اقبال چھٹی اور لبرل پاکستان

حیرانی تو تب ہوئی جب حکومت اور چھٹی کے مخالفین کی جانب سے اداروں کی کارکردگی متاثر ہونے کے خدشات کا اظہار کیا گیا۔


پہلے نصاب سے اقبال کی شاعری اور نصاب میں موجود مضامین کو حذف کیا اور اب یوم اقبال پر چھٹی ختم کرکے اِس دن کی اہمیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فوٹو:فائل

نومبر آتے ہی کسان اپنے کھیتوں کی جانب رخ کرتے ہیں، گندم کی بوائی کے لئے زمین کی تیاری اور گندم کی کاشت شروع ہوجاتی ہے، درختوں کے پتے خزاں میں گرنا شروع ہوجاتے ہیں، شعرائے کرام ادبی بیٹھکیں سجا لیتے ہیں، رومانوی شاعری تخلیق ہوتی ہے اور ہوا میں خنکی آجاتی ہے، یہی نومبر کا مہینہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ کی پیدائش کا مہینہ بھی ہے، اس ماہ میں ادبی ذوق کے حامل افراد اقبال کی شاعری کے پرچار کے لئے کوششیں کرتے ہیں، درس خودی سے لے کر اُمتِ مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے تذکرے ہوتے ہیں مگر اس سال نومبر کا آغاز کچھ اچھا نہیں ہوا، حکومتِ پاکستان نے یومِ اقبال کی عام تعطیل ختم کرنے کا اعلان کیا اور عذر تلاش کیا کہ تعطیل کی وجہ سے اداروں کی کارکرگی متاثر ہوتی ہے۔



تعطیل ختم ہونے کا اعلان ہوتے ہی اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جانے لگیں، طرح طرح کے بیانات اور تجزیے ہونے لگے، یومِ اقبال کی چھٹی کیوں نہیں کی گئی؟ اس چھٹی کا علامہ اقبالؒ کی روح کو کیا فائدہ ہونا؟چھٹی ختم کرکے بہت اچھا فیصلہ کیا گیا، وغیرہ وغیرہ مگر اخبارات اور ٹی وی پر موجود تجزیہ نگاروں کو تو خیر اپنا منجن بیچنا ہی تھا، کیوں کہ منجن نہ بکے تو ان کے گھر کا چولہا کہاں سے جلے، مگر سوشل میڈیا پر تو ایک طوفانِ بدتمیزی بپا ہوگیا، سرکار کے اعلان کی حمایت اور مخالفت میں توہین اقبال ؒ کی گئی، کارٹونز بنائے گئے، اشعار کی پیروڈی تخلیق ہوئی۔ الغرض اقبال ؒ اِس قوم کے متنازعہ ترین فرد بن گئے، جی ہاں وہی اقبال جنہوں نے اس قوم کو خودی کا درس دیا، وہی حکیم الامت جنہوں نے منتشر اُمت کو یکجا کرنے کا درس دیا، وہی اقبال کہ جو نوجوانوں سے قوم کی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے، جی ہاں مصورِ پاکستان۔



سوشل میڈیا تو اس بگڑے ہوئے ہاتھی کی طرح بن گیا ہے جو راستے میں آنے والی ہر شے کو پاؤں تلے روندتا ہوا ملیامیٹ کردیتا ہے، مگر اس میں قصور تو ہمارے حاکمین کا ہے جو کہ کرسیِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں اور اس کرسی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، مجھے حیرانی تو تب ہوئی جب حکومت اور چھٹی کے مخالفین کی جانب سے اداروں کی کارکردگی متاثر ہونے کے خدشات کا اظہار کیا گیا اور یہ نقطہ بھی اٹھایا کہ چھٹی کا اقبال کو فائدہ کیا ہے؟ جناب عالی ذرا سرکاری تعطیلات کا کیلنڈر تو اٹھا کر دیکھیں، 5 مئی کو سرکاری چھٹی ہوتی ہے جس میں آپ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں، میں حیران ہوں اس چھٹی کا کشمیری عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اس چھٹی والے دن بھی تو پاکستانی عوام سینما گھروں میں لگی انڈین مووی دیکھتے یا گھر میں کیبل پر چلتے انڈین ڈراموں میں ساس بہو کے جھگڑے ہی تو دیکھتے ہیں۔



یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر چھٹی کا مزدور کو کیا فائدہ؟ وہی مزدور جس کے لئے آپ دن مناتے ہیں، اپنے ہی دن کے لئے آپ کی تقریبات کے انتظامات میں لگا ہوتا ہے، کبھی صاحب بہادر کے راستے کی صفائی کر رہا ہوتا ہے تو کبھی کرسیوں کی ترتیب درست کررہا ہوتا ہے، ہاں اس دن چھٹی ہونے کی وجہ سے مزدوروں کو کام نہیں ملتا اور مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر مزدور ہی کے بچے بھوکے سورہے ہوتے ہیں۔ یوم پاکستان اور یوم آزادی کی چھٹی بھی تو ہوتی ہے، تو جناب اس چھٹی سے ملک کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ ہاں سارا دن آپ آرام سے سوتے ہیں اور رات کو ہلا گلا کرتے ہیں اور اگر اس شور شرابے میں بجلی چلی جائے تو اس دیس کے دن پر بھی اپنے ملک کو گالیاں دینے اور کوسنے سے نہیں جھجکتے، جناب ذرا ایک لمحے کو غور فرمائیں عیدین، میلاد، عاشورہ محرم، کرسمس کی چھٹیاں منانے کا اسلام کو کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ صرف ہماری ذاتی تسکین کے لئے ہی ہم انہیں بھی ضائع کرتے ہیں۔

