جب کوئی پیار سے بلائے گا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری لاہور میں کسی سے زیادہ واقفیت نہیں تھی،
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری لاہور میں کسی سے زیادہ واقفیت نہیں تھی، اسٹوڈیوز کے علاوہ میرا زیادہ تر وقت لاہور کے ایک فلمی ہفت روزہ کے دفتر میں گزرتا تھا۔ جس کا میں ان دنوں میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گیا تھا اور ایڈیٹر انور چوہدری سے میری بے تکلف دوستی ہو گئی تھی، گوال منڈی چوکی کے جس علاقے میں اور جس بڑی سی بلڈنگ میں مذکورہ اخبار کا دفتر تھا، اسی بلڈنگ سے چند قدم کے فاصلے پر انور چوہدری کی ایک اور ذاتی بلڈنگ بھی تھی۔
اس زمانے میں نیا نیا وی سی آر مارکیٹ میں آیا تھا۔ انور چوہدری کا اپنا ایک مخصوص کمرہ تھا جہاں میں اور وہ زیادہ تر ہندوستانی فلمیں دیکھا کرتے تھے، انور چوہدری نے ایک دن بتایا۔ یونس ہمدم! ہماری اسی گلی کے نکڑ والی بلڈنگ میں مشہور شاعر خواجہ پرویز بھی رہتا ہے، اسے گھر سے زیادہ، باہر کے گرم حمام میں نہانے کی عادت ہے اور سردیوں کے دنوں میں تو وہ تقریباً روزانہ ہی صبح ہی صبح ہمارے سامنے سے گزرتا ہے۔ میں نے یہ سن کر انور چوہدری سے کہا یار تو پھر کسی دن میری بھی اس سے ملاقات کراؤ، میں تو اس کے گیتوں کا بڑا شیدائی ہوں۔
ان دنوں لاہور کی فلم انڈسٹری میں خواجہ پرویز کے گیتوں کا بڑا چرچا تھا، ہر دوسری اردو فلم اور ہر دوسری پنجابی فلم میں خواجہ پرویز ہی کے لکھے ہوئے گیت ہوتے تھے، خواجہ پرویز ایک عام سی بات بڑی ہنرمندی سے گیت کی صورت میں ڈھال دیتا تھا اور یہ خوبی ان دنوں نغمہ نگار تسلیم فاضلی کے بعد خواجہ پرویز کی شاعری کا منہ بولتا ثبوت تھی، انور چوہدری اور میں خواجہ پرویز کے بارے میں باتیں کر رہے تھے، چوہدری بولا آج کل تو اکثر یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنے آفس کی بلڈنگ کے باہر دھوپ سیک رہے ہوتے ہیں، وہ کندھے پر تولیہ ڈال کے چپ چاپ تیزی سے ہمارے پاس سے گزر جاتا ہے۔
ان دنوں لاہور میں سردیوں کے دن تھے، دوسرے دن میں بھی انور چوہدری کے ساتھ ان کے آفس والی بلڈنگ کے باہر چبوتریپر کھڑا دھوپ سیک رہا تھا کہ انور چوہدری نے مجھے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھو خواجہ پرویز آ رہا ہے میں نے اسی طرف دیکھا تو گرم حمام سے نہانے کے بعد اپنے کاندھے پر ایک بڑا سا سفید تولیہ ڈالے ایک تندرست و توانا سرخ و سفید اور لحیم شحیم شخص گلی کی طرف آتا نظر آیا۔
جب وہ نظریں جھکائے گلی کے اندر مُڑنے لگا تو انور چوہدری نے آواز لگائی، خواجہ صاحب کدی سانوں وی لفٹ کرا دیا کرو، انور چوہدری کی آواز سن کر خواجہ پرویز ہماری طرف متوجہ ہوا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا کی گل اے چوہدری آج بڑے موڈ وچ نظر آ رہے او، انور چوہدری نے خواجہ پرویز کے قریب آنے کے بعد کہا۔ اے یونس ہمدم صاحب نیں کراچی توں آئے نے، تہا ڈے بڑے پرستار ہیگے نے، خواجہ پرویز نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا تو میں نے اپنا مختصر تعارف کراتے ہوئے کہا میں بھی کراچی کا ایک شاعر ہوں، نگار ویکلی کراچی کا نمایندہ بن کر آیا اور چوہدری صاحب کے 'اخبار فلم' میں بھی اسسٹنٹ ایڈیٹر ہو گیا ہوں اور سب سے بڑی بات آپ کے گیتوں کا شیدائی ہوں پھر میں نے کہا آپ کے ایک گیت ''جب کوئی پیار سے بلائے گا' تم کو ایک شخص یاد آئے گا'' نے مجھے آپ کا دیوانہ بنا دیا ہے، آپ سے ملنے کی آرزو تھی، وہ آج پوری ہو گئی ہے، خواجہ پرویز نے پھر دوبارہ بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
یار تم شاعر بھی ہو اور نگار ویکلی کراچی کے نمایندے بھی، نگار کے ایڈیٹر الیاس رشیدی ہمارے بڑی مربی اور مہربان ہیں، اس لیے تم بھی ہمارے لیے پیارے ہو، کبھی ایورنیو اسٹوڈیو میں تمہیں وقت ملے تو ضرور ملنا اور اس کے بعد خواجہ پرویز ہاتھ ہلاتے ہوئے اندر گلی میں مڑ گئے اور یہ تھی میری لاہور کی فلم انڈسٹری کے مشہور اور معروف ترین نغمہ نگار خواجہ پرویز سے پہلی ملاقات۔ پھر وقت کسی پرندے کی طرح اڑتا رہا، میں نے فلمی صحافت کو خیر باد کہہ کر بحیثیت مصنف اور نغمہ نگار لاہور کی فلمی دنیا میں اپنی بھی ایک شناخت پیدا کر لی اور ایک وہ وقت بھی آیا کہ میں جس نغمہ نگار کا شیدائی تھا۔
اس نغمہ نگار کے ساتھ رنگیلا کی فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے گیت لکھ رہا تھا۔ اس فلم میں میرے تین گیت مہدی حسن، مسعود رانا اور نیئرہ نور کی آوازوں میں ریکارڈ ہوئے تھے اور تین ہی گیت خواجہ پرویز کے بھی لکھے ہوئے تھے، خواجہ پرویز سینئر ترین گیت نگار تھے، اس نے ایک نو وارد نغمہ نگار کو بڑی خوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا اگر وہ چاہتا تو میرے راستے میں رکاوٹ پیدا کر سکتا تھا مگر خواجہ پرویز اپنی ذات میں ایک فقیر منشآدمی تھے۔ بے پناہ شہرت، بے شمار مشہور فلمی گیتوں کے خالق تھے مگر اس میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
اب میں خواجہ پرویز کی شخصیت اور اس کی شاعرانہ جد و جہد کی طرف آتا ہوں، خواجہ پرویز کا گھریلو نام خواجہ محی الدین تھا، ان کے والدین کا تعلق کشمیر سے تھا پھر یہ کشمیر سے امر تسر آ گئے، پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی محبت انھیں لاہور لے آئی، خواجہ پرویز نے دیال سنگھ کالج لاہور سے گریجویشن کا امتحان پاس کیا۔ ایک دن اپنے کلاس فیلو ظفر اقبال کے والد مشہور فلمساز و ہدایت کار ولی صاحب سے جب ان کی پہلی ملاقات ہوئی تو پھر فلمی دنیا سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس طرح ولی صاحب نے خواجہ پرویز کو اپنا اسسٹنٹ بنا لیا، اس دوران ولی صاحب کی فلموں گُڈی گُڈا، سوہنی کمہارن اور ''لکن میٹی میں'' بطور اسسٹنٹ کام کیا۔ ولی صاحب کی ایک فلم ''گُڈی گُڈا'' کی کامیابی کے بعد ان کی دیگر دونوں فلمیں بری طرح فلاپ ہو گئی تھیں اور ولی صاحب عرش سے فرش پر آ گئے تھے۔
ان کا فلمساز ادارہ بند ہو گیا مگر خواجہ پرویز کے اب فلمی لوگوں سے اچھے خاصے تعلقات پیدا ہو چکے تھے۔ ولی صاحب کے بعد یہ فلمساز اور شاعر سیف الدین سیف کے پروڈکشن سے وابستہ ہو گئے، یہاں سیف صاحب کی شاعرانہ شخصیت نے خواجہ پرویز کو بھی شعر و شاعری کی طرف راغب کر دیا اور آہستہ آہستہ خواجہ پرویز بھی شاعری کرنے لگے، انھی دنوں اداکار دلجیت مرزا نے بطور فلمساز اپنی فلم ''رواج'' کا آغاز کیا، دلجیت مرزا کی خواجہ پرویز سے بے تکلفی تھی، خواجہ پرویز نے ایک دن باتوں، باتوں میں اپنی شاعری بھی سنا دی۔ دلجیت مرزا کو وہ شاعری اچھی لگی پھر دلجیت مرزا نے ہی پہلی بار خواجہ پرویز کو بطور گیت نگار اپنی فلم ''رواج'' میں متعارف کرایا اور خواجہ پرویز نے اپنا پہلا گیت اس فلم کے لیے لکھا جس کے بول تھے ''کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا'' پھر فلموں میں گیت لکھنے کا سلسلہ چل پڑا اور اس طرح ان کی ملاقات فلمساز شباب کیرانوی سے بھی ہو گئی،پھر شباب صاحب نے خواجہ پرویز کو اپنی فلم ''سنگدل'' میں موقع دیا، سنگدل کے لیے لکھے گئے گیت نے خواجہ پرویز کی ہر طرف دھوم مچادی تھی، یہ گیت فلم سنگدل کی ہائی لائٹ تھا جس کے بول تھے۔
''سن لے او جان وفا''
یہ گیت احمد رشدی کی آواز میں ندیم پر اور مالا کی آواز میں دیبا پر عکس بند کیا گیا تھا اس گیت کے بعد خواجہ پرویز بھی معروف گیت نگاروں میں شامل ہو گئے تھے۔ ''سنگدل'' کے بعد دیگر فلموں ''فسانہ دل'' اور ''درد'' میں لکھے گئے گیت بھی مقبولیت کی سند بنے خاص طور پر یہ گیت:
سامنے آ کے تجھ کو پکارا نہیں
تیری رسوائی مجھ کو گوارا نہیں
یہ گیت مہدی حسن کی خوبصورت آواز میں بڑا مقبول ہوا تھا۔ پھر خواجہ پرویز کے لکھے ہوئے یکے بعد دیگرے کئی گیت ہٹ ہوتے چلے گئے، انھی گیتوں میں فلم ''آنسو'' کا ایک گیت بھی تھا جسے نور جہاں اور مسعود رانا نے الگ الگ گایا تھا، گیت کے بول تھے:
تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں
جیسے صدیاں بیت گئیں
اس کے موسیقار نذیر علی تھے اس گیت سے وہ بھی شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئے تھے، پھر تو خواجہ پرویز نے گیتوں کے انبار لگا دیے اگر میں ان کے سارے گیتوں کا تذکرہ کروں تو میرے کالم کا دامن چھوٹا پڑ جائے گا، مجھے یہ کہتے ہوئے بھی بڑی خوشی ہوتی ہے کہ میں نے خواجہ پرویز کے گیتوں کو سنا تھا اور ان کے گیتوں کا شیدائی بن گیا تھا پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ میں فلمی دنیا میں بحیثیت گیت نگار ان کا ہم عصر بھی بن گیا تھا میں نے کئی فلمیں ان کے ساتھ لکھیں ان فلموں میں صبح کا تارا ، کس نام سے پکاروں، لاڈ پیار بیٹی'' اور سرور سکھیراکی فلم ''لال آندھی'' کے نام شامل ہیں، اب میں اس گیت کی طرف آتا ہوں جو لکھا تھا، خواجہ پرویز نے اور اس گیت کی وجہ سے شہرت ملی تھی استاد نصرت فتح علی خان کو اور پھر نصرت فتح علی خان ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں پوجے جانے لگے تھے جس گیت نے ہر طرف ہلچل سی مچا دی تھی وہ گیت تھا۔
''آ جا تینوں اکھیاں اُڈیک دیاں''
آج جب کہ خواجہ پرویز اس دنیا میں نہیں ہیں تو بے شمار آنکھیں پیار کی چمک لیے اڈیک رہی ہیں، اسے تلاش کر رہی ہیں اور خواجہ پرویز کا یہ گانا بھی ''جب کوئی پیار سے بلائے گا، تم کو ایک شخص یاد آئے گا'' جب بھی سماعت سے ٹکرائے گا تو انگنت آنکھیں شبنمی ہو جائیں گی۔