کچھ اپنے لیے بھی
مغرب کا وقت قریب تھا جب فون پر اطلاع ملی کہ رشتے کی ایک خالہ کا انتقال ہوا ہے
مغرب کا وقت قریب تھا جب فون پر اطلاع ملی کہ رشتے کی ایک خالہ کا انتقال ہوا ہے۔ مرحومہ ایک سیدھی سادی، مہذب، خوش اخلاق خاتون تھیں۔ ان دنوں اپنی صاحبزادی کے گھر تھیں، کافی عرصے سے بیمار تھیں، پہلے بڑی صاحبزادی کے گھر مقیم تھیں۔ ایسا نہ تھا کہ ان کے بیٹے اپنی ماں کی دیکھ بھال نہ کرسکتے ہوں لیکن بہویں ان کا اپنا خون نہ تھیں اور وہ والدہ مرحومہ کی دیکھ بھال کرنے سے محروم رہ گئے۔
ایک صاحبزادہ امریکا میں مقیم تھا جو ماں کے اخراجات کے لیے باقاعدہ خرچ بھیجتا رہتا تھا، کچھ برس قبل اس نے اپنی ماں کو اپنے پاس بلوالیا تھا لیکن بہو اور بیٹی کے بیچ کا فرق نہ فتح کرسکا، مجبور ہوکر دو مہینے بعد ہی وہ پاکستان لوٹ آئیں، ہر دم خوش رہتی نظر آنیوالی ایک دن ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے، ہر دوسرے تیسرے گھر میں اسی طرح کی کہانیاں ہیں، رشتوں کے الٹ پھیر میں الجھے لوگ اپنے اپنے اعمالوں کو سنوارنے کی کوششوں میں بھی لگے رہتے ہیں۔
نماز، روزہ، خیرات، صدقہ یہ سب بہت اچھے ہیں، ضروری بھی ہیں لیکن ان تمام اہم فرائض کے باوجود ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ در اصل ہمارے اﷲ کا اخلاق بہت بلند ہے ان کا ظرف بہت اعلیٰ ہے، ورنہ ذرا سوچیے ہم اور آپ کیسے کیسے گناہ بے لذت کرتے گزرجاتے ہیں جن سے دوسرے لوگوں کو یا مخلوقات کو تکلیف و ایذا پہنچتی ہے لیکن اﷲ کا اعلیٰ ظرف تو دیکھیے پھر بھی ہم سانس لیتے ہیں، دھڑاکے سے ان کی نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم اس پر اپنا حق سمجھتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ کتنی دیانت اور ہوشیاری سے ہم نے اپنا کام نکال لیا اور یوں نہ کرتے تو پھنس جاتے۔دیکھا اب کتنے فائدے میں رہے، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہماری ذہانت و عقل ہمارے اپنے بس میں کب ہے۔
ہم تو ان کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے لیکن یہ ہماری چھوٹی عقل کی کارستانی ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا اور اس عمل کو ہم اپنے کارگزاری سمجھتے ہیں۔ اکثر آپ نے بھی لوگوں کو کہتے سنا ہوگا کہ تم تو جانتے ہو کہ میں ایک نمبر کا کمینہ ہوں اتنی آسانی سے کیسے اسے چھوڑدیتا۔ گویا اپنے آپ کو رستم بنانے کے چکر میں گالی گلوچ بھی دے ڈالتے ہیں، بہویں ساس کی اور ساس بہوؤں کی برائی اور عیب تلاش کرنے میں جتی رہتی ہیں، نندیں، دیور، جیٹھانی اس طرح کتنے رشتے ایک دوسرے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح گھریلو سیاست سے منسلک کرلیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہمارا یہ عمل دوسروں کے لیے کتنا اذیت ناک ہوگا، کر گزرتے ہیں۔ ساس بھی کبھی بہو تھی کی بازگشت مسلسل سنائی دیتی ہے۔
وہ صاف رنگت کی درمیانی عمر کی خاتون تھی، ایک ڈیڑھ دو سال کا بچہ اس کی گود میں تھا، سامنے ایک آٹھ نو سال کی بچی بھی تھی، اس کے برابر پانچ چھ برس کی بچی تھی، ایک چار برس کا بچہ ادھر ادھر دلچسپ نظروں سے دیکھ رہا تھا، خاتون کی آنکھیں نم تھیں، بڑی بچی کی آنکھیں بھی بھیگی ہوئی تھیں، یہ چھوٹا سا گھرانہ دیوار کے سہارے بیٹھا اپنے غم میں مگن تھا ۔
ان کے دل دکھ سے بھرے تھے، تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ چھ برس کی بچی سسک پڑی تو ماں نے بے قرار ہوکر اسے اپنے گلے سے لگالیا، اسے روتا دیکھ کر سب سے بڑی بچی بھی رو پڑی، اب ماں اپنے آنسو نہ سنبھال سکی اور دونوں بچیوں کو اپنے سے لگاکر رو پڑی۔ یہ ایک عجیب صورتحال تھی، ادھر ادھر خواتین بیٹھی تھیں لیکن ان سے ان کے غم کی بابت کسی میں پوچھنے کی شاید ہمت نہ تھی لیکن ان کا رونا بہت تکلیف دہ تھا۔ویسے تو پوچھنا نہیں چاہیے لیکن اگر آپ بتانا چاہیں تو شیئر کرلینے سے انسان کا دل ہلکا ہوجاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کسی کی مدد کی ضرورت ہو تو اوپر والے کام کروانیوالے ہیں۔
