انتہا پسندی اور سامراجی مقاصد

اس پس منظر میں حال ہی میں وزیر اعظم نواز شریف نے امریکا کا دورہ کیا۔


Zamrad Naqvi November 09, 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

اس وقت جنوبی ایشیا تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہا ہے۔ اس پس منظر میں حال ہی میں وزیر اعظم نواز شریف نے امریکا کا دورہ کیا۔ امریکی دورے پر روانہ ہونے سے پہلے یہ بات میڈیا میں زوروں پر تھی کہ کہیں امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے لیے دباؤ نہ ڈالے جب کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے اس دورے سے پہلے اس بات کا اعلان کرنا ضروری سمجھا کہ پاکستان ایسے جوہری ہتھیار بنا چکا ہے جس کی رینج ساٹھ کلومیٹر تک ہے۔ یہ واضح طور پر اس بات کا اشارہ تھا کہ اگر بھارت سے اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ اس ہتھیار کو استعمال کر سکتا ہے۔

پاک امریکا مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی پر خاص طور پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا اہم اتحادی ہے۔ جس کے جواب میں نواز شریف نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ امن و استحکام کے لیے پاک افغان سرحد کے آرپار حملوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم پاکستان نے صدر اوباما کو یقین دلایا کہ پاکستان اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ طالبان بشمول حقانی نیٹ ورک پاکستانی سرحد استعمال کرتے ہوئے افغان سرزمین پر کارروائی نہ کر سکیں۔ مشترکہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پرامن مفاہمت کے لیے کوشش کی جائے گی تا کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔ اس دورے میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ان گروہوں اور افراد جنھیں اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا ہے، کے خلاف کارروائی کے لیے پرعزم ہے۔

اب یہ پوری دنیا کو پتہ ہے کہ وہ گروہ اور افراد کون ہیں۔ آنے والا وقت پاکستان کے لیے آسان نہیں کہ پاکستان پر امریکا اور عالمی برادری کی طرف سے مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے کہ 2008ء ممبئی حملوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ یہی بات اس سال صدر اوباما نے بھارت کے دورے میں کہی تو دوسری طرف امریکی اور بھارتی وزرائے خارجہ نے حال ہی میں جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں دہرائی۔ بھارت ہو یا افغانستان، پاکستان دونوں طرف سے مشکل ترین صورت حال سے دوچار ہے کیونکہ امریکا کی طرف سے اصرار کیا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے کی گئی کوششوں کے باوجود طالبان مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتے تو پاکستان میں مبینہ طور پر ان کے موجود محفوظ ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کے خلاف پاکستان کارروائی کرے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے اس پس منظر میں یہ بیان کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ان کے خلاف فوجی آپریشن ایک ساتھ نہیں چل سکتے، اس صورت حال کو واضح کرتا ہے کہ پاکستان اس وقت کس آزمائش سے دوچار ہے۔ افغانستان میں امریکا کی کمزور پوزیشن نے پاکستان کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے لیکن پاکستان کی یہ پوزیشن آسان نہیں۔

ادھر بھارت بھی بنیاد پرستی کی راہ پر چل پڑا۔ اب یہ مذہبی شدت پسندی اتنے عروج پر ہے کہ بھارت کے لبرل سیکولر ترقی پسند عناصر خوف زدہ ہیں کہ کہیں بھارت بھی پاکستان جیسا نہ بن جائے۔ اسی طرح سے مذہبی جنونی شدت پسند بن کر اپنا مستقبل تاریک نہ کرے۔ جب پاکستان جنرل ضیاء الحق کے دور میں شدت پسندی کے راستے پر تیزی سے بڑھ رہا تھا، بھارت میں مذہبی جنونی راشٹریہ سیوک سنگھ نے بی جے پی کا سیاسی چولا پہننا شروع کر دیا۔ پہلے اس نے ہندو احیا کے نام پر چار سیٹیں لیں پھر مخلوط حکومت بنائی اور اب پورے بھارت پر حکمرانی کر رہی ہے۔ بنیاد پرستی کے ذریعے اگر ایک طرف سوویت یونین کا خاتمہ کیا گیا تو دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ بھی کیا گیا۔ بنیاد پرستی ان ملکوں کے لیے تیربہدف نسخہ ہے جہاں غربت، بے روزگاری اپنے عروج پر ہو۔ بھارت میں بدترین غربت پائی جاتی ہے جہاں 80 کروڑ افراد کو بمشکل ایک وقت کی روٹی میسرّ ہے۔

پاکستان کی بھی دس کروڑ سے زائد آبادی کا یہی حال ہے جہاں بھوک، غربت، بیروزگاری اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ملکوں میں بنیاد پرستی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ برصغیر سے لے کر مشرق وسطیٰ تک بنیاد پرستیوں کے فروغ کا ایک ہی مقصد ہے کہ اس پورے خطے میں سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کیا جائے جس کو اس علاقے میں سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ اس پورے خطے میں طالبان، القاعدہ، اب داعش اور ہندو بنیاد پرستی، بنیاد پرستیوں کی فصل ہے جو تا حد نگاہ لہلہا رہی ہے جس کی خوراک انسانی خون ہے۔ بنیاد پرستی کا ہتھیار سامراج کے اسی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت برصغیر کو تقسیم کیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد اس سامراجی ایجنڈے پر تیزی سے عمل درآمد، قرارداد مقاصد پاکستان ٹوٹنے اور دوسری اشکال میں دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کا ٹوٹنا ہو سکتا ہے کہ ہمارے لیے المیہ ہو لیکن پاکستان کو کٹ ٹو سائز کرنا، یہاں بنیاد پرستی کا عروج، اس وقت دائیں بازو کی جماعتوں کا اقتدار میں آنا اور ترقی پسند عوام دوست قوتوں کا پاکستان میں خاتمہ، امریکی سامراج عرب بادشاہتوں اور پاکستانی حکمران طبقوں کے لیے انتہائی ا طمینان بخش ہے۔

آپ اندازہ لگائیں کہ اگر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کو فروغ نہ دیا جاتا تو بھارت اور پاکستان کے غریبوں کو متحد ہونے سے کون روک سکتا تھا۔ برصغیر میں غریبوں کا اقتدار نہ صرف ان کی خوش حالی کا باعث ہوتا بلکہ باقی دنیا سے بھی غریبوں کے استحصال کے خاتمے کا باعث ہوتا، یوں ایک ایسی عالمی برادری وجود میں آتی جس کی بنیاد انسانیت، انصاف اور مساوات پر ہوتی۔ پھر یہ سلسلہ صرف برصغیر تک محدود نہیں رہتا، پہلے مشرق وسطیٰ پھر مشرق بعید کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے سامراجی لوٹ مار کو ان کے اپنے ملکوں میں محدود کرتے ہوئے مسیحائی کا باعث بنتا۔

شرم آنی چاہیے انھیں جو عوامی جمہوریت کے بجائے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی حمایت کرتے ہوئے سامراجی ایجنٹوں کا کردار ادا کر رہے ہیں... انسان دشمنی کی بھی حد ہونی چاہیے... کیا (انھیں نظر نہیں آتا) یہ اندھے ہو گئے ہیں کہ انھیں سرمایہ دارانہ جمہوریت کا سب سے بڑا شاہکار بھارتی جمہوریت نظر نہیں آتی جہاں ستر سال کے بعد بھی ایک ارب انسان جانوروں کی زندگی گزار رہے ہیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری کب وطن آئیں گے اس کا پتہ 17 سے 27 نومبر کے درمیان چلے گا۔

سیل فون: 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں