کیا حال ہیں

اگر آپ کسی کی مدد نہیں کرنا چاہتے تو مت پوچھیں کہ ’’ کیا حال ہیں؟‘‘ ورنہ یہ روایتی جملہ بن کر رہ جائے گا۔


میرشاہد حسین November 19, 2015
گذرتے وقت نے جہاں انسان کی زندگی کو سہل اور آسان کیا ہے وہیں بہت سی مشکلات بھی پیدا کر دیں ہیں۔ فوٹو :فائل

''کیا حال ہیں؟'' کہنے کو تو یہ ایک جملہ ہے جو آپ نے بھی اکثر سُنا ہوگا اور کہا بھی ہوگا لیکن اگر ہم اس جملے کا صحیح مفہوم اور مقصد سمجھ لیں تو شاید ہماری زندگی سے محرومی، مایوسی اور اس جیسی کئی بیماریاں دور ہوجائیں جو آج ہماری زندگی میں جا بجا نظر آتی ہیں۔ گذرتے وقت نے جہاں انسان کی زندگی کو سہل اور آسان کیا ہے وہیں بہت سی مشکلات بھی پیدا کر دیں ہیں۔

موبائل انٹرنیٹ کو ہی لے لیں جس نے ہر لمحہ آپ کا رابطہ اپنوں سے بحال کر رکھا ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے حال سے بھی واقف نہیں ہیں۔ چلتے پھرتے ہمارا یہ تکیہ کلام ہوتا ہے کہ ''کیا حال ہیں؟'' اور سامنے سے''سب ٹھیک ہے'' کا جواب آتا ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہو کہ کسی نے اپنے دکھ یا پریشانی کا ذکر کسی سے اس جملے کے جواب میں بیان کردیا ہو اور اگر کہیں ایسا ہو بھی جائے تو ہم سن کر صاف کنی کترا جاتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں اور دکھ بانٹنے سے کم ہوتے ہیں، لیکن ہمارا عمل اِس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ آپ کے معاشرے میں شادی کی تقریب میں 500 سو افراد شریک ہوتے ہیں اور انتقال میں بمشکل 50 لوگ بھی نہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کہا جاتا تھا کہ کسی کی خوشیوں میں شریک ہو سکو یا نہ ہو سکو، لیکن غم میں ضرور شرکت کرو۔ جہاں شام کا اندھیرا پھیلتے ہی لوگ ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کر اپنے دکھ سکھ سنتے تھے آج بجلی کے طفیل ٹی وی کے دکھ سکھ سنتے ہیں اور اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ سننے سے محروم رہتے ہیں۔

ایک لطیفہ جو آج کی حقیقت بن چکا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ایک دور دیہات سے ایک شخص کا دوست ملنے کیلئے اس کے پاس آیا تو اس نے اپنے گھر کے متعلق پوچھنا شروع کیا۔

دوست کہنے لگا، سب ٹھیک ہے بس وہ جو تمہاری بھینس تھی وہ مرگئی۔

وہ شخص تعجب اور دکھ کے ملے جلے انداز میں بولا ،''وہ کیسے؟''

اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا، اسی لئے ایک دن بیمار ہوکر مرگئی، لیکن باقی سب ٹھیک ہے، دوست نے بتایا۔

اچھا ۔۔۔۔ گھر میں جو نوکر رکھا تھا وہ کدھر گیا؟

جب اسے تنخواہ نہیں ملے گی تو ایک دن تو اس نے نوکری چھوڑنی ہی تھی۔

نوکر کو تنخواہ کیوں نہیں ملی جبکہ میں ہر ماہ پیسے باقاعدگی سے بھجواتا ہوں۔

گھر میں تمہاری والدہ بیمار تھیں ان کے علاج معالجے میں سب خرچ ہوگئے، باقی سب ٹھیک ہے۔ دوست حسبِ معمول سب ٹھیک ہے کا وطیرہ جاری رکھے ہوئے تھا۔

اچھا ۔۔۔۔ والدہ بیمار تھیں تو انہوں نے مجھے خط کیوں نہیں لکھا؟

''خط کیسے لکھتیں؟ اتنی مُہلت ہی کہاں تھی؟ بس اوپر والے کا بلاوہ آگیا تھا۔

کیا؟ اُن کا انتقال ہو گیا۔؟؟؟؟؟

ہاں، لیکن باقی سب ٹھیک ہے، دوست اطمینان سے بولا۔

کچھ ایسا ہی حال ہمارا بھی ہے، کوئی پوچھے کیا حال ہیں؟ کہیں گے ﷲ کا شکر ہے۔ ﷲ کا شکر بے شک ہر حال میں ادا کرنا چاہئیے لیکن ایسا نہ ہو کہ کوئی آپ کو بتائے کہ فلاں کا انتقال ہوگیا تو آپ کہیں ﷲ کا شکر ہے۔ بے شک ﷲ ہی ہر شخص کی مشکل دور کرنے والا ہے، لیکن اس نے اپنی مشکل کو چھپانے کا کہیں حکم نہیں دیا۔ جب تک آپ خود کسی کو اپنی مشکل بتائیں گے نہیں تو ﷲ بھی آپ کی کچھ مدد نہیں کرے گا۔ جس طرح کوئی شخص کہے کہ ﷲ ہی رزق دینے والا ہے اور وہ ہاتھ پاؤں باندھ کر بیٹھا رہے کہ نوالہ خود میرے منہ میں جائے۔

ہم اپنے دُکھ شاید اس لئے چھپاتے ہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دُکھ کسی کو پسند نہیں اور ہم کسی کو غمزدہ نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن ماہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ دُکھ یا غم کو چھپانے سے دل پر بوجھ بڑھتا ہے اور اس کا اظہار یا ذکر کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔

کسی نے کتنی خوبصورت بات کہی ہے کہ اگر تم کسی کو گُڑ نہیں دے سکتے تو گُڑ جیسی بات ہی کردو، اس لئے اگر آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو برائے مہربانی کسی سے یہ مت پوچھئیے کہ '' کیا حال ہیں؟'' اگر آپ کسی کی مدد نہیں کرنا چاہتے تو برائے مہربانی اس جملہ کو ادا نہ کریں ورنہ یہ روایتی جملہ بن کر رہ جائے گا اور اپنا مقصد اور مفہوم کھو دے گا، کیا خیال ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں