اب دنیا یک قطبی نہیں رہی روسچین اور پاکستان کا اُبھرتا اتحاد

وسیع وعریض معاشی خطّوں میں جغرافیائی اہمیت نے وطن عزیز کو دو عالمی قوتوں کے لیے بہت پسندیدہ بنا دیا…تحقیقی رپورٹ


سید عاصم محمود November 08, 2015
وسیع وعریض معاشی خطّوں میں جغرافیائی اہمیت نے وطن عزیز کو دو عالمی قوتوں کے لیے بہت پسندیدہ بنا دیا…تحقیقی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

وسط اکتوبر 2015ء میں روس اور پاکستان کے مابین توانائی کا ایک اہم معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت روس کی سرکاری کمپنی، آر ٹی گلوبل ریسورسیز کراچی تا لاہور 1100 کلومیٹر طویل پائپ لائن تعمیر کرے گی۔ اس کے ذریعے ایل این جی گیس کراچی سے لاہور پہنچانا مقصود ہے۔

یہ معاہدہ پاکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہے کہ اس کی مدد سے مستقبل میں توانائی کے بحران سے نمٹنا آسان ہو گا۔ یہ پائپ لائن جون 2017ء تک مکمل ہو گی۔ پائپ لائن ہر سال 12.4 ارب کیوبک فٹ ایل این جی گیس پنجاب تک پہنچائے گی۔ آدھی گیس تو 3500 میگاواٹ بجلی بنانے میں استعمال ہو گی، بقیہ گیس سی این جی، کھاد اور صنعتی سیکٹروں میں کھپ جائے گی۔ پائپ لائن کی تعمیر کے لیے روس دو ارب ڈالر (دو کھرب روپے سے زائد رقم) کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

٭٭

جغرافیائی سیاسیات (Geopolitics) عصر حاضر میں ایک اہم علم کا درجہ رکھتا ہے۔ اس علم میں بین الاقوامی اور قومی سیاست پر جغرافیہ کے اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس علم کے ماہرین کا کہنا ہے ''جغرافیائی سیاست میں بعض اوقات حقائق اور حکمت عملیاں ایسی حیران کن سرعت سے بدلتی ہیں کہ کوئی ان کا ادراک نہیں کر پاتا۔ یہ تبدیلیاں چشم زدن میں ممالک کا مستقبل تبدیل کر ڈالتی ہیں۔''کچھ ایسا ہی معاملہ روس اور پاکستان کے مابین بھی جنم لے چکا ہے۔

سردجنگ کے دوران سوویت یونین اور پاکستان کے تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔ 1979ء میں افغان جنگ شروع ہونے کے بعد تو روس اور پاکستان دشمن ملک سمجھے جانے لگے۔ جب 1990ء میں سوویت یونین ٹوٹ گیا تو نئی روسی حکومت نے بھی بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔تب روس اور پاکستان کی قربت دیوانے کا خواب معلوم ہوتی تھی۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا مسلسل تبدیلیوں کی زد میں رہتی ہے۔بھارت اور روس کے مابین تاریخی و دیرپا تعلقات میں پہلی دراڑ اکیسویں صدی کے اوائل میں پڑی جب بھارتی حکومت اور امریکا کی دوستی بڑھنے لگی۔ روسیوں نے دونوں ممالک کے معاشی وعسکری روابط بڑھتے دیکھے تو ناک بھنوں چڑھائی مگر کوئی مخالفانہ قدم نہیں اٹھایا۔ البتہ روس اور بھارت کے تعلقات میں سردمہری ضرور آ گئی۔

پاکستان سے متعلق روسی حکمت عملی میں پچھلے سال نمایاں مثبت تبدیلی نے جنم لیا۔ 2014ء کے موسم گرما میں یوکرائن تنازع نے روس اور مغرب (امریکا و یورپ) کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا۔ روسیوں نے کریمیا پر قبضہ کیا تو روس پر معاشی پابندیاں لگ گئیں۔ ان پابندیوں نے روسی معیشت کو خاصا نقصان پہنچایا۔ نیز کئی روسی کمپنیوں کا منافع کم ہو گیا جو مغربی ممالک میں کاروبار کر رہی تھیں۔اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے روس پھر ایشیائی ممالک خصوصاً چین اور آسیان تنظیم کے ملکوں (انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور وغیرہ) کی سمت متوجہ ہوا۔

چین کو اپنی معاشی ترقی کے لیے کثیر مقدار میں ایندھن درکار ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال روس فراہم کر سکتا ہے۔یوں معاشی مفادات نے دونوں بڑی عالمی قوتوں کو قریب کر دیا۔ پچھلے ایک برس میں روس اور چین اربوں ڈالر کے مختلف معاہدے کر چکے ہیں۔ دونوں 2020ء تک باہمی تجارت کی مالیت ''دو سو ارب ڈالر'' تک لے جانا چاہتے ہیں۔

