ہمارا یونانیات کا شناور
بس اچانک انکشاف ہوتا ہے کہ فلاں فلاں کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا۔
آدمی کی جان کے ساتھ قسم قسم کے چھوٹے بڑے امراض لگے ہوئے ہیں۔ ویسے تو ہر مرض طول پکڑنے کی صورت میں جان لیوا بن جاتا ہے۔ مگر بیچ بیچ میں کوئی ایسا مرض نمودار ہوتا ہے کہ آدمی کے لیے وہ چھوٹتے ہی موت کی ضمانت بن جاتا ہے۔ ایک وقت میں یہ مقام ٹی بی کے مرض کو حاصل تھا۔ جسے ٹی بی ہو جاتی سمجھا جاتا کہ اس کی زندگی کے دن گنے گئے۔ یہ موذی مرض اپنے عروج کے زمانے میں کیسے کیسے جوہر قابل سمیٹ کر لے گیا۔ اب یہ امتیاز کینسر کو حاصل ہے۔
بس اچانک انکشاف ہوتا ہے کہ فلاں فلاں کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا۔ اس مرض کی لاکھ دوا دارو کیجیے۔ سب بیکار۔ جو بچ نکلا سمجھ لیجیے کہ معجزہ ہو گیا۔ ہمارے ارد گرد کتنے اچھے اچھے لوگ تھے۔ کتنی خوبیوں کے مالک کینسر کی زد میں آ کر چٹ پٹ ہو گئے۔ یار ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ہماری دنیائے ادب میں بھی یہ مرض کتنوں کو کھا گیا۔ ابھی کل پرسوں باغ جناح کے کسمو پولیٹن کلب میں ایک ایسے ہی یار عزیز کو اس کی برسی کے حساب سے یاد کیا جا رہا تھا۔ عقیل روبی کتنی بولتی چہکتی مخلوق تھا۔ اپنے ناخنوں میں کتنے ہنر لیے پھرتا تھا۔ شاعری' افسانہ و ناول' علوم میں کس کس علم میں اس کا قدم تھا۔ اس کے یہ اوصاف محفل میں زیر بحث تھے۔
باقی ساری سرگرمیاں اپنی جگہ۔ مگر ہمارے حساب سے ایک سرگرمی اس کے لیے عشق کا مرتبہ رکھتی تھی۔ یونان کا وہ عاشق زار تھا۔ یونانیات میں ڈوبا ہوا۔ یونانی دیو مالا' یونانی رزمیہ' یونانی ڈرامے' یونانی شخصیات۔ ان میں سے کوئی شعبہ زیر بحث آ جاتا۔ پھر اس شخص کے تخیل کو پر لگ جاتے تھے۔ یونانی معلومات کا ذخیرہ اپنی جگہ۔ ان سے اشارہ لے کر جس طرح وہ رواں ہوتا تھا وہ اس کی اڑان اپنی جگہ۔
یونانی ڈرامے پڑھتے پڑھتے ان کے ترجموں پر اس کا قلم رواں ہو گیا۔ ایک ترجمہ جو سوفوکلینر کے کھیل ''اڈیپس' دی کنگ'' کا یہ ترجمہ ضیا محی الدین کی نظر سے گزرا۔ اسے انھوں نے پسند کیا اور اپنے ادارے ناپا کی طرف سے پیش کیا۔
ہم نے کہا کہ میرے عزیز' یہ تو تین کھیلوں کا سلسلہ ہے۔ پورے سلسلہ کو ترجمہ کیوں نہیں کر ڈالتے۔ مگر روبی کی سو طرح کی مصروفیات نے اسے یہ سلسلہ مکمل نہیں کرنے دیا۔ ہاں یونانی شخصیات سے جو اس کا شغف تھا اس کے ذیل میں ایک ناولٹ لکھ ڈالا، طرح کچھ اس طریقہ سے ڈالی کہ استادوں کا ایک گروپ ایک ٹنل سے گزر کر ماضی کے ایک زمانے میں جا نکلتا ہے۔ یہ یونان ہے اور سقراط کا زمانہ ہے۔ سقراط مرکزی کرار۔ دوسری یونانی شخصیات ذیلی کردار۔ اچھا بھلا دلچسپ ناول قدیم یونان کے بارے میں بن گیا۔
لیکن ذرا موصوف کی دلچسپیوں کا سلسلہ ملاحظہ فرمائیے۔ ایک طرف یونانیات میں غرق۔ دوسری طرف بمبئی اور پاکستان کی فلمی دنیا سے شغف۔ سو یونانی شخصیات کے ساتھ ساتھ فلمی دنیا کی شخصیات کے بارے میں بھی اتنا ہی ذوق و شوق۔ ساتھ میں فلمی گانے بھی وقتاً فوقتاً لکھتے رہے۔ یہ اچھا خاصا تضاد تھا۔ مگر اس تضاد کو اس نے کتنی خوبی سے نبھایا۔
لیکن ہمیں اس کے یونانی شغف بلکہ کہئے کہ عشق یونان میں زیادہ معنی نظر آتے تھے۔ ارے یونانیات تو اپنی جگہ پر ایک پورا علمی شعبہ ہے۔ مغرب کی ادبی روایت سب سے بڑھ کر اس ماخذ کی مرہون منت ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی دنیائے ادب میں اس کا چرچا بھی زیادہ ہے۔ خود یونانی دیو مالا ایک پوری اقلیم ہے۔ دیو مالاؤں کا اپنا سحر ہے۔ جس نے دیو مالا کی دنیا میں قدم رکھا پھر وہ دیو مالا کے سحر میں سمجھئے کہ آپ گرفتار ہو گیا۔ پھر آسانی سے تو آپ کو وہاں سے رہائی نہیں ملے گی۔ دیوی دیوتا قدیم یونان کے ہوں یا قدیم ہندوستان کے اپنا اپنا ایک سحر رکھتے ہیں۔ بلکہ ہم سے پوچھو تو ہم یوں کہیں گے کہ ہر دیو مالا اپنی جگہ جادو کا ایک جزیرہ ہے اور ہم آج تک یہ طے نہ کر سکے کہ یہ جو جادو کے دو بڑے جزیرے ہیں۔
یونانی دیو مالائی جزیرہ اور قدیم ہند کا دیو مالائی جزیرہ ان میں جادو کونسا بڑا ہے۔ یونانی یا ہندی۔ اگرچہ ہمارا ووٹ ہندی دیو مالا نے اچک لیا ہے۔ یہ جو کتھا کہانی کا مہا ساگر ہے وہ تو دیو نگری ہی سے ابل کر ان دیوی دیوتاؤں کے پرستاروں کی دنیا میں بہتا ہوا آیا ہے۔ مگر کیسے۔ یہ کہانیاں تو پاربتی کی فرمائش پر شوجی نے اس دیوی کو سنائی تھیں۔
کس نے چوری چوری سنا۔ کس طرح اس چوری کا راز فاش ہوا۔ چور کو کیسی کڑی سزا ملی کہ دیو نگری سے اسے نکالا گیا کہ ایسا چور ایسے پوتر نگر میں رہنے کا مستحق نہیں۔ اس نے سزا بھوگی۔ مگر اس چکر میں وہ کہانیاں دیو نگری سے نکل کر زمین کے باسیوں تک پہنچ گئیں۔ کتھا کہانی کی روایت کتنی دولت مند ہو گئی۔ مگر اے لو ہم بہک کر کدھر نکل گئے۔ ذکر تو عقیل روبی کا تھا۔ دیو مالاؤں سے اس کی دلچسپی کا۔ فلموں کے عاشق تو بہت مل جائیں گے۔ دیو مالاؤں کا ایسا شناور ہماری دنیائے ادب میں مشکل سے ملے گا۔ یونانی دیو مالا کی مالا جپنے والا' اس میں غوطہ زنی کرنے والا ہمارے ادب میں ایک اکیلا ہنر مند تھا۔ اسے موت نے ہم سے چھین لیا۔
عقیل روبی کا عجب طور تھا۔ یاران ادب کی محفلوں میں کس ذوق و شوق سے شریک ہوتا تھا۔ اور جب آتا تھا بھرے ہاتھوں آتا تھا۔ دوستوں کو نہال کر دیتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ذوق و شوق سے آتے آتے ایک دم سے غائب۔ مہینوں پتہ ہی نہ چلا کہ عقیل روبی کس کھوہ میں جا کر چھپ گیا۔
پھر ایک سہانی شام اچانک آن وارد ہوا۔ بارے اتنے مہینوں کہاں غائب رہا۔ معذرت کی کہ بیمار تھا۔ کینسر کی بیماری جان کے ساتھ لگ گئی تھی۔ اب مرض سے نجات ملی ہے تو آن حاضر ہوا ہوں مگر یہ اطمینان عارضی تھا۔ کینسر اس طرح تو جان چھوڑنے والا نہیں تھا۔ پھر محفل سے غائب۔ اب جب خبر آئی تو موت ہی کی خبر آئی۔ اس منحوس بیماری کے طفیل دیکھتے دیکھتے ہمارے کتنے عزیز ہمعصر لقمہ اجل بن گئے۔ انھیں کے پیچھے پیچھے عقیل روبی بھی جان ہار کر اس دنیا سے سدھار گیا۔ وقت کتنی جلدی گزرتا ہے۔ کتنی جلدی قبر پہ بکھرے پھول مرجھا گئے اور اب یار اس کی برسی پر اسے یاد کر رہے تھے۔