ڈرائیونگ لائسنس مہم
سنجیدگی اور تدبر سے سوچنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ چہرے یا لباس بدلنے سے ہمارے ملک کے حالات نہیں بدل پائے۔
سنجیدگی اور تدبر سے سوچنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ چہرے یا لباس بدلنے سے ہمارے ملک کے حالات نہیں بدل پائے۔ شیروانی سے لے کر مختلف یونیفارم کو دیکھ لیں انھیں زیب تن کرنیوالی صورتیں کبھی کوئی غیر معمولی تبدیلی وطن عزیز میں لانے پر منتج نہیں ہوسکیں۔ ہماری ملکی تاریخ کے حوالے سے ''پورا سچ'' یہی ہے کہ چہرے یا لباس بدلنے سے ملک کے حالات نہیں بدلے۔ 1973 کا آئین بنانیوالوں نے بھی دعوے کیے کہ اب کوئی طالع آزما جنرل مارشل لاء نہیں لگا سکے گا۔
لیکن 5 جولائی 1977 کو آئین طالع آزمائی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا اور نہ ہی 12 اکتوبر 1999 کی رات کو اسمبلی کی دو تہائی اکثریت آمر کے نظم و نسق سنبھالنے میں دیوار بن سکی۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے سیاستدان بھی اس ملک پر کئی سال تک حکمراں رہے۔آمریت بھی سیاہ اور سفید کی مالک رہی، لیکن پاکستان اسی عرصے میں دولخت ہوا، اقتصادی زوال اس کا مقدر بنا، اخلاقی بحران اس کی شناخت اور کرپشن میں اضافہ ہوا، لوگ انصاف سے محروم رہے، میرٹ کا قتل عام ہوا، کسی بھی صوبے کو صوبائی خودمختاری نصیب نہ ہوسکی، تعلیم کا معیار گرا، نوجوانوں میں فرسٹریشن بڑھی۔
تاریخ جو اس انحطاط کی عینی شاہد ہے۔ اس کے نزدیک جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں کی غلطیاں اس المناک صورتحال کا سبب بنتی رہی ہیں۔ دونوں کی قیادتیں کبھی کسی دور میں ملک کو صحیح راستے پر گامزن نہ کرسکیں۔ماضی کی طرح اس وقت پھر پاکستانی ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں کہ مکمل اور موثر ''گڈ گورننس'' کی طرف جانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے۔ کیونکہ پاکستان کے انتہائی اہم صوبے سندھ میں گورننس کا نظام تباہ و برباد ہوتا دکھائی دے رہا ہے، کراچی میں آج بھی سخت آپریشن کے باجود جنگل کا قانون چل رہا ہے۔
کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے معاشی، اقتصادی اور حساس ترین شہر میں 26 لاکھ لوگوں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس کا نہ ہونا سیکیورٹی کے لیے کس قدر خطرناک ہے ہر ذی ہوش بخوبی جان سکتا ہے۔ کراچی کے بڑے بڑے ٹرانسپورٹرز نے واشگاف لفظوں میں میڈیا کو بتایا ہے کہ یہاں 60 فیصد ڈرائیوروں کے پاس جعلی لائسنس ہیں، بیشتر ڈرائیورز کے پاس دو سے چھ لائسنس ہیں جو قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور ٹریفک قوانین کے حامل اداروں کی ذات یا ان کے کردار پر سوالیہ نشان ہیں۔ڈرائیونگ لائسنس کی مہم کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ اچانک شروع نہیں کی گئی، گزشتہ دو سال سے عوام الناس کو لائسنس بنوانے کے لیے کہا جا رہا تھا۔
ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے کے خلاف شروع ہونے والی مہم کے پہلے دن ہی ٹریفک پولیس نے 30 لاکھ روپے بھتہ اکٹھا کیا، ہزاروں گاڑیوں کو روک کر ان کا چالان کیا گیا یا ان سے چالان نہ کرنے کے عوض فی کس 500 روپے سے لے کر 5000 تک وصول کیے گئے، ورنہ ٹریفک پولیس کے ہتھے چڑھنے والے معزز شہریوں اور ڈرائیورز کو ان کی گاڑیاں بند کرنے یا انھیں جھیل بھیجنے کی دھمکیاں دے کر خوفزدہ کیا جاتا رہا۔
یہ تمام ''الزامات'' وفاقی حکومت کو بھیجی گئی ایک خصوصی رپورٹ میں دہرائے گئے ہیں جو ایک اہم ملکی ادارے کی جانب سے کراچی میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں تیار کی گئی تھی۔ بعض ڈرائیونگ لائسنس برانچز میں ستھرا یا موثر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہنگامہ آرائی ہوئی جسے روکنے کے لیے پولیس نے الٹا شہریوں پر ڈنڈے برسائے، جس سے شہریوں میں حکومت کے خلاف جذبات بھڑکے اور اس صورتحال کو روکنے کے لیے صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کو مداخلت کرنا پڑی اور یوں ٹریفک پولیس کو مہم کو فوری طور پر 3 ماہ کی توسیع دینی پڑی۔
اس تصویر کا دوسرا رخ کچھ یوں ہے کہ ڈی آئی جی ٹریفک ڈاکٹر امیر شیخ نے ٹریفک پولیس میں موجود 200 ''کالی بھیڑوں'' (افسران اور اہلکار) کو ٹریفک پولیس سے نکال کر رینج پولیس بھجوانے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ یہ امر بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ لائسنسنگ برانچ نے مہلت میں اضافے کے بعد اپنے عملے میں ماہر ڈاکٹروں کے اضافے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں تاکہ طبی طور پر ان فٹ افراد کو ڈرائیونگ لائسنس جاری نہ ہوسکے۔
ڈرائیونگ لائسنس دنیا کے تمام ممالک میں قدرتی عمل سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے پاکستان میں اس کے لیے باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت پڑ رہی ہے جو ''گڈ گورننس'' کا راگ الاپنے والے معتبر اور ذمے دار لوگوں یا حکمرانوں کی سب سے بڑی نااہلی نہیں تو پھر اور کیا کہی جاسکتی ہے؟ کراچی میں 26 لاکھ گاڑیاں بغیر لائسنس اور سرٹیفکیٹس کے چل رہی ہیں اور سندھ پولیس، ٹریفک پولیس ہر ڈرائیور سے 50 روپے مٹھی میں تھام کے قانون کی دھجیاں روزانہ سڑکوں پر دن دہاڑے اڑاتی چلی آئی ہے اور یہ تماشا روزانہ سیکڑوں شہری اور راہ گیر دیکھتے آرہے ہیں۔
بڑے افسوس اور شرمساری کے ساتھ یہ بھی بتانا یا تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی سے ہمارے ملک پاکستان کو باہر کردیا گیا ہے اور بہرطور یہ ہماری حکومتی ناکامی ہی کہلائے گی، عالمی ڈپلومیسی میں کسی ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا عمل دخل نہیں ہوتا، انسانی حقوق کمیٹی سے پاکستان کے اخراج کی وجہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ ہمارے خراب ہوتے تعلقات ہوسکتے ہیں۔
ویسے بھی پاکستان کافی عرصے سے امریکا، بھارت اور افغانستان کے ساتھ معاملات میں الجھا ہوا ہے شاید اس لیے ان معاملات پر توجہ نہ دی جاسکی ہو؟ڈرائیونگ لائسنس کی تجوید کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ عوام کی غالب اکثریت بعض ڈرائیونگ لائسنس برانچوں میں ''ایجنٹ مافیا'' کے ہاتھوں بھی خاصی پریشان نظر آتی ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ ایجنٹ پیسے کے عوض بغیر قطار کے لائسنس بنوا دیتے ہیں اور ان ایجنٹوں کو برانچوں کے عملے کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔
عوام کی اکثریت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس کی شفافیت اور اسے سہولت سے حاصل کرنے کا ایک شافی حل یہ ہے کہ یہ کام ''نادرا'' کے سپرد کرنا چاہیے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی میں شہریوں کی سہولت کے لیے خطیر رقم سے تیار کی گئی ''موبائل ڈرائیونگ لائسنس برانچ'' پولیس افسران کی باہمی چپقلش کے باعث گزشتہ ایک سال سے بے کار پڑی ہے، اس موبائل یونٹ سے بنائے گئے تربیتی لائسنس بھی کام میں نہیں لائے گئے۔
خطیر رقم کی لاگت سے تیار کی گئی یہ گاڑی بولٹن مارکیٹ کے قریب ایڈیشنل آئی جی ٹریفک کے دفتر میں کھڑے کھڑے خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور اب ایک سال گزر جانے کے بعد اس تباہ اور خستہ حال گاڑی کو ایڈیشنل آئی جی ٹریفک کے دفتر کے احاطے سے ڈرائیونگ لائسنس برانچ کلفٹن منتقل کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس گاڑی کو کھڑا کیے جانے کے بعد ایک ماہ کے دوران اس کی مدد سے بنائے گئے تربیتی لائسنس بھی کام میں نہیں لائے گئے اور وہ لائسنس لے کر برانچز میں جانے والے شہریوں کا ڈیٹا ہی نہیں مل سکا تھا۔ جس کی وجہ سے ایسے شہریوں کے تربیتی لائسنس دوبارہ بنائے گئے تھے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وطن کی بقا اس کی فلاح، اس کی معیشت اور اس کے نظام و انتظام کی بہتری کے لیے ہمارے سینئر تجزیہ کار جن قومی اور جمہوری معاملات اور مفادات کا حوالہ دے رہے ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مفادات نیک نیتی اور مفاہمت سے حاصل کیے جائیں۔
ہمارے ارباب اختیار کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ آپس میں دست و گریباں ہونے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا اداروں کے تصادم سے کچھ ہاتھ نہیں آنیوالا سوائے ذلت و رسوائی کے۔ملک و ملت پر نگاہ کی جائے تو پتہ چلے گا کہ ماضی کی طرح اس وقت پھر پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے کہ مکمل اور موثر ''گڈ گورننس'' کی طرف جانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ معاشی، سماجی اور عملی طور پر بہت پیچھے رہ جانے والی پاکستانی قوم اب ترقی کی منزل کی طرف جانے والا ایسا راستہ چاہتی ہے جس پر مزید کوئی رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