چین اور روس کی یہ بھی تمنا ہے کہ دنیا پر مغرب کی اجارہ داری ختم کی جائے ۔اسی واسطے طویل عرصے بعد روس نے بطورعالمی سپرپاور انگڑائی لی اور اپنی فوج شام بھجوا دی۔ امریکا اور برطانیہ روسی صدر پیوٹن کا منہ تکتے رہ گئے۔ شام کی خانہ جنگی میں روس کی شمولیت آشکارا کرتی ہے کہ روسی حکمران طبقہ اب پھر مغرب خصوصاً امریکا اوربرطانیہ سے پنجہ آزمائی چاہتا ہے۔سو روس اپنے اتحادیوں کو بے یار ومددگار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔

براعظم ایشیا میں پاکستان چین کا قریبی اتحادی ہے۔ پاکستانیوں اور امریکیوں کی قربت بھی اس دوستی کو متاثر نہیں کر سکی۔ دلچسپ بات یہ کہ اربوں ڈالر امداد دینے کے باوجود امریکی عام پاکستانیوں کے دل میں گھر نہیں کر سکے... وہ آج بھی چین کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ شاید وجہ یہ کہ ماضی میں جب بھی پاکستان پہ بُرا وقت آیا، امریکی کھل کر اس کی مدد نہیں کر سکے۔ پاکستانی عوام میں یہ خیال بھی عام ہے کہ ہمیں ہزارہا میل دور بیٹھے دوست کے بجائے قریبی طاقتور دوستوں (چین وروس) سے دوستی کرنا چاہیے۔

چینیوں کی ایما پر ہی روس او رپاکستان بھی پچھلے ایک سال کے دوران بہت نزدیک آ چکے۔ اس قربت کا پہلا مظہر جولائی 2014ء میں سامنے آیا جب روس نے پاکستان کو اسلحہ فروخت کرنے پر عائد برسوں پرانی پابندی اٹھا لی۔

اس پر روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار، بھارت بہت تلملایا مگر روسیوں نے بھارتی حکومت کی پروا نہ کی۔ اس کے بعد عسکری، معاشی اور ثقافتی سطح پر پاکستان اور روس کے تعلقات میں تیزی سے بہتری آنے لگی۔ روسی یونیورسٹیاں پاکستانی طلبہ وطالبات کو سکالرشپ دینے لگیں۔ پاکستانی کاروباری و صنعت کار روس کا رخ کرنے لگے۔

فروری 2015ء میں یہ خوشخبری سننے کو ملی کہ روس نے پاکستان کو کلیموف آر ڈی 93 انجن براہ راست فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ انجن پاکستانی و چینی ساختہ جے ایف 17 تھنڈر جنگی طیارے میں لگتا ہے۔ روسی پہلے اسے صرف چین کو فروخت کرتے تھے۔ یہ پاکستان اور روس کے بڑھتے عسکری تعاون کی واضح مثال ہے۔

ماہرین عسکریات کا کہنا ہے جنرل راحیل شریف کی آمد کے بعد دونوں ممالک کا عسکری تعاون کئی گنا زیادہ بڑھ چکا ہے۔اگست 2015ء میں روس نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو چار ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر فروخت کرے گا۔ یہ دنیا کے جدید ترین ہیلی کاپٹروں میں سے ایک ہے۔ نیز پاکستان روسی ساختہ جدید جنگی طیارے، سخوئی ایس یو 35 بھی خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

حالات سے عیاں ہے، جغرافیائی سیاست چین اور روس، دونوں بڑی طاقتوں کی نگاہ میں پاکستان کی اہمیت بڑھا چکی۔ افغانستان میں اربوں ڈالر کی معدنیات موجود ہیں۔ انہی سے فائدہ اٹھانے کے لیے امریکی افغان سرزمین چھوڑنے کو تیار نہیں۔ جبکہ چین اور روس کی نگاہیں بھی ان معدنیات پر جمی ہیں۔ معدنیات حاصل کرنے کی دوڑ میں امریکی بھارتیوں کو ساتھ ملانا چاہتے ہیں جبکہ چین اور روس پاکستان کا قرب پانے کے خواہش مند ہیں۔

اُدھر جنوبی بحیرہ چین میں بھی تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ چین کا دعویٰ ہے کہ بیشتر ذخائر اس کی ملکیت ہیں تاہم امریکا اور اس کے حواری... ویت نام، فلپائن، جاپان اور بھارت چینی دعوی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔اسی لیے علاقے میں خاصی ٹینشن ہے۔حال ہی میں امریکا اور چین کے مابین تلخ کلامی ہوئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے،مستقبل میں توانائی اور جغرافیہ سے منسلک سیاسی مفادات دنیا میں دو محور(Axis) ابھار سکتے ہیں۔ پہلا چین، روس اور پاکستان جبکہ دوسرا امریکا، برطانیہ، بھارت وغیرہ پر مشتمل ہو گا۔ پاکستانی حکمران طبقے کو چاہیے کہ وہ وطن عزیز کی بڑھتی جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کی کوشش کرے۔ یوں پاکستان غربت وجہالت سے چھٹکارا پا کر طاقتور ملک بن سکتا ہے۔

پاکستان کا دل جیتنے کی جنگ
وطن عزیز کا جغرافیائی محل وقوع اسے چین ہی نہیں روس اور امریکا کی نظر میں بھی اہم بنا چکا ہے۔ چنانچہ تینوں عالمی طاقتیں کوشش کر رہی ہیں کہ وہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ اپنے قریب کر سکیں۔ پاکستانیوں کا دل جیتنے کے لئے ان کے مابین جاری رسہ کشی کا مظہر اسی سال دیکھنے کو ملا۔

پاک فوج پہاڑی علاقوں میں دہشت گردوں سے نبردآزما تھی۔ ان علاقوں میں جنگی ہیلی کاپٹر دشمن کے خلاف زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ چونکہ پاک فوج کے امریکی ساختہ کوبرا جنگی ہیلی کاپٹر فرسودہ ہو چکے تھے لہٰذا امریکا سے درخواست کی گئی، وہ جدید ترین سپر کوبرا ہیلی کاپٹر فراہم کرے۔

اوباما حکومت نے ہامی بھر لی تاہم کانگریس میں بھارت کے حامی ارکان نے ہیلی کاپٹروں کی فروخت پر اعتراض لگا دیئے۔ یوں ایک بار پھر امریکیوں نے پاکستان کو دھوکا دیا جو ایک طرح سے امریکا کی جنگ ہی لڑ رہا تھا۔

اس پر پاکستان نے چین اور روس سے رجوع کیا۔ چینیوں کی دریادلی دیکھئے کہ انہوں نے جنوری 2015ء میں تین Z-10 جنگی ہیلی کاپٹر پاکستان کو تحفہ میں دے دیئے۔ بعدازاں ماہ مارچ میں روسی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر فروخت کر رہا ہے۔اس خبر نے امریکی حکومت کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔ امریکا کو محسوس ہو گیا کہ چین اور روس اس کے قدیم اور اہم دوست کو اپنے کلب میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو کھونے کا خطرہ دیکھتے ہوئے کانگریس نے اگلے ماہ ہی پاکستانیوں کو سپر کوبرا ہیلی کاپٹر فروخت کرنے کی منظوری دے دی۔

اسی طرح جب امریکیوں کو معلوم ہوا کہ پاکستانی روسی ساختہ سخوئی جنگی طیارے خریدنا چاہتے ہیں تو ان کے کان کھڑے ہو گئے۔ پاکستان کو اپنے کلب میں شامل رکھنے کی خاطر ہی امریکا نے پاک فضائیہ کو جدید ترین آلات سے لیس 8ایف سولہ طیارے دینے کا اعلان کیا لیکن امریکیوں کی اصل نیت اسی وقت آشکار ہو گی جب ان کی کانگریس بھی اس معاہدے کی منظوری دیدے گی۔

فی الحال پاکستانیوں کا دل جیتنے کی دوڑ میں چین سب سے آگے ہے۔ چینی وطن عزیز میں پاک چین اقتصادی راہداری تعمیر کرنے پر جتے ہیں۔ نیز چین ساڑھے5 ارب ڈالر سے پاکستان کو آٹھ جدید ترین آبدوزیں بھی فراہم کرے گا۔ یہ چین کی تاریخ میں سب سے بڑا عسکری معاہدہ ہے۔

جہاں بر اعظموں کا سنگم ہوتا ہے
بھارت کے ساتھ روس اب بھی مضبوط معاشی و عسکری روابط رکھتا ہے ۔مگر روسی ذرائع ابلاغ کی رو سے پاکستان بھی روس کے لیے اہم اتحادی کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔



اس حقیقت کا اندازہ ایک انگریزی مضمون ''Pakistan Is The "Zipper" Of Pan-Eurasian Integration''پڑھ کر ہوتا ہے۔ اس مضمون کے قلم کار، اینڈریو کوریبکو روسی تھنک ٹینک، رشین انسٹیٹیوٹ فار اسٹریجٹک اسٹڈیز سے وابستہ ہیں۔ اس تھنک ٹینک کی اہمیت کا اندازہ یوں لگائیے کہ اسے روسی صدر، ولادیمرپیوٹن نے قائم کیا اور وہی اس کے معاملات دیکھتے ہیں۔ مضمون کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

٭٭

مغرب کے باشندے پاکستان کو دہشت گردی اور غربت کی سرزمین سمجھتے ہیں۔ مگر یہ مغربی میڈیا کی پھیلائی دیومالا ہے جس کا سچائی سے کوئی واسطہ نہیں۔ مغربی میڈیا پاکستان کے خلاف دانستہ پروپیگنڈا کرتا ہے تاکہ یورشیا (ایشیا و یورپ) میں اس کی بڑھتی جغرافیائی اہمیت کو کم کیا جاسکے۔پاکستان کوئی ناکام مملکت نہیں، بلکہ سپربراعظم (یورشیا) کو اس سے نہایت اہم معاشی امیدیں وابستہ ہیں۔ وجہ یہ کہ پاکستان ہی روس، وسطی ایشیا، ایران، سارک ممالک اورچین کی عظیم معاشی طاقتوں کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔ گویا یہ ایک وسیع و عریض معاشی خطّے میں پل جیسی اہمیت اختیار کرچکا ۔

روس کو اب احساس ہورہا ہے کہ پاکستان انتہائی اہم جغرافیائی و سیاسی حیثیت کا حامل ہے۔ اسی لیے روسی حکومت تیزی سے ہر سطح پر جنوبی ایشیا کے ''گیٹ کیپر'' کے ساتھ تعلقات بڑھا رہی ہے۔

روسی حکومت کا مدعا یہ ہے کہ پاکستان کو سیاسی و معاشی طور پر مستحکم کیا جائے تاکہ وہ ''روس و چین سٹریٹجک پارٹنر شپ'' کے فریم ورک میں بخوبی سما سکے۔چین پاکستان میں ''پاک چین اقتصادی راہداری'' تعمیر کررہا ہے۔ یہ راہداری تکمیل کے بعد چار بڑی معاشی قوتوں... یورشین یونین، چین، ایران اور سارک ممالک کو باہم ملا دے گی۔ ان طاقتوں کے اتحاد سے خطے میں زبردست معاشی ترقی جنم لے گی۔اس راہداری کے ذریعے چین بحیرہ عرب تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ وہ اپنی بحری تجارت کے لیے صرف آبنائے ملاکا پر انحصار نہ کرے ۔لیکن یہ راہداری یورشین اکنامک زون کو وسعت و ترقی دینے میں بھی ازحد معاون ثابت ہوگی۔

ماضی میں روس اور بھارت کے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ اسی لیے روس اور پاکستان کے مابین دوستی پروان نہیں چڑھ سکی۔ لیکن دنیا اب جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔

لہذا بھارت سے قربت رکھنے کے باوجود روسی حکومت پاکستان سے بھی قریبی تعلقات قائم کررہی ہے۔ پاکستان چین کا نمایاں اتحادی بن چکاہے جبکہ بھارت روس سے گہرے عسکری و ٹیکنالوجیکل تعلقات رکھتا ہے۔مگر وہ معاشی اور تزویراتی لحاظ سے امریکا کے مفادات کو بھی بڑھاوا دے رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسی یہ ہے کہ وہ دونوں سپرطاقتوں سے قریبی تعلقات قائم کرکے بھارت کو ہر لحاظ سے طاقتور مملکت بنادیں۔

امریکا نے بھارت کی طرف اس لیے ہاتھ بڑھائے تاکہ چین کا پھیلاؤ روک سکے۔ اسی واسطے بھارت اب چین اور پاکستان، دونوں کو مخالف قوتیں سمجھتا ہے۔ جبکہ چین اور پاکستان کا خیال ہے کہ بھارت نے امریکا کی ایما پر ان کے خلاف جنگیں چھیڑ رکھی ہیں۔جنوبی ایشیا کے دونوں بڑے ممالک کی دشمنی کم نہیں ہوئی، تاہم وہ یورشیائی اکنامک زون کو اپنانے کے لیے تیار ہیں۔

ثبوت یہ کہ دونوں عنقریب شنگھائی تنظیم کے رکن بن جائیں گے۔روس میں یہ سوچ جنم لے چکی ہے کہ آہستہ آہستہ امریکا کو اس خطے سے نکالا جائے۔ وہ پھر نئی دہلی اور بیجنگ سے اپنے مضبوط روابط کی بنا پر کوشش کرے گا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جو مسائل وجہ نزاع ہیں، انہیں حل کیا جائے۔ اگر روس کو اپنے مشن میں کامیابی مل گئی، تو پاکستان اور بھارت میں ترقی و تعمیر کے زبردست دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں