سندھ ٹریفک پولیس کی مہمات
سندھ ٹریفک پولیس جوکہ کراچی کے ٹریفک کے نظم و نسق کی ذمے دار ہے،
سندھ ٹریفک پولیس جوکہ کراچی کے ٹریفک کے نظم و نسق کی ذمے دار ہے، بڑی سنسنی خیز بلکہ مضحکہ خیز قسم کے ہنگامی اقدامات اٹھانے اور بے سوچے سمجھے احکامات جاری کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی ہے۔
کبھی بلا سوچے سمجھے فوری طور پر تمام موٹرسائیکل سواروں بشمول خواتین اور بچوں کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دے دیا جاتا ہے، یہ غور کیے بغیرکہ کیا ایسا عملی طور پر ممکن ہے کیا خواتین، بزرگ، بچے اس حکم نامے پر عمل کرسکیں گے؟ کیا اتنی بڑی تعداد میں ہیلمٹ مارکیٹ سے دستیاب ہوجائینگے؟
پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے اور کرائے پرخطیر رقم اور وقت کے ضیاع سے مجبورموٹرسائیکلوں پر اپنے کئی کئی بچوں، بیوی اور سامان کے ساتھ سفرکرنیوالے افراد سے اس پابندی پر عمل کرانا ناممکن ہے اور اگر ایک موٹرسائیکل پر سوارکئی مرد و خواتین کو ہیلمٹ پہنا بھی دیے جائیں اور موٹرسائیکلوں میں مرر، انڈیکیٹر اور دیگر فٹنس بھی نہ ہو دیگر گاڑیاں بھی ان کا استعمال نہ کرتی ہوں تو کیا اس سے حادثات کم ہونگے یا زیادہ ہونگے؟ اسکول وینز کے لیے مخصوص رنگ اور اسکول کا نام لکھنے کی پابندی عائد کرتے ہوئے کیا اس بات پر غور کیا گیا یہ کاروبار عام طور پر بیروزگار اورغریب قسم کے لوگ کرتے ہیں۔
جن کے پاس گاڑیاں بھی پرانی بلکہ ناکارہ قسم کی ہوتی ہیں جو نسبتاً کم نرخوں پر یہ گاڑیاں اسکولوں میں چلاتے ہیں جن کی وجہ سے غریب والدین بھی اپنے بچوں کے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے متحمل ہوجاتے ہیں، رکشاؤں، چنگ چیوں کے عذاب سے بچ جاتے ہیں۔ کیا ایسے غریب ڈرائیوروں یا گاڑی مالکان گاڑیوں پر مخصوص کلرکرانے یا ان گاڑیوں کو ری پینٹ کرانے کے متحمل ہوسکتے ہیں ؟ دوسرا یہ کہ ایسی ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں گاڑیوں پر قوم کا کتنا سرمایہ اور وقت صرف ہوگا؟
اسکول وینز میں سی این جی سلنڈر کے استعمال پر عجلتی پابندی لگاتے ہوئے بھی یہ نہیں سوچا گیا کہ سی این جی سلنڈر تو شہر کے تمام رکشا، ٹیکسی، مزدا، بسوں اور کاروں میں بھی استعمال ہو رہے ہیں جن کی جانچ پڑتال کا کوئی نظام نہیں ہے۔ اس سلسلے میں تمام گاڑیوں کی جانچ پڑتال کا موثر و فعال نظام ہونا چاہیے۔ ڈبل سواری پر پابندی کے اقدام سے بھی شہریوں کو پریشان کیا جاتا ہے اس دوران موٹرسائیکلوں کے ذریعے وارداتیں بھی جاری رہتی ہیں اور نتیجہ صرف شہریوں کو صعوبتیں پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا ہے۔
پچھلے ہفتے ڈی آئی جی ٹریفک کی جانب سے ایک تازہ حکم نامہ سامنے آیا کہ پیر سے شہر میں کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیورز کو جن کے پاس لائسنس نہیں ہونگے، گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جائے گا اس کے ساتھ ہی شہریوں کو پندرہ دن کے اندر لائسنس بنوانے کی مہلت دی گئی تھی مہلت ختم ہونے کے بعد انھیں بھی جیل کی سیر کرانے کی تنبیہہ کی گئی تھی۔ اعلان سامنے آتے ہی شہریوں میں خوف و ہراس اور افراتفری پھیل گئی لاکھوں شہریوں نے شہر میں قائم 3 لائسنس دفاتر کا رخ کرنا شروع کیا تو دفتری عملہ پریشان ہوگیا۔ دفاتر بند کرکے محصور ہوگئے پولیس و رینجرزکو طلب کرلیا گیا۔
بپھرے ہوئے لوگوں پر لاٹھی چارج ، لاتیں اور گھونسے چلے۔ ایجنٹوں نے لوٹ کھسوٹ شروع کردی۔ فارم کی قیمت 50 روپے اور اس کو پُر کرنے کے 300 روپے تک وصول کیے گئے۔ ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے پرکئی ڈرائیوروں کو حوالات میں بند کردیا گیا۔ ڈرائیونگ لائسنس اجرا کے دفاتر کے اوقات صبح 8 تا رات 7 بجے تک کرکے ہفتہ اتوار کی چھٹیاں ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا اس سب کے باوجود یہ تینوں دفاتر یومیہ 1200 سے زائد ڈرائیونگ لائسنس جاری نہ کرسکے۔
ڈی آئی جی لائسنس برانچ نے کہا ہے کہ شہریوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کی مدت میں 3ماہ کے اضافے کے لیے سمری بھیج دی گئی ہے جو جلد ہی منظور ہوجائے گی۔ ان کے مطابق شہری کئی کئی برسوں سے گاڑیاں چلا رہے تھے لیکن لائسنس نہیں بنواتے تھے محکمے کی یومیہ 1200 لائسنس جاری کرنے کی گنجائش سے حکومت سندھ نے ڈی آئی جی ٹریفک کی مجرمانہ غفلت و لاپرواہی کے باعث لائسنس کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال کا نوٹس لے لیا ہے۔
اس حوالے سے ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے آئی جی پولیس کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ حکومت قانون کا نفاذ چاہتی ہے لیکن قانون کے مطابق جس سے شہریوں میں کسی قسم کا کوئی خوف و ہراس نہ پھیلے آیندہ ناقص حکمت عملی اور بغیر سوچے سمجھے کوئی مہم شروع نہ کی جائے۔ مہم کے دوسرے دن ہی اس مہم کو ایک ماہ کے لیے موخر کردیا گیا۔
ٹریفک پولیس کے ترجمان کے مطابق گڈز کیریئر ایسوسی ایشن کے وفد نے ڈی آئی جی سے ملاقات میں انھیں اعلان سے پیدا شدہ مسائل سے آگاہ کیا جس سے وہ واقف نہیں تھے وفد سے ملاقات کے بعد مہم ایک ماہ کے لیے موخر کی گئی۔ شہریوں نے ٹریفک پولیس کے اس اقدام کو رشوت کی رقم بڑھانے کی مہم قرار دیا ہے۔ قانونی طور پر ٹریفک پولیس کے یہ اقدامات لاقانونیت کو قانونی کرنے کی احمقانہ مثال ہے۔
ٹریفک پولیس ڈرائیوروں کو کس قانون کے تحت جیل بھیجے گی؟ اس کی ذمے داری تو یہ بنتی ہے کہ اگر کوئی ڈرائیور قانون شکنی کرتا ہے تو اس کو عدالت کے سامنے پیش کرکے ثابت کرے کہ ڈرائیور لاپرواہی سے گاڑی چلا رہا تھا جس سے دیگر گاڑیوں، پیدل چلنے والوں یا سڑک پار کرنے والوں کی جانوں کو خطرات لاحق تھے۔ یہ اختیار عدالت کا ہے کہ اسے جیل بھیجے یا چھوڑ دے۔ Motor Vehicle Ordinance 1965 کے مطابق تو کوئی بھی شخص بغیر لائسنس اور ہائی وے کوڈ کے کسی عوامی مقام پر گاڑی نہیں چلا سکتا ہے حتیٰ کہ Expire لائسنس پر بھی گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ہے پھر شہریوں کو ایک ماہ یا تین ماہ چھوٹ دینے کا مقصد قانون شکنی کی اجازت دینا نہیں؟ گڈز کیریئر ایسوسی ایشن کے وفد نے ایسے کون سے انکشافات کیے جو ڈی آئی جی کے علم میں نہیں تھے۔
اور وہ یہ بھول گئے کہ قانون کے تحت کوئی مالک یا گاڑی رکھنے والا شخص کسی ایسے شخص کو گاڑی نہیں دے گا جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہ ہو۔ ورنہ گاڑی دینے والا بھی شریک ملزم قرار پائے گا۔ کسی حادثے میں موت واقع ہوجانے پر لائسنس یافتہ ڈرائیور کا جرم قابل ضمانت سمجھا جاتا ہے لیکن لائسنس نہ ہونے کی صورت میں یہ ناقابل ضمانت جرم ہوجاتا ہے اور حادثے کے مرتکب ڈرائیور کو 30630 تولہ چاندی کی قیمت کے برابر دیت بھی ادا کرنا ہوتی ہے۔
موٹر وہیکل آرڈیننس کے تحت 50 سال سے زائد عمر کے افراد کے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید سالانہ بنیاد پر ہوگی جس کے لیے وہ طبی سرٹیفکیٹ پیش کرے گا کہ اسے ایسی کوئی بیماری نہیں ہے جس کی وجہ سے حادثے کا خطرہ ہو۔ عدالتوں نے تو ایسے ڈرائیور کو بھی جرم کا مرتکب قرار دیا ہے۔
جن کے پاس حادثے سے پہلے بھی لائسنس تھا اور اس کے بعد اس کی تجدید کرالی گئی لیکن حادثے کے وقت ان کا لائسنس موثر(Valid) نہیں تھا۔ اور اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ پارلیمنٹ معاشرتی رویوں اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرتی ہے عدالت کا یہ کام نہیں کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو چیلنج کرے۔ اس تناظر میں ٹریفک پولیس کی حالیہ مہم اور اعلانات کی کیا قانونی حیثیت رہ جاتی ہے ماسوائے اس کے کہ شہریوں کے لیے مزید مسائل پیدا کیے جائیں۔