تیسرا بڑا خطرہ
بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کو سکیورٹی کے لحاظ سے تین بڑے خطرات کا سامنا ہے
بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کو سکیورٹی کے لحاظ سے تین بڑے خطرات کا سامنا ہے، پہلا خطرہ بیرونی دشمنوں سے ہے، دوسرا ملک کے اندر پھیلی ہوئی دہشتگردی سے اور تیسرا خطرہ ملک میں موجود دشمنوں کے آلہ کاروں سے ہے۔
جہاں تک پاکستان کے دشمنوں کا تعلق ہے تو ان کی کل تعداد ڈیڑھ ہے، ایک دشمن تو سراسر بھارت ہے جو ہمارے ملک کے ایک بازو کو توڑ کر اپنی پکی دشمنی کا ثبوت دے چکا ہے جب کہ آدھا دشمن افغانستان کو کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے موجودہ حکمراں بھارت کی شہ پر پاکستان دشمنی پر آمادہ ہیں۔ اس وقت پاکستان دفاعی طور پر اس قدر مستحکم ہوچکا ہے کہ اس پر حملہ کرنا تو کجا بھارت بری نگاہ ڈالنے سے بھی محروم ہوچکا ہے۔
وہ پاکستان کے جوہری شعبے میں اس سے آگے نکل جانے کی وجہ سے سخت پریشان ہے، گو وہ روس اور دیگر ممالک کے گٹھ جوڑ سے اپنی جوہری اور میزائل سازی کی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ عالمی پاور بننے کا اپنا سپنا پورا کرسکے مگر وہ اس ضمن میں اپنی مرضی کی کامیابیاں حاصل کرنے سے قاصر رہا ہے۔ اب اس نے اپنی کمزوری کا بدلہ پاکستان سے لینے کے لیے پاکستان کی جوہری طاقت کو محدود کرنے اور اس کے لیے سخت خطرے کا باعث بننے والے میزائلوں کی پیداوار کو رکوانے کے لیے امریکا سے رجوع کیا ہے۔
نواز شریف کے حالیہ دورے میں پاکستان کے کم فاصلے تک مار کرنیوالے میزائلوں کی پیداوار کو رکوانے کے لیے بھارتی میڈیا سرگرم تھا مگر پاکستان کی جانب سے پہلے ہی وضاحت کردی گئی تھی کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کو محدود کرنے یا روکنے پر کوئی دباؤ قبول نہیں کرے گا، چنانچہ امریکا کی جانب سے اس پر زور نہیں دیا گیا البتہ بھارت کے موقف سے ضرور آگاہ کیا گیا، دراصل امریکی حکمراں بھارت کی کسی بھی فرمائش کو رد کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ بھارت کی سوا ارب کی منڈی کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
بھارت کی فرمائش پر ہی امریکا پاکستانی جوہری اثاثوں کی سیکیورٹی پر اکثر سوال اٹھاتا رہتا ہے اور ان کے طالبان کے ہاتھ لگنے کے خدشے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہتا ہے جب کہ پاکستانی ایٹمی اثاثے کم سے کم بھارت کے ایٹمی اثاثوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔ جہاں تک بھارت کی طرف سے جارحیت کا تعلق ہے اس کا خطرہ ہر وقت موجود ہے کیونکہ موجودہ بھارتی حکمرانوں کا تعلق آر ایس ایس سے ہے، یہ مذہبی دہشتگرد تنظیم پہلے قیام پاکستان کی مخالف تھی اور اب پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہے، چنانچہ مودی حکومت سے کسی بھی بھلائی کی امید رکھنا عبث ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور افغان حکومت کی طرف سے بلاوجہ الزام تراشی کا مقصد پاک فوج کی ضرب عضب آپریشن سے توجہ ہٹانا مقصود ہے، مگر پاک فوج اپنے مشن میں سرخرو ہوکر رہے گی۔
پاکستان کو دوسرا بڑا خطرہ اندرونی دہشت گردی سے ہے، طالبان اور ان کی دوسری ہمنوا دہشتگرد تنظیمیں ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں مصروف ہیں، ان دہشتگردوں نے ملک کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا تو وطن عزیز کو بھارت سے جنگوں کی صورت میں بھی نہیں اٹھانا پڑا تھا۔ تاہم اب یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ طالبان اور دیگر دہشت گرد بھارتی اشاروں پر ہی ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں کراچی اور بلوچستان میں ''را'' کی دہشتگردی کے ثبوت حکومت حاصل کرچکی ہے جو اقوام متحدہ اور امریکا کو پیش کیے جاچکے ہیں۔
بلوچستان کو ملک سے علیحدہ کرنے کے لیے ''را'' نے بہت مضبوط جال بچھا دیا تھا، سیکڑوں بلوچ نوجوانوں کو بھاری معاوضے کی لالچ میں افغانستان میں تربیت دے کر بلوچستان کے طول و عرض میں پھیلا دیا گیا تھا۔ بعض معزز بلوچ رہنما بھی لالچ میں آکر ''را'' کے لیے کام کر رہے تھے، وہ ببانگ دہل بلوچستان کو آزادی دینے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ علیحدگی پسند دہشت گردوں نے سیکڑوں محب وطن بلوچوں کو قتل کیا املاک کو نقصان پہنچایا خاص طور پر سوئی گیس کی پائپ لائنوں اور بجلی کے ٹاوروں کو تباہ کیا جس سے عام بلوچوں کو گیس اور بجلی سے محروم کردیا گیا تھا۔
شکر ہے کہ جب سے ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے وہاں کے حالات معمول پر آگئے ہیں تاہم ابھی بھی کچھ دہشتگرد موجود ہیں جو پہاڑوں میں چھپ کر تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں، لیکن یہ دہشت گرد انتہائی مختصر تعداد میں ہیں اور اب چند دنوں کے ہی مہمان لگتے ہیں۔ ملک سے ناراض ہوکر باہر جانے والے بلوچ قائدین بھی اب واپس آنیوالے ہیں، اس لیے کہ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارا نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے کراچی کو بھی دہشتگردی سے پاک کردیا گیا ہے، پہلے یہاں روزانہ ہی ایک درجن معصوم شہری دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے اب دہشتگرد خود پولیس اور رینجرز کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ شہر میں امن بحال ہوچکا ہے اور لگتا ہے یہ تادیر قائم رہے گا۔
ملک کو تیسرا خطرہ ملک میں موجود دشمن کے ان آلہ کاروں سے ہے جو صحافت، تجارت اور درس و تدریس کے شعبوں میں چھپ کر بیٹھے ہوئے ملک کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ ملک کو لاحق بیرونی خطرے اور دہشتگردوں سے زیادہ خطرناک ہیں، کیونکہ یہ ملک کے نظریے اور اساس کو ڈھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ قیام پاکستان کو ہمارے بزرگوں کی ایک بڑی غلطی قرار دیتے ہیں، یہ قائداعظم پر طرح طرح کے الزامات لگا کر نئی نسل کو ان سے بدظن کرنے کے درپے ہیں۔ یہ رہتے تو اس ملک میں ہیں مگر تعریفیں پڑوسی ملک کی کرتے ہیں۔ وہ بھارت کو امن پسند، عوامی جارحیت کا پیکر اور اس کے جوہری اثاثوں کو اس کی ضرورت قرار دیتے ہیں جب کہ پاکستان کو دہشتگردی کا گڑھ اور اس کے جوہری اثاثوں کو دنیا کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ انھیں پاکستان کے ایٹم بم بنانے پر سخت اعتراض ہے کیونکہ ان کے نزدیک پاکستان جیسے چھوٹے ملک کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس سے فوجی اخراجات بڑھ رہے ہیں جس سے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ فوجی اخراجات کو کم ترین سطح پر لایا جائے۔
بھارت سے دوستی اور تجارت کو بڑھایا جائے تاکہ ملک بھارت کی سوا ارب کی منڈی سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر چونکہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس لیے اسے ایک طرف رکھ دیا جائے اور اسے کشمیریوں پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ اسے خود حل کرلیں یا پھر بھارت کے ساتھ مل کر اس کی ترقی میں حصہ دار بن جائیں۔ کیا کوئی محب وطن پاکستانی یہ باتیں برداشت کرسکتا ہے؟ایک مشہور و معروف شخصیت ایک یونیورسٹی میں درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ ہے۔ وہ لبرل ذہن رکھنے والے ایٹمی سائنسدان ہیں، وہ اکثر پاکستان کے جوہری پروگرام کو ہدفِ تنقید بناتے رہتے ہیں اور یہ تنقید سراسر ملک کے دفاعی مفادات کے خلاف تک جاتی ہے۔
حال ہی میں انھوں نے وزارت خارجہ کو اپنے ایک مضمون کے ذریعے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے بھارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس لیے کہ جنگ کی صورت میں پاکستان بھارت کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرسکتا ہے۔ ان صاحب کو پاکستانی ایٹمی ہتھیار بھارت کے لیے تو خطرہ نظر آتے ہیں مگر بھارتی ایٹمی ہتھیاروں سے انھیں پاکستان کو کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔ تعجب ہے کہ ایک پاکستانی کو اپنے وطن کے بجائے ایک دشمن ملک کی اتنی فکر لاحق ہے! اسی طرح ایک اور پاکستانی جنھیں نام نہاد پاکستانی ہی کہنا مناسب ہوگا کیونکہ وہ بھارتی محبت میں اندھے ہوچکے ہیں، وہ ایک سینئر صحافی بھی ہیں اور ٹی وی چینل پر مذاکروں میں بھارت کی تعریفوں کے ڈھیر لگاتے رہتے ہیں۔
یہی وہ شخص ہے جس نے چند سال قبل پاکستان سے بھارت جانیوالی ایک ٹیم کی سربراہی کرتے ہوئے اس کے ارکان کو بھارتی حکمرانوں سے دہلی میں کشمیر پر بات کرنے سے روک دیا تھا اور بھارتی حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کشمیر پر بات چیت کیسی، کشمیر تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ کیا ان اور ان جیسے دوسرے بھارت نوازوں کے خلاف کبھی کوئی آواز اٹھے گی یا نہیں؟