عوامی مسائل
ہمارا وطن پاکستان واقعی ایک خداداد مملکت ہے،
ہمارا وطن پاکستان واقعی ایک خداداد مملکت ہے، اس کا ثبوت یہ ہے اس وطن کے حکمرانوں نے کبھی نادانیوں سے، کبھی معاشی اقتصادی رویوں سے، کبھی دہشت گردی غنڈہ گردی اور کبھی اختیارات کے ناجائز استعمال سے وطن عزیز کو برباد کرنے، تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس وطن کے سب سے زیادہ کچلے جانے والے وہ لوگ ہیں جو درمیانہ طبقہ کے ہیں، جن کا روزگار اتنا محدود ہے کہ وہ بمشکل اپنے گھر کے اخراجات پورے کرسکیں۔ یہ طبقہ معاشی دباؤ کا شکار ہے، ان کی زیادہ سے زیادہ ماہانہ آمدنی 10 ہزار سے لے کر 25 ہزار تک ہوتی ہے، ان جیسے گھرانوں میں بے روزگاری بھی ہوتی ہے۔ ایسے طبقہ کا تناسب 50 فیصد سے زیادہ ہے، جب کہ غریب کا تناسب ملا کر 85 فیصد ہوتا ہے۔ اس وطن کو کم سے کم 500 خاندان مل کر لوٹ رہے ہیں، یہ خاندان مالی طور پر اتنے مستحکم ہیں کہ ان کا انداز زندگی شاہانہ ہے۔ ان کی دعوتوں میں چاندی کے برتن اور سونے کے چمچ استعمال ہوسکتے ہیں اور بہت سے استعمال بھی کرتے ہیں، ان کی جمع پونجی املاک کی شکل میں پاکستان میں ہے تو کھربوں روپے کی غیر ملکی مالیت بیرون ممالک میں ہے۔
انھوں نے اپنے آپ کو سیاستدان کے طور پر پہچانوایا ہے، حالانکہ حقیقی سیاست دان وہ ہوتا ہے جو قوم اور ملک کی ترقی کی تدبیریں کرے، جیسے کہ کم سے کم ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک ہوتا رہا۔ اس وقت حقیقی سیاستدان اور پیدائشی رہنما تھے لیکن اب تو حالت یہ ہے کہ جیسے ہی اقتدار ملتا ہے، یہ ناجائز کمائی کی طرف پہلے دھیان دیتے ہیں اور مال و زر میں مسلسل اضافہ ہونے لگتا ہے، مگر غریب اور متوسط طبقہ کے لیے زندگی کو آسان بنانے کے لیے کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے ان کے روزمرہ کے معاملات میں مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ کسی وزیراعلیٰ، کسی وزیراعظم، کسی وزیر نے توفیق نہیں کی کہ وہ کم سے کم یوٹیلٹی کے معاملات سہل بنائے۔ کہیں کسی ادارے پر خواہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری خاص طور پر بینک، بجلی، پانی، گیس، تعمیراتی ادارے ہوں یا کوئی اتھارٹی، جہاں چاہیں جاکر معلوم کریں کہ جو لوگ پاکستان کے آئین و قانون اور رولز کے مطابق اپنا کام کروانے جائیں تو ان کے کام کا پروسیس اتنا دقیق بنادیا گیا ہے کہ سوائے ایجنٹ کے سہارے کے بغیر کوئی کام مکمل نہیں ہوتا۔
وہ ایجنٹ بھاری رقم وصول کرتا ہے۔ اس کام پر سب سے زیادہ توجہ اور ذمے داری ان پارلیمنٹ ارکان پر آتی ہے جو عوام کے ووٹ سے پارلیمنٹ کے ممبر بن جاتے ہیں اور خاصی تنخواہ اور شاہی مراعات سے خود بھی مستفیض ہوتے ہیں اور اہل خانہ بھی۔ ان کے آگے پیچھے سیکیورٹی کے نام پر محافظ گاڑیاں ہوتی ہیں اور خود پجارو میں بادشاہوں کی طرح سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ کاش یہ لوگ کم سے کم اتنا حق تو ادا کریں کہ جہاں جہاں عوام کو یوٹیلٹی کے معاملات کے لیے جانا ہوتا ہے وہاں ان کو ڈاکومنٹس کے نام پر کتنا تنگ کرتے ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا جو فی زمانہ بہت موثر ہے، وہ بھی عوام کی ان مشکلات کو منظرعام پر نہیں لاتا ہے۔
مجھے پھر ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے کی مثال دینی پڑ رہی ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے میں پاسپورٹ کے حصول کا پیچیدہ طریقہ بدل کر اتنا سہل کردیا تھا کہ ایک عام مزدور بھی جاکر چوبیس گھنٹہ میں اپنا پاسپورٹ بنواکر بیرون ملک روزگار کے لیے جانے لگا، جب کہ اس سہل نظام سے پہلے پاسپورٹ صرف وی آئی پیز ہی بنوا سکتے تھے یا پھر کسی وی آئی پی کی سفارش سے بنتا تھا۔ کیا آج جب کہ کمپیوٹرائز سسٹم کا رواج عام ہوچکا ہے تو ارباب اختیار وزیراعظم سے لے کر ایک سیکریٹری تک منصب والے کیوں توجہ نہیں دیتے؟ کیوں نہیں آسان طریقہ اختیار کرتے؟ کیوں نہیں اداروں میں بننے والے قواعد پر غور کرتے، جو عوام کو دن بدن مشکلات میں گھیرتے جارہے ہیں۔ ایک صاحب کراچی الیکٹرک کے دفتر گئے کہ میں گزشتہ 18 سال سے جس فلیٹ میں رہتا ہوں اس کا ماہانہ بل جو باقاعدگی سے ادا کرتے تھے لیکن ان کا بجلی کا بل بلڈر کے نام سے آرہا ہے، انھوں نے درخواست دی کہ اس بل میں میرا نام ڈالا جائے، اپنی ملکیت کے اصل ڈاکومنٹ بھی دکھائے۔
شناختی کارڈ پر بھی اسی جگہ کا پتہ ہے، لیکن کہا جاکر ملکیت کے ڈاکومنٹس کی تصدیق کراکر لائیں، پھر دوبارہ کہا گیا ایک حلف نامہ اسٹمپ پیپر پر لائیں، یہ سب لاکر دے دیا تو کہا گیا پہلے آپ کے گھر کا لوڈ چیک ہوگا، پھر فی کلو واٹ بجلی پر 1200 روپے کے حساب سے تخمینہ لگایا جائے گا جو تقریباً 8 کلو واٹ پر دس ہزار روپے کے قریب بنتا ہے، جب یہ پروسیس پورا ہوجائے گا تب نام تبدیل ہوگا۔ یہ ظلم نہیں ہے کہ جو کنزیومر 20 ہزار سے 22 ہزار بجلی کا بل دے رہا ہے، اس میں سرچارج بھی ہے، GST بھی ہے، اس میں دوسرے ٹیکسز بھی ہیں، اس سے لوڈ کے نام پر پھر رقم ہتھیائی جارہی ہے، جس کا کوئی اخلاقی جواز بھی نہیں۔ کیونکہ بجلی کا بل اس کے استعمال کے مطابق ہوتا ہے، اس میں بھی اگر یونٹس 100 سے زیادہ ہوں، 200 سے زیادہ ہوں یا 300 سے زیادہ ہوں تو جو بجلی پانچ روپے یونٹس ہوتی ہے اسے 16 سے 18 روپے یونٹس تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی محتسب کا ادارہ ہو یا نیپرا کا ادارہ کوئی بھی کراچی الیکٹرک والوں سے حساب کتاب نہیں کرتا۔ عوام احتجاج کرتے ہیں تو انھیں دفتروں سے سیکیورٹی کے عملے کے ذریعہ باہر نکال دیا جاتا ہے۔ اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ان معاملات پر توجہ دیں اور یہ پوچھیں کہ بل پر نام کی تبدیلی کے لیے صرف شناختی کارڈ پر دیا گیا پتہ اور ملکیت کے کاغذات ہی کیوں کافی نہیں ہیں اور نام کی تبدیلی مالک جائیداد کا بنیادی حق ہے، اسے تبدیل کرنے کے لیے لوڈ کی چیکنگ کا مرحلہ کیوں داخل کیا۔ اگر حکومت چاہتی ہے عوام کو سستی بجلی ملے تو وہ بجلی پیدا کرنے والے اداروں سے بجلی کی تقسیم کا حق واپس لے، صرف بجلی پیدا کرنے کاحق ہو، کیونکہ جو بجلی 5 روپے فی یونٹس کے حساب سے 100 یونٹس تک دی جاسکتی ہے، اس بجلی کے استعمال کی مدت Consumption Period بجلی کے ادارہ بڑھا کر سرچارج کے نام پر 5 روپے فی یونٹس والی بجلی 16 سے 18 روپے فی یونٹس تک پہنچادیتے ہیں۔ اگر حکومت ان سے 5 روپے یونٹس خرید کر عوام کو 6 روپے یونٹس فروخت کرے تو اس ملک کے ہر گلی کوچہ میں کاٹیج انڈسٹری کا رواج ہوجائے۔
جہاں جہاں بجلی کا استعمال ہے، چاہے وہ اسپتال ہو یا تعلیمی ادارے، ہوٹل ہوں یا ریسٹورینٹ سب جگہ قیمتیں کم کرنا ہوں گی۔ مگر نہ جانے حکومت کرنے والوں نے ان اداروں کو اتنی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں رولز بنادیتے ہیں اور مسلسل بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ یا کم سے کم اتنا کریں کہ بجلی کے بل کی مدت 30 دن کے بجائے 10 یا 15 دن کردیں تاکہ سرچارج جو یونٹس کے اضافہ کی وجہ ہوتا ہے، کم ہوجائے۔ اس میں کنزیومر کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ چاہے تو اپنا دس روزہ یا پندرہ روزہ بل ادا کرسکے۔ یہ میں نے صرف کراچی الیکٹرک کے معاملات پر لکھا ہے، یہی حال بینکوں کا ہے، کوئی بینک پے آرڈر پر صرف 29 روپے لیتا ہے جب کہ کوئی بینک 228 روپے۔ ارباب اختیار، چاہے اداروں کے سیکریٹری صاحبان ہوں یا وزارتوں کے وزیر و مشیر، چاہے پارلیمنٹ کے ارکان ہوں، محتسب اداروں کے معزز جج صاحبان، ان معاملات پر توجہ دیں اور ناجائز اور پریشان کن طریقہ کار کو بدلوائیں اور بے جا لوٹ کھسوٹ سے عوام کو بچائیں۔ یہی پاکستان کو ترقی کی طرف لے جانے کا راستہ ہے اور یہی ان کے فرائض کا حصہ ہے۔