شعور کی روشنی کا تسلسل
’’اگر کوئی اور سچ کے بارے میں خاموش رہے تو یہ اس کی حکمت عملی ہو سکتی ہے
''اگر کوئی اور سچ کے بارے میں خاموش رہے تو یہ اس کی حکمت عملی ہو سکتی ہے مگر ایک ادیب کے لیے سچ کی بات پر خاموشی جھوٹ کے برابر ہے۔'' 1968ء میں چیکوسلواکیہ میں روسی فوج کی مداخلت کے وقت نوبل پرائز ونر شاعر، سیفرت بیماری کے بستر سے اٹھا اور ادیبوں کی یونین میں جا پہنچا جس نے اسے پروگریسیو رائٹرز کی یونین کا صدر چنا تھا۔ دوسری جانب میکسم گورکی تھا، جس کی تحریروں نے مزدور طبقے میں انقلاب برپا کر دیا اور انھیں اپنے جائز حقوق سے آگاہ کیا۔
دور جدید میں عوامی سوجھ بوجھ میڈیا اور قلم کی مشترکہ کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ظلم اور جبر کے خلاف اہل قلم ڈٹ جاتے ہیں۔ ہندوستان کی مثال لے لیجیے، گزشتہ مہینے میں کہا جاتا ہے کہ چالیس کے قریب ادیبوں نے اپنے ایوارڈ حکومت کو واپس کر دیے۔ اترپردیش میں رونما ہونے والا غیر انسانی واقعہ جس میں چھوٹے سے گاؤں دادری میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک مسلمان کو بے دردی سے قتل کر ڈالا۔ جس کے بعد احتجاج کی ایک نئی لہر نے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ گاندھی کا وہ ہندوستان ہے جس میں تشدد کے خلاف عدم تشدد کے اصول پر طویل جدوجہد کی گئی تھی۔ مگر آج ہندوستان میں جابجا مسلمانوں کے ساتھ پرتشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
انسانیت کے خواب مشترکہ ہیں۔ ان خوابوں کا کوئی رنگ، نسل اور مذہب نہیں ہے۔ یہ خواب آزادی سے سانس لینے، برابری اور امن کے ہیں۔ پال مری کے گیت میں وہ ایک ایسا خواہش کا پھول کھلاتا ہے جس میں پیار، امید، اتحاد کے رنگ جھلکتے ہیں۔ وہ محبت کا ایسا نغمہ ہے، جسے سن کر انسانیت کا دل بے اختیار دھڑکنے لگتا ہے۔ مدھ بھرا سنگیت محبت کا نغمہ چھیڑ سکتا ہے۔
اس دھرتی پر بہت سے لوگ ایسے ہیں جو محبت کے لافانی گیت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ہر طرح کے تعصب سے بالاتر ہو کے سوچتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد منظر عام پر آنے والا مزاحمتی ادب اس کی بہترین مثال ہے۔ دنیا کی تاریخ سنہری مثالوں سے روشن ہے۔ جب باشعور ادیب سیاسی، سماجی اور معاشی بحران میں قلم کے ذریعے انقلاب لے کر آئے۔ جنرل فرانکو کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف لڑنے والے ادیب ہتھیار لے کر میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔ کئی روشن نام ہیں، جنھوں نے ظلمت کے اندھیروں میں، اپنے لفظوں سے شعور کے دیپ جلائے۔ ان میں لورکا، پابلونرودا، ناظم حکمت، آندری، مالیوس، سارتر، پاسترناکی وغیرہ شامل ہیں۔
اٹھارویں صدی میں رومانوی تحریک نے اعلیٰ طبقوں کی اجارہ داری کے جمود کو توڑ کے رکھ دیا۔ یہ شاعری، بارش کے قطروں جیسی تھی، جس نے سوچ کے حبس اور تنگ نظری کی گھٹن کو منتشر کر دیا۔ یہ شیلے تھا جس نے اپنے لفظوں کے توسط سے امید کی کرن جلائی ''میں اپنی شاعری سے آزادی اور انصاف کی شمع روشن کرنا چاہتا ہوں، مجھے ایک نئے جہان کی تلاش ہے۔
جہاں سویرا اپنی سنہری کرنیں پھیلاتا ہے
ہمارے جذبات بھی وہاں چمکیں گے اور بادشاہوں کے چہرے زرد ہو جائیں گے۔''
سندھ کے تناظر میں ون یونٹ سے لے کر آمریت اور موجودہ دور تک اہل قلم برابری، مساوات، امن و انصاف کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ شاہ عنایت شہید سے شیخ ایاز، جالب، فیض سے لے کر عصر حاضر تک شعور کی روشنی کا نہ ختم ہونے والا سفر ہے۔ ہر لفظ کا گہرا اثر ہے۔ ہر لفظ ذرے میں کائنات ہے۔ ہر لفظ کی روح ہے۔ یہ لفظ حساسیت کی بھٹی میں جل کر کندن بنتے ہیں۔ جب یہ اجتماعی دکھوں کا حوالہ بنتے ہیں، تو جبر کے سامنے آہنی دیوار بن جاتے ہیں۔
بھارت میں ہونے والی انتہا پسندی کی لہر کو، وہاں کے اداکار، صحافی، شاعر اور ادیب اس لیے مسترد کر رہے ہیں کہ دنیا پہلے ہی نفرت کے ایندھن میں سلگ رہی ہے۔ تعصب، جنگل میں لگی آگ کی طرح تیزی سے بھڑکتا ہوا پھیلتا ہے۔ اسے وقت پر روک دینا چاہیے۔ اس حوالے سے سپراسٹار شاہ رخ خان نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''بھارت ایک سیکولر ملک ہے مگر گزشتہ دس سالوں سے یہ ہماری سوچ کے دائرے سے باہر نکل رہا ہے۔'' یہ حقیقت ہے کہ اگر تعصب کے اس دہکتے ہوئے الاؤ کو وقت پر نہ روکا گیا تو کئی نسلوں کے خواب اس میں جل کر خاک ہو جائیں گے۔
کوئی بھی منفی سوچ سر اٹھانے لگتی ہے تو اسے وقت پر اگر نہیں کچلا جاتا، تو وہ طوفان کا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ یہ بات فقط اہل دانش اور انسانیت کے حامی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان میں سیکولرزم کی دعویدار پارٹی کانگریس کہاں ہے؟ اسی حوالے سے ہندوستان کے باشعور ادیب جب تمغے اور ایوارڈ واپس کر رہے تھے تو عالمگیر شہریت یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے کہتی ہیں ''میں خوش ہوں کہ میں ایک قومی ایوارڈ واپس کر سکتی ہوں۔
ایسا کر کے میں ادیب، فلمسازوں، اداکاروں اور ماہر تعلیم کی طرف سے شروع کی جانے والی سیاسی مہم کا حصہ بن سکتی ہوں۔ جو نظریاتی ظلم اور اجتماعی شعور پر حملے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر آج ہم اس کے خلاف یکجا نہیں ہوں گے تو ہمیں تقسیم کر کے گہرائی میں دفن کر دیا جائے گا۔'' بھارت کی مشہور مصنفہ کا نظریاتی ظلم کے خلاف ایک بھرپور قدم ہے۔ اس ضمن میں مزید کہتی ہیں کہ ''جو کچھ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے میں ان غیر انسانی رویوں پر بہت شرمندہ ہوں۔ میں نے 2005ء میں کانگریس کی حکمرانی کے دوران ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس لوٹایا تھا لہٰذا مہربانی کر کے مجھے کانگریس بمقابلہ بی جے پی والی پرانی بحث کا حصہ نہ بنایا جائے۔''
درحقیقت یہ الفاظ غفلت کی نیند سوئے ہوئے باشعور طبقے کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہیں، جن کے ہاتھ میں قلم ہے۔ ایک مکتبہ فکر وہ ہے جو ذاتی شہرت، مفاد پرستی اور مخصوص نظریے کا حامل ہے۔ یہ اہل قلم تمغے اور ایوارڈز کو زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں۔ اور عمر بھر عوامی زندگی سے دور رہتے ہیں۔ ایسے لوگ فقط اپنے دور تک محدود ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ لوگ جو اسٹیج، اعزازات و سندوں سے دور فقط اجتماعی شعور کی طاقت کو ساتھ لے کر، ذہنوں پر نئی سوچ کی دستک دیتے ہیں۔ ہر دور میں زندہ رہتے ہیں۔
دھرتی کی خوشبو میں ایک گہرا سحر ہے۔ یہ ملکیت کے معنی میں اگر لی جاتی ہے، تو انسان کبھی اس روئے زمین پر سکون سے نہیں رہ سکتا۔ زمین کا اپنا الگ اثر اور زرخیزی ہے۔ منفرد تاریخ اور ثقافت ہے۔ لہٰذا جو زمین کی خوشبو سے پیار کرتے ہیں وہ کسی طور غلط روایات سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ اس روایت کو زندہ رکھتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے سندھ کے عظیم اور منفرد لسانی ماہر اور تاریخ دان عطا محمد بھنبھرو صاحب اپنا ایوارڈ واپس کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اعزازات بے معنی ہیں اگر عوامی زندگی جبر اور تفریق کا شکار ہوتی رہے۔ ''انڈس اسکرپٹ'' کے نام سے لکھی ہوئی ان کی کتاب سندھ کی سرزمین کے لیے انمول خزانہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سچے، مخلص اور کام کرنے والے لوگ ہمیشہ پچھلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ملتے ہیں۔ مگر انھیں تالیوں اور اعزازات سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ کیونکہ جس زمین کے دریاؤں کا پانی، خون بن کے ان کی رگوں میں گردش کرتا ہے، اس احسان کا قرض انھیں چکانا ہوتا ہے۔
الیکشن کے دوران مودی نے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے جو دعوے کیے تھے وہ سچ ثابت نہ ہو سکے۔ لیکن اظہار کی آزادی کے قائل بھارت کے ادیب مستقل آواز اٹھا رہے ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ مشرق وسطیٰ کی طرح کہیں ایشیا بھی لالچ کی منڈی میں سرگرم، طاقتور قوموں کی اندھی خواہش پرستی کی نذر نہ ہو جائے۔ جو انتہا پسندی کو ہوا دے کر اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