وہ وسیلہ پیدا کرتے ہیں۔ ''نہیں ایسی کوئی بات نہیں، بس بچے پریشان ہیں'' وہ اپنے دل کے کرب کو بھرپور چھپانے کی کوشش کررہی تھیں۔''کیوں یہ کیوں پریشان ہیں، ان کی عمر ہے پریشان ہونے کی، چلو کھانا کھاؤ، کھانا کھایا تم نے'' بچیاں نفی میں سر ہلانے لگی، یقیناً رونے دھونے کے عمل میں بھوک کہاں لگتی لیکن بچے تو معصوم فرشتے ہوتے ہیں، ان سے ذرا پیار سے ان کی دلچسپیوں کی باتیں کریں تو وہ لگ جاتے ہیں بچیاں اور بچے قدرت کے اس خوب صورت دورانیے سے کہاں دور رہ سکتے ہیں۔''دراصل ہماری وٹہ سٹہ کی شادیاں ہیں، میری نند میرے بھائی سے بیاہی ہوئی ہے اور اس کے بھائی سے میری شادی ہوئی تھی، بس خاندانی مسئلے''
''شوہر تنگ کرتا ہے اسی لیے آپ پریشان ہیں''
''نہیں میرا شوہر تو بہت اچھا ہے وہ ایک مل میں کام کرتا ہے اس کی تنخواہ ساڑھے چھ ہزار ہے، اتنی سی تنخواہ میں گزارا ہوتا ہے نہ پوچھیے چلیں غریبی تو اوپر والے کی طرف سے ہے یہ مسئلے تو انسان کے اپنے پیدا کردہ نہیں، ایک آنسو اس کی پلک میں الجھا۔''کہیں آپ کا بھائی تو نند کو مارپیٹ نہیں کرتا'' شک ابھرا۔ ''نہیں میری نند خود بہت تیز ہے وہ خود لڑتی جھگڑتی ہے اور گھر آجاتی ہے یہاں آکر وہ بہت تنگ کرتی ہے بات بات پر غصے رہتی ہے ایسے ایسے طعنے کہ دل کٹ کر رہ جاتا ہے''
''کتنے بچے ہیں اس کے''
''بچے نہیں ہیں''
وہ چاہتی ہے کہ میرے بھائی کو دکھ دے۔ اس پر کوئی ٹینشن نہ رہے، چاہتی ہے کہ میرا شوہر مجھے طلاق دے یا میں گھر جاکر بیٹھ جاؤں، ایسا کیسے ہوسکتا ہے میں کیسے گھر جاکر بیٹھ جاؤں، میرا شوہر اچھا ہے، ہم کم تنخواہ میں بھی گزارا کررہے ہیں۔''
''ابھی آپ کے شوہر کو علم ہے کہ آپ کہاں ہیں''
''نہیں وہ سمجھ رہا ہے کہ میں امی کے یہاں ہوں۔ نند تو گھر پر ہے۔ بس دل گھبراتا ہے تو یہاں چلی آتی ہوں۔ دکھ کم کرنے، کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کروں۔
''آپ اپنی نند کو دل سے معاف کردیں، آپ سمجھیے کہ جیسے وہ ہے ہی نہیں وہ جو کچھ کہے سنے آپ خاموش رہیں''
''بہت مشکل ہے یہ''۔ دل کٹتا ہے۔
کرکے تو دیکھیے۔ ایک کوشش کرکے تو دیکھیے آپ اﷲ تعالیٰ سے دل سے دعا کریں ادھر ادھر جانے سے آپ کے غم کا کچھ نہیں بننا یہ بچے ہیں ان کی شخصیت پر گھر کے مسائل کا برا اثر پڑے گا۔ اپنے بچوں کے لیے آپ کو اپنے رب سے مضبوط رابطہ پیدا کرنا ہوگا، یہ آپ آسانی سے گھر بیٹھ کر کرسکتی ہیں اسے علاج کے طور پر کرکے دیکھیے، یوں سمجھیے کہ اﷲ منتظر ہے کہ میری بندی کب مجھ سے رابطہ کرتی ہے۔ میں اتنی پڑھی لکھی نہیں ہوں، کچھ سمجھتے ہوئے بھی اس نے ایک آخری عذر پیش کیا اس میں پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں علاج آپ کا اپنے پاس ہے، آپ کا ایک چھوٹا عمل ایک چھوٹی سی پریکٹس آپ کے گھر کے حالات پر اچھے اثرات مرتب کرسکتی ہے۔
وہ سمجھی یا اس کے پلے کچھ نہ پڑا لیکن کوشش کرنے کا عمل جاری رہنا چاہیے یہ ایک آسان سی پریکٹس ہے، گھریلو رنجشیں انسان کو اس کے درجے سے اتنا گرادیتی ہیں کہ وہ حیوان بن جاتا ہے جو ایک باپ سے اپنی ہی آٹھ نو سالہ بیٹی کو محض اس لیے قتل کروادیتا ہے کہ اس نے روٹی گول نہیں بنائی، بیوی کو کلہاڑی سے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے کہ اس نے وقت پر کھانا نہیں دیا، وٹے سٹے کی شادیوں پر دہائیاں دی جاتی ہیں لیکن انسانی فطرت کی کم ظرفی پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا ہم بنیاد کو نہیں دیکھتے اوپری اوپر جھاڑیاں ترشوانے کو اہمیت دیتے ہیں، ہر وقت ایک دوسرے سے گلے شکوے کرتے رہتے ہیں لیکن اﷲ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے دل نہیں ڈرتے، ہمارے رب ہمیں مہذب، شکر گزار دیکھنا پسند کرتے ہیں اور یہاں جاہلانہ عقائد اور نا شکری کے پل پر پل تعمیر ہیں۔ لیکن کوشش کرتے رہیے کہ اچھے عمل کرنے میں فائدہ ہمارا ہی ہے۔