سعید اجمل کا مشکل دور

اپنے محسنوں اور ہیروز کے ساتھ ناروا سلوک رکھنے والی قومیں کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتیں۔


محمد آصف November 10, 2015
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کے مصداق اب یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی سعید اجمل کی موجودگی گراں گُذر رہی ہے۔ فوٹو:فائل

ISLAMABAD: یہ آج سے تقریباً 3 سال پہلے 10 جنوری 2013 کی بات ہے۔ سعید اجمل اپنےعروج پر تھے۔ ہر طرف ان کی جادوگرانہ باؤلنگ کا چرچا تھا۔ ایسے میں سعید اجمل کو خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی اس صلاحیت کو قوم کے نونہالوں تک پہنچایا جائے، یہ بھی سعید اجمل کا بڑا پن تھا کہ اُنہیں اپنے عروج میں دوسروں کا خیال تھا ورنہ یہ خیال عموماً عروج کا نشہ اُتر کر ہی آتا ہے، اتنا بڑا کھلاڑی وطن کی خدمت کرنا چاہے اور کوئی اُس کی مدد نہ کرے، خصوصاً جب میڈیا کی بھرپور کوریج اور داد و تحسین سمیٹنے کا امکان بھی ہو، کیسے ممکن ہے۔

ایسے میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی انتظامیہ میدانِ عمل میں آئی اور فیصل آباد کے سپوت کے لئے 8 ایکڑ زمین وقف کرنے کا اعلان کردیا۔ اکیڈمی کی تعمیر کا تخمینہ 70 ملین روپے لگایا گیا۔ اکیڈمی کی ابتدا کرنے کے لئے سعید اجمل نے 30 ملین روپے اپنی جیب سے لگائے جبکہ 10 ملین حکومت کی طرف سے عطیہ کئے گئے۔

لیکن پھر حالات نے کروٹ لی۔ سعید اجمل آئی سی سی کے نئے قوانین کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا کے نمبر ایک اسپن گیند باز کا باؤلنگ ایکشن پہلے مشکوک قرار دیا گیا اور پھر اُنہیں پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ سعید اجمل نے ہمت نہ ہاری اور ثقلین مشتاق کی مدد سے اپنا ایکشن کلیئر کروایا، لیکن نئے ایکشن کے ساتھ وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں پہلے کی طرح موثر ثابت نہ ہوئے۔ اُنہیں ٹیم سےعلیحدہ کردیا گیا حالانکہ شائقین کرکٹ کا خیال تھا کہ اُن کی سابقہ خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُنہیں مزید مواقع دینے چاہیئے تھے تاکہ وہ اپنے نئے ایکشن کے ساتھ اعتماد حاصل کرنے میں جلد از جلد کامیاب ہوجائیں اور اُن پر کارکردگی دکھانے کا جو دباؤ تھا وہ کم ہوجاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ویسے تو یہ پاکستان میں پہلی دفعہ نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی پاکستان کرکٹ بورڈ پر کھلاڑیوں کے کیرئیر وقت سے پہلے ختم کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں، ان کھلاڑیوں میں محمد یوسف، شعیب اختر اورعبدالرزاق جیسے عظیم کھلاڑی بھی شامل ہیں جنہیں باعزت طور پر ریٹائر ہونے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔



سعید اجمل کو اِن مشکل وقت میں پی سی بی کی طرف سے جس اخلاقی مدد کی ضرورت تھی وہ اُنہیں نہیں ملی اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے اُنہیں میڈیا کا سہارا لینا پڑا۔ چند دن پہلے اُنہوں نے الزام لگایا کہ بھارتی کرکٹر ہربھجن سنگھ اور روی چندن ایشون کے باؤلنگ ایکشن بھی مشکوک ہیں، لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اُن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی، اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی بورڈ اِن کھلاڑی کی پشت پر کھڑی ہے، جبکہ اُن کا کیس پی سی بی نے اچھی طرح نہیں لڑا۔

بس یہ بیان دینے کی ضرورت تھی اور پی سی بی حرکت میں آگیا اور جادوئی اسپنر کو اپنے بیان کے حوالے سے وضاحت دینے کا کہا گیا۔ پھر مشکلات کے اس دور میں اک نئی مشکل کا اضافہ اس وقت ہوا جب زرعی یونیورسٹی انتظامیہ نے اُنہیں اکیڈمی خالی کرنے کا حکم دے دیا۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کے مصداق اب یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی سعید اجمل کی موجودگی گراں گذر رہی ہے، شاید وہ بھی اب کسی نئے ہیرو اور نئے فوٹوسیشن کی تلاش میں ہیں۔ سعید اجمل نے بتایا کہ اکیڈمی میں 400 نوجوان کھلاڑی زیرِ تربیت ہیں اور اب تک وہ 60 ملین روپے ذاتی خرچ کرچکے ہیں۔ اُنہوں نے دھمکی دی کہ اگر اُنہیں اکیڈمی کا انتظام نہیں دیا گیا تو وہ اکیڈمی سے اپنا سامان اُٹھانے کے بجائے اُسے آگ لگادیں گے۔

ستم ظریفی دیکھیں کہ ایسے ملک میں جہاں دوسری ٹیمیں اور کوچز آتے ہوئے ڈرتے ہوں اور ایک شخص جس کے لئے دنیا کی کسی بھی ٹیم کی کوچنگ حاصل کرنا کچھ مشکل نہ ہو، وہ جذبہ حب الوطنی کے تحت اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے قوم کی خدمت کررہا ہے، اور ایسے میں اُس کی بھرپور حمایت کے بجائے اُسے کام کرنے سے ہی رونا جارہا ہے۔ جب اپنے محسنوں اور ہیروز کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا تو بھلا ہم کس طرح ترقی کرسکتے ہیں؟



اس مشکل وقت میں ہم سب کو سعید اجمل کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیئے، تاکہ ان جیسے وطن کا درد رکھنے والے گنے چنے لوگ بھی وطن سے دوری اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوجائیں اور یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی اخلاقیات کا پاس کرتے ہوئے اپنا فیصلہ واپس لینا چاہیئے۔

[poll id="754"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں