اردگان کی جیت نے مغرب کے خواب چکناچورکردیئے

جسٹس پارٹی کے زوال کی منتظر قوتیں شاندار کامیابی کے خطہ پر اثرات کو نہیں روک پائیں گی


عبید اللہ عابد November 08, 2015
جسٹس پارٹی کے زوال کی منتظر قوتیں شاندار کامیابی کے خطہ پر اثرات کو نہیں روک پائیں گی فوٹو : فائل

ترکی میں انتخابات کا مطلب جمہوریت سے جمہوریت کی طرف سفر ہوتا ہے۔ یہاں انتخابات ہوتے ہیں لیکن کبھی دھاندلی اور دھرنے کی نوبت نہیں آئی۔ یکم نومبر کے انتخابات میں حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے علاوہ تینوں بڑی جماعتوں کو بری شکست کا سامنا کرناپڑاہے۔ تاہم انھوں نے اپنی شکست کو فی الفور تسلیم کیا۔

یکم نومبر کے انتخابات میں ترک قوم نے84 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ واضح طورپر فیصلہ سنایا ہے کہ طیب اردگان کی قائم کردہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے علاوہ کسی دوسری، تیسری اور چوتھی جماعت کو اقتدار نہیں سونپاجاسکتا۔ اس فیصلے کا اگلا نکتہ یہ بھی ہے کہ ملک میں ابھی صدارتی نظام کی ضرورت نہیں۔

ترک قوم سے اسی فیصلے کی امید تھی، وہ سیاسی بحران کو جوں کا توں رکھ کرملک کو پچھلی صدی میں نہیں بھیجنا چاہتی تھی جب سیاسی عدم استحکام، کرپشن سمیت بہت سی آفتوں نے ملک وقوم کوگھیرے میں لیاہواتھا۔ انتخابی نتائج کے مطابق جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(اسلام پسند) کو49.48 فیصد، ترکی کے بانی کمال اتاترک کی قائم کردہ جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی (سیکولر) کو25.31فیصد، ملی حرکت پارٹی( اسلام پسند، نیشنلسٹ) کو11.90فیصد اور کردوں کی نمائندہ جماعت پیپلزڈیموکریٹک پارٹی10.75فیصد ووٹ ملے۔ کردجماعت بڑی مشکل سے پارلیمان میں داخل ہوئی ہے۔

یادرہے کہ ترک انتخابی قانون کے مطابق صرف وہی جماعت پارلیمان میں داخل ہوسکتی ہے جو انتخاب میں کاسٹ کئے گئے کل ووٹوں کا10 فیصد حاصل کرے۔ اگرکوئی جماعت اس شرح سے کم ووٹ حاصل کرے گی، اس کے ووٹ پارلیمان میں داخل ہونے والی تمام جماعتوں کے درمیان انھیں حاصل ہونے والے ووٹوں کی شرح سے تقسیم ہوجائیں گے۔

انتخابی نتائج کے مطابق جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو317، ری پبلیکن پیپلزپارٹی کو134، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کو59جبکہ ملی حرکت پارٹی کو40سیٹیں ملی ہیں۔ یادرہے کہ سات جون2015ء کے عام انتخابات میں 'جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی' کو41 فیصد ووٹ ملے تھے، اسے550 رکنی پارلیمان میںجسٹس پارٹی کو حکومت سازی کے لئے 18سیٹوں کی ضرورت تھی جو کسی بھی صورت پوری نہ ہوسکی۔ ری پبلیکن پیپلزپارٹی کو 24.96 فیصد ووٹ،کمیونزم مخالف اور نیشنلسٹ جماعت 'ملی حرکت پارٹی' کو 16.29فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے13.12فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔

ترک آئین کے مطابق کوئی جماعت بھی حکومت سازی میں ناکام رہے تو پھر پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بنائی جائے گی۔ چنانچہ صدراردگان کی ہدایت پر احمد داؤد اوغلو نے نئی کابینہ بنائی۔ تاریخ میں پہلی بار دو کرد شخصیات بھی اس کابینہ کا حصہ بنیں۔

پارلیمان میں جس پارٹی کا جتنا حصہ تھا، اسی کی بنیادپر قومی حکومت میں اسے جگہ ملنا تھی۔ فارمولے کے مطابق جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو گیارہ وزارتیں، ری پبلیکن پیپلزپارٹی کے حصے میں پانچ ، ملی حرکت پارٹی اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے حصے میں تین، تین وزارتیں آنا تھیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے نگران حکومت کا حصہ بننے سے انکار کردیا تاہم اس فیصلے سے ان پارٹیوں کے اندر بغاوت ہو گئی۔ ملی حرکت پارٹی کے طغرل تورکش، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے علی حیدر کونکااور مسلم دوگان نے وزارتیں قبول کرلیں۔ اپوزیشن کی طرف سے انکار کے بعد جو وزارتیں باقی بچی تھیں، وہ غیرسیاسی افراد کے ذریعے پُر کردی گئیں۔

انتخابات سے قبل رائے عامہ کے جائزوں میں بتایاجارہاتھا کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی مقبولیت میں اس قدر اضافہ نہیں ہوا جو انتخابی نتائج میں تبدیل ہوکے اسے تن تنہا حکمران بنا سکے۔ بعض رپورٹس میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی مقبولیت میں دو سے تین فیصد کا اضافہ بتایاجارہاتھا۔تاہم یکم نومبر کو یہ سارے جائزے مکمل طورپر غلط ثابت ہوئے۔

جون 2015ء میں منعقدہ انتخابات کی نسبت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ووٹوں میں8.61 فیصد جبکہ ری پبلیکن پیپلزپارٹی کے ووٹوں میں 0.38 فیصد اضافہ ہوا۔ انتخابات سے قبل رائے عامہ کے جائزوں میں اس کی مقبولیت میں دو سے تین فیصد کا اضافہ بتایا جا رہا تھا۔ تیسرے نمبر پر رہنے والی جماعت ملی حرکت پارٹی کے ووٹوں میں 4.39 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ چوتھے نمبر کی کرد جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹوں میں 2.37فیصد کم ہوئے۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ تیسرے اور چوتھے نمبر کی پارٹیوں کا ووٹر جسٹس پارٹی کی طرف منتقل ہوا۔ دوسرے نمبر کی سیکولر پارٹی کو گزشتہ پندرہ برس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔

ترکوں کو ملی حرکت پارٹی کا جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار نہ ہونے کی ضد پسند نہیں آئی جس کی کڑی سزا اسے یکم نومبر کو ملی۔ کسی بھی جماعت کی طرف سے حکومت سازی میں ناکامی کے بعد قومی حکومت کا قیام آئین کا تقاضا تھا، ملی حرکت پارٹی نے اس پر موقع پربھی ضد کا مظاہرہ کیا اور شامل نہ ہوئی۔ یوں یہ جماعت بھی بھی چوتھے نمبر کی کرد جماعت کی طرح پارلیمان سے باہر ہونے سے بال بال بچی۔ اس کے ووٹ بنک سے مزید دوفیصد ووٹ کم ہوتے تو یہ پارلیمان سے باہر ہوجاتی۔

پارٹی سربراہ دولت باخچلی کی ضد کا نتیجہ یوں بھی نکلا کہ پارٹی دوحصوں میں تقسیم ہوگئی۔ پارٹی کے بانی الپ ارسلان تورکش کے سب سے بڑے بیٹے طغرل تورکش پارٹی فیصلے کے برعکس قومی حکومت میں نائب وزیراعظم بن گئے۔ وہ پارٹی کی مرکزی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ پارٹی ووٹ بنک کو نقصان دیگر داخلی اختلافات کے سبب بھی ہوا مثلاً دو سینئر رہنماؤں نے امیدواروں کی فہرست کو ناجائز قراردیدیا۔



درست طور پر امید کی جاسکتی تھی کہ ری پبلیکن پیپلز پارٹی، ملی حرکت پارٹی اور کردوں کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کا فائدہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو ملے گا۔ تاہم جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اپنے ووٹ بنک میں اضافہ کے لئے دیگرکم ووٹ بنک والی پارٹیوں سے بھی اتحاد کی کوشش کرتی رہی۔ مثلاً اسلام پسند' سعادت پارٹی اورگریٹ یونٹی پارٹی۔ موخرالذکر بھی ایک اسلامی نظریات رکھنے والی جماعت ہے۔ غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے والے بحری قافلے 'فریڈم فلوٹیلا' میں بھی اس کے لوگ شامل تھے۔ جسٹس پارٹی سمجھتی تھی کہ سعادت پارٹی کی حمایت سے اسے متعدد علاقوں سے بڑی تعداد میں نشستیں مل سکتی ہیں۔

ان انتخابی نتائج سے یہ خیال بھی درست ثابت ہوا کہ کردباغیوں کے خلاف ملٹری آپریشن ان ترک قوم پرست ووٹروں کے دل ودماغ تبدیل کردے گا جو جسٹس پارٹی کے کردوں کے بارے میں نرم گوشہ کو پسند نہیں کرتے تھے، یقیناً انھوں نے جسٹس پارٹی کے بارے میں اپنی رائے پر نظرثانی کی۔

دوسری طرف 'کردستان ورکرز پارٹی' کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میںایسا کرد ووٹ جو تخریب سے بے زار تھا اور امن چاہتاتھا، کا ووٹ پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹ بنک سے کٹ گیا، ایسے ووٹرز کے پاس جسٹس پارٹی کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہ تھا۔ جسٹس پارٹی ہی نے تاریخ میں پہلی بار کردوں سے مذاکرات کی راہ اختیارکی اور انھیں مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کی تھی۔ یہ ووٹر 2011ء تک جسٹس پارٹی کے حق میں ووٹ کاسٹ کرتارہا۔

پارٹی نے17فیصد(ایک کروڑ) ناراض ووٹروں کو منانے اور انھیں پولنگ سٹیشن لانے کی کوششیں بھی کیں جو پارٹی رہنماؤں کے خیال میں، جسٹس پارٹی ہی کے ووٹرتھے تاہم بعض پالیسیوں سے اختلافات کے سبب گھروں میں بیٹھ گئے تھے۔ تاہم جون کے انتخابات میں یہ ناراض ووٹر مخالف کیمپوں میں نہ گیا۔ یکم نومبر کو اس کی واپسی ہوئی۔ ترکوں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو اس قدر حمایت نہیں دی کہ وہ ازسرنوآئین منظورکرسکے یا کم ازکم اس کے لئے ریفرنڈم کا حق حاصل کرسکے۔ یادرہے کہ بغیر ریفرنڈم کرائے آئین منظور کرنے کے لئے367 سیٹوں کی ضرورت جبکہ ریفرنڈم کے لئے330 سیٹوں کی ضرورت تھی۔

بہرحال2015ء سے شروع ہونے والی مدت کے اختتام پر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی دنیا میں سب سے زیادہ عرصہ تک حکمرانی کرنے والی جماعتوں میں شامل ہوجائے گی۔ پارٹی سربراہ اور وزیراعظم احمد داؤداوغلو نے کامیابی کے فوراً بعد ''الحمدللہ'' پر مبنی ایک مختصرٹویٹ کی۔ اس کے بعد اپنی کامیابی کو جمہوریت اور قوم کی فتح قراردیا۔

وہ کہتے ہیںکہ وہ وژن 2023ء کے مطابق نئے آئین کے ساتھ نیا ترکی قائم کریں گے جس میں کرد پرامن زندگی بسر کریں گے، ملک یورپی یونین کا رکن ہوگا جبکہ ملکی معیشت عروج پر ہوگی، اس کا شمار دنیا کے پہلی دس عظیم معاشی طاقتوں میں ہوگا۔حکمران پارٹی کے حامیوں کا کہناہے کہ ان کی پارٹی کی کامیابی نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پورے عالم اسلام کی کامیابی ہے۔اردگان کی قیادت میں ترکی سو سال آگے پہنچ گیاہے۔ انھوں نے ملک کو بہتری اور امن عطاکیاہے۔ ہم یورپ سے بے زار ہیں، اردگان ہی ہمارا رہنما ہے۔

ری پبلیکن پیپلزپارٹی کے قائدکمال قلعے داراوغلو کا کہناتھا کہ انتخابی نتائج نے پارٹی کے کندھوں پر مزید ذمہ داریاں ڈال دی ہیں۔ انھوں نے کہاکہ انتخابات میں شکست کے بعدمجھے قیادت پر برقراررہناہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ایگزیکٹوباڈی کرے گی۔ ملی حرکت پارٹی کے قائددولت باخچلی نے بھی اپنی شکست قبول کی تاہم انھوں نے پارٹی قیادت چھوڑنے کو خارج ازامکان قراردیا۔ پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے قائد صلاح الدین دیمرتاش نے کہا کہ انتخابات موزوںماحول میں نہیں ہوئے۔

ایسا محسوس ہورہاہے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی کامیابی کا دکھ مغربی میڈیا سے برداشت نہیں ہورہا۔ انتخابات سے قبل ترک رائے عامہ کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ طیب اردگان ایک آمر بن چکے ہیں، ان کی آمرانہ روش ہی نے انھیں ترک عوام میں انتہائی غیرمقبول کردیاہے۔ تاہم ترک عوام نے جو فیصلہ دیا، اس پر مغربی میڈیا نے شرم محسوس کرنے کے بجائے جسٹس پارٹی کی فتح کومختلف اندازمیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ مثلاً برطانوی خبررساں ادارے نے کہا:'' اردگان کامیاب لیکن ترک قوم تقسیم ہوگئی''۔

جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی کامیابی کے بعد ترک صدر نے دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ انتخابات کے نتائج کا احترام کرے۔یکم نومبر کو قومی رائے کا اظہار استحکام کے حق میں کر دیا گیا ہے۔ آئیے، ہم سب ایک ہو جائیں، ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن جائیں اور آپس میں مل کر ایک ترکی بن جائیں۔' انھوں نے مغربی میڈیا کی جانب سے خود پر کی جانے والی تنقید کو نشانہ بنایا اور انتخابی نتائج کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا: 'ترکی میں ان کی جماعت کو اب 50 فیصد (ووٹوں) کے ساتھ اقتدار حاصل ہو گیا ہے، پوری دنیا کو اس کا احترام کرنا چاہیے لیکن مجھے اب تک ایسی (سیاسی) بلوغت کا مظاہرہ نظر نہیں آیا۔' انھوں نے مغربی میڈیا سے سوال کیا: ''کیا جمہوریت کے بارے میں آپ کا فہم ایسا ہے؟''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں