صحیح سمت کا تعین
62 سال کی عمر میں محبت کی شادی، پھر 9 ماہ بعد طلاق خبر تو بنتی ہے
صحافت ایک معزز اور ذمے دار پیشہ ہے، جو لوگ بحیثیت صحافی کام کر رہے ہیں وہ یقینا ایک بہت بڑی ذمے داری لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔ پشاور میں پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی دوسری طلاق کے سوال پر ایک صحافی پر برس پڑے۔ جب کہ اپنی دوسری شادی کے وقت وہ خوش بھی تھے اور خوب خوب ٹی وی کوریج بھی ہوئی کیونکہ وہ ایک جماعت کے سربراہ ہیں اور خبروں میں رہنے کے ہنر کو بھی سمجھتے ہیں اور چوبیس گھنٹے صحافیوں سے تعلق کا سلسلہ بھی رہتا ہے، اس لیے یہ ایک بہت ہی Artificial رد عمل کا انھوں نے مظاہرہ کیا اور صحافی پر برس پڑے۔
62 سال کی عمر میں محبت کی شادی، پھر 9 ماہ بعد طلاق خبر تو بنتی ہے ناں، کوئی شک نہیں کہ کسی بھی پارٹی کے سربراہ کو پسند کرنے والے اور ناپسند کرنے والے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، سب کے اپنے نظریات اور سب کی اپنی سوچ ہوتی ہے کوئی بھی شخص کسی کی سوچ پر پابندی نہیں لگا سکتا، ہاں اگر سوال آپ کو پسند نہ آئیں تو بہتر ہے کہ کوئی بھی اس سوال کو پاس کردیں یا جواب نہ دیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو بحیثیت لیڈر منوانا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوم کے لیے اپنے ملک کے لیے کچھ کرسکیں تو ایک حد تک ان کی اپنی ذاتی زندگی تقریباً ختم ہی ہوچکی ہوتی ہے۔بہت سی خواہشات کو وہ قربان کردیتے ہیں، دن و رات، گرمی، سردی، موسموں کے تغیرات اور بہت سی آسائشیں، بہت سے دکھ، سب کچھ ان کے مشن کے لیے ایک نقطے پر آکر جم جاتے ہیں۔ ایک فلمی ہیرو اور ایک سیاسی ہیرو میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
فلمی ہیرو سر سے پیر تک سج دھج کے ناچتے گاتے ہوئے دلوں تک پہنچتا ہے جب کہ سیاسی ہیرو ایک سخت جدوجہد کے بعد ہیرو بنتا ہے۔ پھر اس ہیرو کی ہر چھوٹی بڑی بات سے عوام کو لگاؤ ہوجاتا ہے وہ ہر پل اس کی خبر رکھنا چاہتے ہیں اور اس کو ایک عالم فاضل، پارسا کا رتبہ بھی مل جاتا ہے۔ اب یہ اس سیاسی ہیرو پر Depend کرتا ہے کہ وہ اپنے ہیرو ازم کو کیسے لے کر چلتا ہے اور کن بلندیوں تک لے جاسکتا ہے۔مگر قربانی اس کو بہت ساری چیزوں کی دینی پڑتی ہے۔ بہت سی خواہشات کے گلے گھوٹنے پڑتے ہیں تاکہ اس کی عزت عوام میں قائم رہے اور لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں کہ اگر کبھی اس سے کچھ غلط فیصلے ہوں تو عوام خود اس کا دفاع کریں۔
تحریک انصاف خواتین اور نوجوانوں کی بڑی پسندیدہ پارٹی کے طور پر ابھری۔ 2013ء کے الیکشن میں وہ لوگ بھی ووٹ دینے والی لائنوں میں کھڑے ہوئے جنھوں نے شاید پہلی مرتبہ ووٹ کاسٹ کیا ہوگا، لاکھوں کی تعداد میں عوام جلسوں میں شریک ہوئے اور کروڑوں روپے اس جلسے جلوسوں پر خرچ کیے گئے۔
کامیابی اور عروج کے اس دور میں اگر یہ دیکھا جائے کہ گول کتنے achieve کیے گئے، طریقہ کار کتنا صحیح رہا، کتنے لوگ پارٹی کے مخلص ہیں اور رقم کا استعمال کتنا مثبت رہا؟
تجزیہ کار بہت ساری باتیں کرتے ہیں اور آئینہ بھی دکھاتے ہیں پھر شہرت کا زعم بھی عجیب خاصیت رکھتا ہے کہ ''بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا'' بہرحال کیونکہ PTIمیں بھی پرانے تجربہ کار سیاستدان بھی ہیں اور نئے آنے والے بھی اور ظاہر ہے کہ جو پرانے تجربہ کار سیاست دان ہیں وہ اپنے تجربے کا استعمال تو ضرور کریں گے مگر دیکھنے والی بات یہ ہے اب یہ پارٹی جس مقام پر ہے یہ اپنے آپ کو کس طرح منظم رکھ پاتی ہے اور آگے آنے والے دنوں میں اپنے آپ کے لیے کتنی مضبوط جگہ بناتی ہے۔
پیپلز پارٹی میں بھٹو کا گلیمر اور ان کی ذہانت آج تک زندہ ہے گوکہ تمام خاندان اس سیاست کی نذر ہوگیا مگر پیپلز پارٹی کا ادنیٰ ورکر بھی اس پارٹی کے لیے قربانیوں کی تاریخ رکھتا ہے۔
بے نظیر بھٹوکی شہادت کے بعد سے آج تک پیپلز پارٹی کی قیادت اور اس کا مقام بھی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا کہ صرف اور صرف لوٹ کھسوٹ اور جتنا ہوسکے اتنا بنالیا جائے کہ اصول ہی نظر آتے ہیں۔ عمران خان کو بہت سنجیدگی کے ساتھ اپنے لیے کچھ اصول بنانے چاہئیں کہ وہ کوئی فلمی ہیرو نہیں ہیں، اگر وہ اپنے آپ کو ایک مقام پر کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے لیے انھیں چھوٹے مقامات سے نکلنا ہوگا اور اپنی لبرل سوچ کو بھی ٹٹولنا ہوگا۔
عمران خان اور ریحام کی شادی اور طلاق، دونوں پر تجزیہ نگاروں کے تجزیے جاری ہیں کچھ کے خیال میں ریحام اپنا مشن مکمل کرگئی کچھ کے خیال میں عمران صاحب عشق میں مبتلا ہونے کے لیے اب اس کے Side Effects برداشت کر رہے ہیں۔ اگر ریحام کسی مشن پر تھیں تو یقینا کچھ دنوں کے بعد کئی دھماکے دار خبریں ملیں گی اور ان خبروں سے عمران خان کو سیاسی نقصان ہوگا۔ اور اگر عمران، ریحام کا لین دین ریحام کے اصولوں پر ہوجائے گا تو شاید امن کی فضا ہوگی۔ بزنس کا بزنس اور سیاست کی سیاست۔
مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ PTIکے کارکن جو واقعی ایک نئے پاکستان کی امید لگاتے ہیں اور ہر جگہ نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں کیا اس نئے پاکستان میں مغلیہ سلطنت کے بادشاہوں جیسی طرز زندگی کی گنجائش نظر آتی ہے؟ کیا نیا پاکستان پارٹی سربراہ کو اپنی من مانی کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ جس میں پارٹی کے جاں نثار اور پارٹی کے لیے شہید ہونے والے بے قیمت ہوں گے، محلوں کی رہائش، جہازوں کا سفر وغیرہ وغیرہ۔ کیا نئے پاکستان کی بھی بنیادیں ہوں گی؟
NA-122 میں علیم خان کی الیکشن مہم، اخراجات اور نتائج سب کے سامنے ہیں۔ بھابھی جی آئی اور چلی بھی گئی اس پورے بھابھی جی کے ہوتے ہوئے کتنا نقصان پارٹی سربراہ اور پارٹی کو اٹھانا پڑا یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔
کسی بھی کام کے لیے مناسبت کا ہونا بہت ضروری ہے کہ جو بھی کام آپ کرنے جا رہے ہیں اس میں مشورہ ضروری ہے رائے ضروری ہے، مستقبل اور حال دونوں پر کیا اثرات ہوں گے اس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
ایک واقعہ آپ کو سناتی ہوں، بادشاہ اکبر نے چاہا کہ ایک مہر پر ''اللہ اکبر'' کندہ کرایا جائے، بادشاہ اکبر کو اس جدت کے لیے اس کے اپنے ذاتی رسوخ کے لوگوں نے اس پر مائل کیا۔ بادشاہ کو یہ آئیڈیا اچھا لگا۔ بادشاہ اکبر نے اس پر رائے طلب کی، ایک بزرگ حاجی ابراہیم کی رائے بھی طلب کی گئی۔
حاجی ابراہیم نے فرمایا کہ ''اللہ اکبر کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک اللہ بہت بڑا ہے اور دوسرا ''اکبر خدا ہے'' اگر اس کی بجائے ''ولذکر اللہ اکبر'' نقش کروائیں تو بہتر ہوگا۔ ''
اکبر کے پاس جب یہ رائے گئی تو انھوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ تم معنی کو دوسری طرف کیوں لے گئے؟ بزرگ ابراہیم صاحب نے جواب دیا کہ ''میں نے دونوں معنی پیش کردیے ہیں۔'' بادشاہ نے کہا صرف مناسبت لفظی ہے اور کوئی مدعا نہیں۔ ابراہیم صاحب نے جواب دیا کہ خدا کو شرکت اور ایسی مناسبت پسند نہیں ہے۔
سمجھنے والوں کے لیے چند حکمتیں ہی بہت ہوتی ہیں اور ناسمجھنے والوں کے لیے کتاب بھی کافی نہیں۔ مسلمانوں کے دور حکومت اور مسلمان حکمرانوں کے زندگی کے قصے آج تک تاریخ کا حصہ ہے جوکہ عبرت بھی ہے اور حکمت بھی۔ نئے پاکستان کے لیے ذہنوں کو اور سوچوں کو بھی نیا کرنا ہوگا۔
پارٹی قیادت منافقت کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ بہترین کردار اور بہترین حکمت عملی کی بنیاد پر ہوگی تو رزلٹ بہترین ہوں گے۔ چالاکیاں، منافقت،لالچ، مکاریاں یہ سب کا ورثہ نہیں ہوتیں وہ اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں جو دینے والا ہاتھ رکھتے ہیں اور کم ظرفوں کے دامن ہمیشہ پھیلے ہی رہتے ہیں۔ اللہ کیناراضی بھی ایسے ہی کم ظرفوں کے حصے میں آتی ہے جو دولت شہرت کو ہی اپنی زندگیوں کا مقصد بنا لیتے ہیں اور آخر میں ان کا انجام تمام لوگوں کے لیے عبرت ہی ہوتا ہے۔
ہمارا ملک اور ہمارے لوگ ہی حقیقت ہیں اور اس حقیقت میں مزید رنگ بھرنے کے لیے سب کے سب لوگوں کو دشمنوں کی چالوں کو سمجھنا ہوگا۔
رزق اور زندگی و موت عزت، دولت، شہرت، سب کا سب صرف اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ صحیح سمت کا انتخاب تو ہم سب کو خود ہی کرنا پڑے گا اور اس صحیح سمت کے لیے محنت اور جدوجہد بھی لازمی ہے۔ اللہ نے عورت اور مرد دونوں کو حقوق سے نوازا ہے بلکہ عورت کے لیے زیادہ عزت و احترام عطا فرمایا۔ مگر اپنی ہی چوائس سے خواتین اپنے ہی آپ کو ایک Objective کی طرح بنائے اور پھر شکوے شکایات زمانے سے کیے جائیں تو پھر کیا کیجیے؟