میرا خیال تو یہ ہے کہ ان بابرکت دنوں میں چھٹیاں کرنے کی بجائے زیادہ کام کریں تاکہ دن منانے کا مقصد بھی حاصل ہو اور ملک کو فائدہ بھی ہو، مگر آپ سب کا اعتراض تو یوم اقبالؒ کی چھٹی پر ہے کہ بس یہ چھٹی نہیں ہونی چاہئیے۔ اہلِ دانش و اہلِ اقتدار احباب آپ سے اتنی التماس ہے کہ اقبال کو ایک متنازعہ شخصیت نہ بنائیں اور نہ ہی اپنی نظریات کے پرچار کے لئے علامہ اقبال کی روح کو اذیت دیں، مجھے تو اربابِ اختیار کے رویے پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے، پوری دنیا اقبال کے نظریات سے رہنمائی لے رہی اور ہماری سرکار نے پہلے نصاب سے اقبال کی شاعری اور اقبال پر موجود مضامین کو خذف کیا اور اب صرف یوم اقبال نے ہی قوم کو اقبال سے جوڑے رکھا تھا کہ اِس کو بھی نکال پھینکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔



حکومت کی جانب سے چھٹی نہ کرنے کے اعلان کی حمایت اپوزیشن کے سب سے مضبوط کردار عمران خان نے بھی کردی۔ اس حمایت کے بعد علامہ اقبال ؒ کا یوم پیدائش اور اس سے جڑی تمام بات مزید مشکوک ہوگئی۔ پریشان کن بات تو یہ ہے کہ تعطیل ختم کرنے کے اگلے ہی روز وزیراعظم پاکستان ''سرمایہ کاری کانفرنس'' میں شریک ہوتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ملک کی معاشی ترقی ''لبرل پاکستان'' میں ہے۔ جناب وزیراعظم، پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نظرئیے کے مطابق ہی وجود میں آیا، اِس بحث کے لئے یہ بلاگ ناکافی ہے، اِس لیے یہ بحث پھر سہی، جناب وزیراعظم! میں یہاں اقبال ؒ ہی کا معاشی نظریہ پیش کروں گا جس سے شاید آپ کو مصور پاکستان کی جانب سے پاکستان کی بنائی جانے والی تصویر کی سمجھ آجائے۔

اقبال نے اپنی شاعری اور فلسفیانہ تحریروں میں عمر بھر نہ صرف معاشی ظلم کے خلاف احتجاج کیا ہے بلکہ اس ظلم کو مٹا کر معاشی انصاف کے ایک نئے نظام کے قیام کی بنیادیں بھی فراہم کی ہیں۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اْس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو

ایک اور مختصر نظم بعنوان ''گدائی'' میں اْنھوں نے سرمایہ و محنت کے اسرار و رموز کو یوں منکشف کیا ہے،
مے کدے میں ایک دن اک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے؟
کس کی عریانی نے بخشی ہے اسے زرّیں قبا؟
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے؟ مردِ غریب و بے نوا
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے، میر و سلطاں سب گدا!

اپنے وطن کی معاشی پسماندگی اور اُس سے پیدا ہونے والے اخلاقی اور روحانی امراض کا جیسا جیتا جاگتا احساس علامہ اقبال کے ہاں پایا جاتا ہے اس کی مثال ان کے عہد میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی، اپنی پہلی کتاب بعنوان ''علم الاقتصاد'' کے دیباچہ میں اقبال لکھتے ہیں،

''غریبی قویٰ انسانی پر بہت بُرا اثر ڈالتی ہے، بلکہ بسا اوقات انسانی رُوح کے مجلّا آئینہ کو اس قدر زنگ آلود کردیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا وجود و عدم برابر ہوجاتا ہے۔ کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دُکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لئے خاموش ہوجائیں اور ایک درد مند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا دردناک نظارہ ہمیشہ کے لئے صفحہ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے''۔

آج ہمارے اقتصادی منصوبہ سازوں کو ایک نظر علامہ اقبال کی اس پہلی کتاب پر بھی ڈال لینی چاہئے۔ اقبال نے اپنی شاعری اور اپنی فلسفیانہ تحریروں میں عمر بھر نہ صرف معاشی ظلم کے خلاف احتجاج کیا ہے بلکہ اُس ظلم کو مٹا کر معاشی انصاف کے ایک نئے نظام کے قیام کی بنیادیں بھی فراہم کی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم اقبال کے تصورات کو پاکستان میں ایک عادلانہ معاشی نظام کے نفاذ کی بنیاد بنائیں۔ جب تک پاکستان میں معاشی انصاف کے اسلامی تصورات عملی طور پر نافذ نہیں کر دئیے جاتے تب تک ہمارے ہاں جمہوریت کا نظام بھی اقبال کے لفظوں میں صرف ''جمہوری تماشہ'' ہی بنا رہے گا۔

[poll id="750"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں