کچھ علاج اس کا بھی

اِس پر سختی کے ساتھ عملدرآمد میں بہت ضروری ہے۔


Dr Mansoor Norani November 18, 2015
[email protected]

ہمارے ملک میں جہاں دیگر معاشرتی برائیوں کے ساتھ ساتھ کم عمر اور کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات آئے دن میڈیا اور اخبارات کی شہ سرخیاں بنا کرتے ہیں، وہاں خواتین کے ساتھ بھی ناروا سلوک اور انتقامی کارروائیوں کے بہت سے واقعات اور قصے اکثر و بیشتر ہمارے گوش گزار ہوتے رہتے ہیں لیکن کوئی ذرا سی بھی جنبش اب تک ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کو جگا نہیں پائی ہے۔ ہم روزانہ ایسی خبریں سنتے رہتے ہیں اور بہت جلد بھول جاتے ہیں۔

ہمارا بہت زیادہ متحرک اور وائبرنٹ الیکٹرانک میڈیا بھی صرف چند دنوں کے لیے اِن واقعات کو اپنے پروگراموں اور ٹاک شوز میں موضوعِ گفتگو بناتا ہے لیکن پھر حسب معمول نئی اور زیادہ پرکشش خبروں کی تلاش میں اِسے درگزر کرتے ہوئے بھول جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اور انسدادِ منشیات نے تعزیرات پاکستان میں ضروری ترمیم کر کے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کا قانون منظور کیا ہے۔ جس کے تحت ایسے گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کو اب زیادہ سے زیادہ عمر قید یا پھر موت کی سزا دی جا سکے گی۔

یہ تو خیر اچھا ہوا کہ قصور اور پشاور جیل کے اندوہناک واقعات کی خبریں لیک ہونے کے بعد ایسا قانون پاس ہو گیا لیکن بات صرف اِس قانون کے بنانے یا اُسے منظور کرنے تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے۔

اِس پر سختی کے ساتھ عملدرآمد میں بہت ضروری ہے۔ ہمارے یہاں دیکھا یہ گیا ہے کہ قوانین تو بڑے بڑے پاس کر دیے جاتے ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد قطعی طور پر نہیں کیا جاتا۔ جس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں ایسے سنگین جرائم کی روز بروز تعداد بڑھتی جاتی ہے اور مجرم بے خوف و خطر مادر پدر آزاد گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے ہم من حیث القوم اخلاقی، معاشرتی اور تہذیبی طور پر ذلت و رسوائی کی انتہائی حدوں کو چھو رہے ہوتے ہیں۔

ہم جہاں ایک طرف مہذب دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے وہاں ہم اپنے رب ِکریم اور خالقِ حقیقی کے غیظ و غضب کو بھی طیش دلا رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہم پر کوئی سخت سے سخت ترین عذاب نازل کر دے۔ زمانہ قدیم میں اِس سے بھی کم درجے کے گناہوں کی مرتکب کئی قومیں صفحہ ہستی سے بالکل اس طرح ملیا میٹ کر دی گئیں کہ وہ آج بھی رہتی دنیا کے لیے عبرت کے نشان کے طور پر جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔

ایسا ہی کچھ معاملہ ہماری خواتین کے ساتھ بھی روا رکھا جا رہا ہے۔ معصوم اور بے گناہ لڑکیوں کی اجتماعی زیادتی کے واقعات ہم اکثر و بیشتر سنتے رہتے ہیں۔ علاقے کے بااثر غنڈہ عناصر کے ہاتھوں اُنہیں سرعام برہنہ کر کے گلیوں میں نچایا بھی جاتا رہا ہے لیکن آج تک کسی کو شاید ہی کوئی سزا ملی ہو۔ اِس کے علاوہ صرف شک کی بنیاد پر خواتین کے چہروں کو تیزاب جیسی مہلک شہ سے جلا دینے اور اُن کے ناک و کان کاٹ دینے جیسے سنگین جرم کے مرتکب افراد بھی ہمارے کمزور قانونی اور عدالتی نظام کی وجہ سے اب تک بچے ہوئے ہیں۔

حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی عورت یا لڑکی کا چہرہ جلانے والے کو بھی اُسی طرح تیزاب سے جھلسا دینا چاہیے تا کہ آیندہ کوئی بھی شخص ایسا کرنے سے قطعاً باز رہے۔ ناک کان کاٹنے والے کے بھی اپنے ناک اور کان کاٹ دیے جائیں کہ اُسے احساس ہو کہ یہ کتنا سنگین گھناؤنا جرم ہے۔ کچھ دنوں کے لیے ہمارے یہاں شور اُٹھتا ہے لیکن پھر وہی سکوت اور بے حسی۔ حقوقِ انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والی تنظیمیں بھی ایسے واقعات کی روک تھام اور اُس کے سدِباب کے لیے کوئی خاطر خواہ مہم چلانے میں ہنوز کامیاب نہیں ہو پائی ہیں۔ بلکہ اِن تنظیموں نے ابھی تک اِس پر سوچ و بچار ہی نہیں کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے جرائم کے ارتکاب کرنے والے افراد خود کو تمام قوانین سے مبرا اور آزاد تصور کرتے ہیں اور بے خوف و نڈر ہو کر خواتین کے ساتھ مسلسل زیادتی کرتے رہتے ہیں اور بے بس و بے سہارا لڑکیاں اِنصاف نہ ملنے پر خود کشی کرنے پر مجبور ہوتی رہی ہیں۔

خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات کی خبریں بھی آئے دن ہمارے علم میں آتی رہتی ہیں۔ کہیں کسی لڑکی کو مٹی کا تیل یا پیٹرول چھڑک کر جلا دیا جاتا ہے اور کہیں اُسے شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں شوہر کے علاوہ گھر کے دیگر افراد کی جانب سے اُس اکیلی جان پر ہونے والے جبر و ستم کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ہمیں ایسے واقعات زیادہ تر برِصغیر کے ممالک میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مغرب اور یورپی ممالک میں ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ حقوق نسواں کے نام پر ہمارے یہاں سیاست تو بہت کی گئی لیکن عملاً کچھ نہیں کیا گیا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں پارلیمنٹ سے اِس سلسلے میں ایک بل بھی منظور کیا گیا لیکن پھر کیا ہوا۔ اِس بل سے فیضیاب ہونے والا اور اُس کا اصل وصول کنندہ کون تھا۔ غریب اور بے بس خواتین یا پھر ماڈرن اور لبرل پسند طبقے کی خواتین جنھیں پہلے ہمارے معاشرے میں آزاد اور نیم برہنہ گھومنے پھرنے اور فیشن شوز منعقد کروانے میں دشواریوں کا سامنا تھا۔

اِس بل کی منظوری کے بعد ہمارے ملک میں مغرب کی تقلید کرنے والوں کا ایک ایسا طبقہ فعال، متحرک اور سرگرم ہو چکا ہے جو فیشن شوز اور کیٹ واک کے نام پر قوم کو بے لگام آزادی اور بے راہ روی کی جانب اِس تیزی کے ساتھ دھکیل رہا ہے کہ جہاں سے واپس ہونا اب اُن کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔ ذرا غور کریں کہ حقوقِ نسواں کے نام پر عام خواتین کو کونسے حقوق مل گئے ہیں۔ کیا اُن کے ساتھ ہونے والے گھریلو تشدد کی وارداتوں میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔

یا اِس تشدد کا شکار ہونے والی کسی لڑکی کو اب تک کوئی انصاف مل پایا ہے۔ مظلوم اور بے بس لڑکی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے مرتکب کسی مجرم کو سزا مل پائی ہے۔ تیزاب سے جلا دینے والی کسی بھی معصوم لڑکی کی کوئی داد رسی ممکن ہو پائی ہے۔ اُس کے ناک اور کان کاٹ دینے والے کسی مرد کو آج تک کوئی سزا دی گئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اِس قانون کے پاس ہونے کے بعد گھریلو تشدد کا کوئی واقعہ ہی رونما نہیں ہوتا۔ کس بہو کو مارا پیٹا نہیں جاتا۔ کس بیوی کو طلاق کے نام پر ڈرایا اور دھمکایا نہیں جاتا۔ کس پر بے راہ روی کا جھوٹا الزام نہیں لگایا جاتا۔ گلیوں اور محلوں میں بھی اُس کی عزت کی جاتی۔

وہ اگر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور روٹی کی خاطر بازار میں نکلے تو کوئی گندی نظریں اُسے پریشان اور پر اگندہ نہیں کرتیں۔ تیزاب پھینک کر کسی عورت کا چہرہ مسخ کرنے والے شخص کو ایسی عبرت ناک سزا دی جاتی کہ پھر کوئی شخص ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ پاتا۔ مگر کیا ہوا نہ گھریلو تشدد کم ہوا اور نہ زیادتی کی وارداتیں کم ہوئیں۔ ناک، کان، کاٹنے والے اور تیزاب سے چہرہ جھلسانے والے آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ قانون کی کوئی گرفت اُنہیں قابو نہیں کر پائی ہے۔

زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکیاں دار رسی اور انصاف نہ ملنے پر آج بھی خودکشیاں کر رہی ہیں۔ ہمیں ایک ایسے نظام اور قانون کی شدید ضرورت ہے جس میں مجبور اور بے بس خواتین کے ساتھ ہونے والی بے تحاشہ زیادتیوں اور ناانصافیوں کا ازالہ ہو سکے۔ ایسے قانون کی صرف منظوری ہی نہیں بلکہ اُس پر مکمل عملدرآمد کی بھی یقین دہانی ہونی چاہیے۔ تبھی جا کر ہم اپنے معاشرے میں خواتین کو اُن کا صحیح حق اور مقام دلوا پائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں