریاتی اختلافات ہیں ان کو بنیاد بنا کر ہم ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگا کر قیامت سے قبل ''یومِ حساب'' منا کر جہنمی اور جنتی ہونے کے فیصلے ازخود کیوں کرنے لگے ہیں؟ علما تو صاحبان علم ہیں، معمولی سا شعور رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ یہ اختیار تو صرف ذات واحد کا ہے کہ وہ کس کو واصل جہنم کرے اور کس کو داخل بہشت۔ پھر کتاب ہدایت میں مجھ جیسی کم علم کی نظر سے گزرا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود جوابدہ اور ذمے دار ہو گا حتیٰ کہ والدین اولاد کے بھائی بھائی کے اعمال سے بری الذمہ ہوں گے۔

پھر ہم کیسے اتنی آسانی سے کسی کے عمل کو غلط اور اپنے عمل کو درست قرار دے دیتے ہیں؟ اور اپنی بات زبردستی دوسروں سے منوانے پر کیسے اصرار کرتے ہیں؟ جب کہ ارشاد رب العزت ہے: ''دین میں کوئی جبر نہیں۔''

چند روز قبل جامعہ کراچی میں لڑکیوں کے کرکٹ کھیلنے پر کئی لڑکیوں کو ایک طلبا تنظیم کے کارکنان نے زدوکوب کیا وجہ کیا تھی یہی کہ وہ لڑکیوں کا کرکٹ کھیلنا اپنے نظریے کے خلاف سمجھتے تھے اب ان سے پوچھیے کہ غلط کام کو غلط طریقے سے روکنا کیا شریفانہ، مہذب اور اسلامی طریقہ ہے؟ میں نے جب حیات رسول مقبولؐ پر نظر ڈالی تو مجھے صفحہ تاریخ پر واقعہ طائف ثبت ملا کہ طائف والوں نے ختمی المرتبؐ کو لہولہان کر دیا، جبرئیل امین حضورؐ کی مدد کے لیے حاضر ہوئے اور اہل طائف کو برباد کرنے کی اجازت طلب کی۔

سردار انبیاؐ نے بے چین ہو کر فرمایا کہ ''نہیں میں ان کی آنے والی نسلوں میں مومن دیکھ رہا ہوں۔'' یعنی آپؐ نے برائی کے خاتمے کے لیے بروں کو ختم کرنے کی مخالفت کی، اسلامی طریقہ ہدایت ہے کہ برائی کو اپنے مثبت رویے سے ختم کرنے کی کوشش کرو، اگر ہم بروں کو ختم کرتے رہیں گے تو برائی اپنی جگہ موجود رہے گی اور برے پہلے سے زیادہ تعداد میں سامنے آتے رہیں گے۔ اگر آپ برائی ختم کرنے میں مخلص ہیں تو برے افراد کو درست راہ دکھانے کے لیے نرم رویہ اختیار کرنا اور ان کی جائز ضروریات زندگی فراہم کرنے سے بہت بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اس طلبا تنظیم کے سخت رویے یعنی لڑکیوں کو زد وکوب کرنے اور پرتشدد انداز کے خلاف بطور احتجاج لڑکیوں نے جامعہ کے انتظامی بلاک کے سامنے کرکٹ کھیل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی کوشش کی تو اس کی کوریج کے لیے آنے والے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان کو ایک بلاک میں مقید کر کے باہر جانے سے روک دیا گیا۔ اس کے علاوہ انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر ان کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے روکنے کی کوشش بھی کی گئی۔

انھیں زبردستی گرفتار کر کے سیکیورٹی اہلکار نے اپنی گاڑیوں میں ڈالنے کی بھی کوشش کی جس کے نتیجے میں ایک رپورٹر کے کپڑے پھٹ گئے اور ایک کا موبائل فون چھین لیا گیا۔ اس صورتحال کی نگرانی جامعہ کے سیکیورٹی انچارج بذات خود فرما رہے تھے انھوں نے صحافیوں کو نہ صرف دھمکیاں دیں بلکہ جامعہ کراچی کے ایڈمن بلاک کی سمت آنے اور جانے کے راستوں کو بھی بند کر دیا، سیکیورٹی اہلکاروں نے رجسٹرار اور وائس چانسلر کی بھی کوئی بات نہ سنی حتیٰ کہ وی سی مردہ باد کے نعرے بھی لگوائے گئے۔

انتظامیہ کی مداخلت پر بھی سیکیورٹی اہلکاروں نے راستے کھولنے سے انکار کر دیا۔ وائس چانسلر کو خود آ کر صحافیوں کو انتظامی عمارت سے باہر جانے دینے کی درخواست کرنا پڑی، برسوں سے جامعہ میں مقیم رینجرز نے بھی صحافیوں کو چھڑانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس ساری صورتحال پر حسب روایات گورنر سندھ نے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایات جاری کر دیں اور وی سی صاحب نے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جو تین روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ امید واثق ہے جیسے ہر مسئلے پر کمیٹیاں بنتی رہتی ہیں اور ان کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آ سکتی یہی کچھ اس کمیٹی کے ساتھ بھی ہو گا۔

اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اعلیٰ ڈگری یافتہ افراد کو علم اور پیشہ ورانہ تہذیب چھو کر بھی گئی ہے؟ جو اپنے افسر اعلیٰ کے احکامات کی نہ صرف کھلی خلاف ورزی کرتے رہے بلکہ ان کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگوا کر نہ صرف اپنی ذمے داری سے بدیانتی اختیار کرتے ہوئے اس واقعے میں ایک فریق کا کردار بھی ادا کرتے رہے۔ یہ سارا واقعہ ''علم کی روشنی اور رواداری'' کی مثال ہے یا جہالت کی تاریکی اور تعصب کی؟ جس ملک میں تعلیمی اداروں میں اس قدر بدنظمی اور طاقت کا مظاہرہ ہو وہاں ''علم کا فروغ'' ممکن ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں